شہر خموشاں میں میرا آنا جانا بہت پرانا ہے اور جب سے ماں باپ جیسی عزیز از جان ہستیاں یہاں آن بسی ہیں تو یہ آنا جانا اب روزمرّہ کے معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ شہر خموشاں بھی کیسا شہر ہے جہاں کیسا کیسا ناگزیر... کیسی کیسی شان و شوکت والا منوں مٹی تلے مٹی ہو چکا ہے۔ حدِنگاہ تک قبریں ہی قبریں ہیں جو کہہ رہی ہیں کہ ہم غفلتوں کے مارے اسی مغالطے میں رہے کہ اگر ہم نہ رہے تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ یہ سب کچھ انہیں کے دم قدم سے ہے۔ اپنی اپنی اَناؤں‘ خطاؤں میں گم یہ سارے اپنی طاقت اور اقتدار کے نشے میں اس قدر مست تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب ان کا اقتدار ان کے گلے کا طوق بنا اور ان کی طاقت ان کی کمزوری بنتی چلی گئی۔ مِٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے... زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔
جب بھی یہاں آتا ہوں ایک قبر کے کتبہ پر لکھا ہوا یہ فقرہ ''میں اہم تھا... یہی وہم تھا‘‘ ہمیشہ ہی منہ چڑاتا ہے گویا کہہ رہا ہو کہ تم کس مغالطے میں ہو‘ زندگی کے جھمیلوں سے گہماگہمی تک‘ قصراقتدار سے لے کر محفلِ یاراں تک‘ سماجی میل جول سے لے کر ستائشِ باہمی تک‘ شب و روز سے لے کر ماہ و سال تک‘ سب مغالطے ہی مغالطے ہیں۔ تمہاری آنیاں جانیاں ہوں یا خاطر داریاں‘ عہدو پیماں ہوں یا وفاداریاں‘ وضع داریاں ہوں یا دلداریاں‘ ان سبھی کی اوقات کیا ہے‘ پانی کا بلبلہ اور ہوا کا جھونکا‘ موت تمہاری ساری منصوبہ بندیوں اور مضبوط ارادوں سے کہیں زیادہ پائیدارہے۔ اپنے آپ کو بہت مصروف اور ناگزیر سمجھتے ہو‘ اپنے اردگرد لوگوں کا ہجوم پا کر کیا سمجھتے ہو‘کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا ...ہرگز نہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے قبر کایہ کتبہ مجھ سے ہم کلام ہو اوراس پر لکھا ہوا فقرہ زندگی کی اصل حقیقت اور اوقات چیخ چیخ کرباور کروا رہا ہو‘ یہ ایک دن کی بات نہیں جب بھی یہاں آتا ہوں یہ کتبہ پاؤں جکڑ لیتا ہے۔ قدم من من کے محسوس ہوتے ہیں باوجود ہزار کوشش کے راستہ بدل نہیں پاتا کہ اس قبر سے بچ کر گزر جاؤں۔ شہر خموشاں میں آنا جانا ہی در اصل اپنی اوقات اور حقیقت کو پہچاننا ہے۔ ماں باپ سمیت دیگر عزیزواقارب اور دوست احباب کی دعائے مغفرت اپنی جگہ میں تو باقاعدہ گپ شپ بھی کر لیتا ہوں۔ ماں باپ کے ساتھ دکھ سکھ شیئر کرنے کے علاوہ نجانے کیا کچھ کہہ کر اپنے اعصاب اور نفسیات کو ہلکا کر لیتا ہوں اور یوں محسوس ہوتا ہے وہ میری بات نہ صرف سن رہے ہیں بلکہ میری اسی طرح رہنمائی بھی کر رہے ہیں جیسے شہر خموشاں میں آنے سے پہلے کیا کرتے تھے۔ شہرِ خموشاں کے اس سکوت میں پرندوں کی چہچہاہٹ اس افسردہ ماحول میں ایسی موسیقی کا کام کرتی ہے جو تادیر وہاں سے ہلنے نہیں دیتی‘ ان کیفیات کا احاطہ کرنے کے لیے الفاظ کے قحط کا سامنا ہے کیونکہ جس تن لاگے سو تن جانے۔
زندگی بھی کیا گورکھ دھندا ہے‘ روح کا جسم سے رشتہ ٹوٹتے ہی سار امنظر نامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ کوئی نام تک لینا گوارا نہیں کرتا‘ نام کے بجائے میت اور جنازہ کہہ کر پکارا جاتا ہے‘ عزیزواقارب قبر کی تیاری اور کفن کا انتظام اس قدر مستعدی سے کرتے نظر آتے ہیں گویا بس کسی طرح اس میت کو اس کی آخری آرامگاہ تک پہنچا دیں۔ جن کے بغیر ایک پل نہیں گزرتا تھا وہ بھی بار بار جنازے کا ٹائم پوچھتے نظر آتے ہیں۔ آج میں شہرِ خموشاں میں اس امید پر قبروں کے درمیان بھٹک رہا ہوں کہ کل جب میں اس شہرِ خموشاں میں آبسوں گا تو شاہ میر اور ولید بھی اسی طرح شہر خموشاں میں آکر گپ شپ کے علاوہ حالات و مسائل شیئر کیا کریں گے۔ زندگی اسی کا نام ہے اور اس بے معنی اور فانی زندگی کی بس اتنی ہی اوقات ہے کہ کبھی روتے روتے ہنسنا پڑتا ہوں تو کبھی اپنے ہنسنے پہ رونا آتا ہے۔ ایسے سفر پر گامزن جس میں نہ مرضی شامل‘ نہ پسند ناپسند کا خیال رکھا گیا‘ نہ حالات پر اختیار نہ وسائل پر‘ گوتم بدھ نے ترکِ دنیا کرتے وقت یونہی نہیں کہا تھا کہ دنیا دکھوں کا گھر ہے‘ دکھوں کی اس بستی میں بسنے والے سبھی تو گوتم بدھ جیسی جرأت اور بے نیازی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور وہ دکھوں کی اس نگری میں نگر نگر بھٹکنے کے بعد بالآخر ان دکھوں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پاکر اس شہرِ خموشاں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
عدم سے وجود میں آنے پر کان میں اذان دی جاتی ہے تو وجود سے عدم میں جانے پر اس اذان کی نماز ادا کی جاتی ہے‘ زندگی بھر کے جھمیلے اور سارا گورکھ دھندا بس یوں خواب دکھائی دیتا ہے کہ یہ سارا دورانیہ صرف اذان اور نماز کا وقفہ ہے۔ یہ وقفہ ایسے ہاتھوں سے نکلتا ہے گویا مٹھی سے سرکتی ہوئی ریت ہو‘ پلک جھپکتے ہی منظر بدل جاتا ہے‘ بھرپور زندگی کے باوجود بھی اذان اور نماز کا یہ وقفہ جھونکے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر عذاب اور کیا ہوگا کہ ہم اپنے مرنے تک نجانے کتنی بار مرتے ہیں‘ قطرہ قطرہ ریزہ ریزہ دھیرے دھیرے اور جب بھی ہمارا کوئی اپنا پیارا اور عزیز وجود سے عدم میں جاتا ہے تو اس کی موت کی تلخی کو اپنے اندر یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا چند قطرے موت ہمارے اندر بھی سرایت کر چکی ہے۔ جانے والا منوں مٹی تلے جاسویا ہوتا ہے لیکن اپنی موت کی تلخی ہماری رگوں میں اس طرح چھوڑ جاتا ہے کہ ہم اپنی موت تک اس کی جدائی کو قطرہ قطرہ محسوس کرتے‘ ریزہ ریزہ بکھرتے اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
عمر کا ایک حصہ وہ تھا جب اپنی موت سے ڈر نہیں بس اپنوں کی موت سے ڈر لگتا تھا۔ اب یہ ڈر دُہرا ہو چکا ہے‘ اب اپنی موت کا تصور بھی اس قدر جاں لیوا ہے کہ جان سے پیارے پسماندگان کی فکر ہلکان کیے رکھتی ہے کہ ان کا کیا ہوگا ‘میری موت کا دکھ کیسے برداشت کر پائیں گے اور بعد ازاں حالاتِ پریشاں سے کیسے نبرد آزما ہو سکیں گے کیونکہ یہاں حال کا کچھ پتا ہے نہ مستقبل کی کوئی ضمانت‘ اس کے برعکس کسی فلاحی ریاست میں پیدا ہونے والوں کے دکھ ہم سے یکسر مختلف ہوتے ہیں‘ انہیں ایسے وسوسوں اور اندیشوں کا سامنا نہیں ہوتا کہ ان کے بعد ان کے پسماندگان حکمرانوں کی گورننس کے متحمل کیسے ہو سکیں گے۔ ایسے میں یہ وسوسے اور اندیشے دن کا چین برباد کرنے سے لیکر رات کی نیند لوٹنے کے علاوہ مرنے کا خوف دہرا کر ڈالتے ہیں‘ تاہم مایوسی اور بے بسی کے عالم میں یہ اشعار بے اختیار زبان پر آجاتے ہیں:
آہستہ چل زندگی ...
ابھی کئی قرض چکانا باقی ہیں
کچھ درد مٹانا باقی ہیں
کچھ فرض نبھانا باقی ہیں
رفتار میں ترے چلنے سے ...
کچھ روٹھ گئے کچھ چھوٹ گئے
روٹھوں کا منانا باقی ہے
روتوں کو ہنسانا باقی ہے
کچھ حسرتیں ابھی ادھوری ہیں
کچھ کام بھی اور ضروری ہیں
خواہشیں جو گھٹ گئیں اس دل میں...
اُن کو دفنانا باقی ہے
کچھ رشتے بن کر ٹوٹ گئے
کچھ جڑتے جڑتے چھوٹ گئے
ان ٹوٹے پھوٹے رشتوں کے
زخموں کو مٹانا باقی ہے
ان سانسوں پر حق ہے جن کا
ان کو سمجھانا باقی ہے
آہستہ چل زندگی...
ابھی قرض چکانا باقی ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved