تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     02-02-2021

گورننس کا ڈھانچہ اور ذہنیت بدلنے کی ضرورت

حالیہ دنوں میں پاکستان میں بدعنوانی کے بارے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ملکی اکابرین نے ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ حزبِ اختلاف والوں کے رد عمل سے تو ظاہر ہوتا ہے جیسے ان کادورِ حکومت ہر طرح کی بد عنوانی سے مکمل طور پر پاک تھا۔آئیے تحقیق کی روشنی میں ان مسئلوں کا جا ئزہ لیتے ہیں جن میں بیوروکریسی کی اصلاحات کے خلاف سخت مزاحمت‘ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ درجہ بندی‘ مسلم لیگ (ن) کے دور میں سربیا میں سید عادل گیلانی کی بحیثیت سفیر تعیناتی اور سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات پر اعتراض شامل ہیں۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو یہ معاشی پالیسیوں میں کچھ بنیادی اصلاحات کرنے میں یقیناناکام رہی ہے ۔ یہ پاکستان پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کوایک آن لائن سسٹم کے ساتھ تبدیل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی اور اس حکومت نے شبر زیدی جیسے ماہر ِمعاشیات کو بھی چیئرمین ایف بی آر کی حیثیت سے قربان کر دیا ہے۔ ان سب کے باوجود آیئے دیکھیے کہ پچھلے دہائی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کس طرح درجہ بندی کی ہے ۔ 2010ء اور 2020ء کے درمیان بدعنوانی کے حوالے سے جو درجہ بندیاں ہوئی ہیں وہ بہت ہی دلچسپ ہیں۔ 2012ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہماری رینکنگ 146سے 139پر آگئی تھی‘ جبکہ حیران کن طور2014ء میں یہ 17پوائنٹس بہتری کے ساتھ 126ہو گئی تھی۔2016ء اور 2018ء میں ہماری درجہ بندی بالترتیب 116اور 117تھی‘ کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کرلیں کہ اس حیرت انگیز بہتری کا تعلق سید عادل گیلانی (جو کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان چیپڑ کے سربراہ تھے) کو سربیا میں سفیر تعینات کرنے سے تھا؟ یہ فیصلہ 2016ء میں ہوا تھا جس پر مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اعتراض ہوا تھا لیکن نوازشریف نے سب کی سنی ان سنی کردی ۔یہ وہ وقت تھا جب ایک طرف درجہ بندی میں یہ بہتریاں ہورہی تھی جبکہ اصل میں دوسرے طرف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا پروگرام بنا رہاتھا۔یہ وہ وقت تھا جب بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کی وجہ سے پاکستان کا مالیاتی نظام پوری دنیا میں رسوا ہورہا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب پنجاب کے اعلیٰ اور وفادار افسروں کو 60‘60کمپنیوں کی سربراہی سونپی جارہی تھی۔یہ وقت تھا جب سٹیٹ بینک کی آڈٹ رپورٹس میں تین بینکوں‘ جن پر منی لانڈرنگ اور بے ضابطگیوں کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی تھی‘ لیکن اسحاق ڈار نے اس رپورٹ کو دبانے کا حکم دیا تھا۔
اسی طرح ایک دفعہ اردشیر کاوس جی‘ جو کہ ایک بڑے کالم نگار اور نوازشریف کے ناقد تھے کو خریدنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن ناکام رہے ۔ یہ بات انہوں بیگم عابدہ حسین اور فخر امام کے گھر پر ہمیں خود بتائی تھی کہ نوازشریف نے ان سے ملاقات کے لیے درخواست کی اور ساتھ ہی لانے کے لیے ایک خصوصی طیارہ بھیجنے کی پیش کش کی لیکن وہ عام فلائٹ سے اسلام آباد آگئے۔ اسی طرح وزیر اعظم ہاؤس میں ایک میٹنگ کے دوران ان کو سندھ کی گورنری کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔کاوس جی نے کہا کہ میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کیا کہ یہ میرا مزاج نہیں ہے‘ اتنے میں شہباز شریف بیچ میں آگئے اور میری جہازرانی کی کمپنی کا پوچھا اور کہا کہ آپ اپنی کمپنی کے لیے قرض کیوں نہیں لیتے ہیں؟ اس میں ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں‘ تو انہوں نے کہا کہ میں پھر یہ قرض واپس کیسے کروں گا؟ تو شہباز شریف نے کہا کہ کون آپ کو کہہ رہا ہے کہ آپ واپس کریں۔ کاوس جی نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور اسی طرح یہ کہانی ادھر ہی ختم ہوگئی۔
اب آتے ہیں سینیٹ الیکشن میں ہاتھ اٹھانے(شو آف ہینڈ) کے ذریعے انتخابات کی طرف۔ پوری حزب اختلاف عجیب وجوہات کی بنا پر اس طریقہ انتخاب کی مخالفت کر رہی ہے ‘ جبکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اُس وقت کی حکمران جماعت اور دوسرے اتحادیوں نے اس شق کے ذریعے اپنے پارلیمانی ارکان کو غلاموں میں تبدیل کیا تھا کہ اگر وہ پارٹی پالیسی کی مخالفت کریں گے تو ان کو پارٹی سے نکالا جائے گا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے ؟ اگر اس شق کا واحد مقصد ہارس ٹریڈنگ کوروکنا تھا تو وہ کیوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دینے کے طریقے کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 218 کی ذیلی شق تین الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ بدعنوانی سے پاک شفاف اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنائے ‘ آئین کا آرٹیکل 220 بھی الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ خفیہ اداروں سمیت انتظامیہ سے معاونت لے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 219 کی ذیلی شق پانچ بی الیکشن کمیشن پر اسی طرح کی ذمہ داریوں کی عکاس ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ سینیٹ کا انتخاب ان ڈائریکٹ الیکشن ہے اور جب کسی امیدوار کی جماعت الیکٹوریٹ (صوبائی اسمبلی) سے اپنی نمائندگی کے برعکس زیادہ ووٹ حاصل کرتی ہے تو قدرتی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین نے اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا ہے اور بالخصوص اس طرح کے ارکان کی شناخت ان کی پارٹی بھی نہیں کر سکتی ‘ یہی کچھ سینیٹ انتخابات میں ہوتا رہا ہے؛چنانچہ جن سیاسی جماعتوں کو سینیٹ الیکشن میں اپنے ووٹ ٹوٹنے کی شکایت رہی ہے وہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ الیکشن کمیشن انتخابات میں کی جانے والی ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کرے ‘ ووٹنگ کے فارمولہ اور پارٹی پوزیشن کی روشنی میں الیکشن کمیشن وہ انتخاب جیتنے والے امیدواروں سے پوچھے کہ انہوں نے دیگر جماعتوں کے ارکان سے کس طرح ووٹ حاصل کئے اور انتخاب میں کامیابی حاصل کس طرح کی اور ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے والوں کو سزا دے۔شو آف ہینڈ سے ہارس ٹریڈنگ کا امکان یقینی طور پر ختم ہو جاتا ‘ مگر یہاں اپوزیشن انتخابی شفافیت کے ایک عمل کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے۔
گورننس ‘ قانون کی حکمرانی ‘ اور بدعنوانی کو کم سے کم کرنا درحقیقت موجودہ گورننس ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ذہنیت سے بھی منسلک ہے ۔کیا مجھے کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں کوئی شخص سفارش یا رشوت کے بغیر کوئی سرکاری نوکری پا سکتا ہے ؟ سوائے چند استثنائی صورتوں کے ہمارے ہاں یہ نظام کی عمومی خوبیو ں میں شامل نہیں ہے۔ نوکری تو دور کی بات ہے عوام کو اپنے حقوق سے متعلق سہولیات کے حصول کے لیے بھی رشوت اور سفارش کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کیا تمام بار ‘ حکومتی فیصلوں پر اعتراض کرنے سے پہلے یہ دیکھ سکتی ہیں کہ نظام عدل میں غریب موکلوں کا کیا حال ہوتا ہے ؟عدلیہ ہمیشہ ناکامیوں کے لیے ایگزیکٹو کو پکارتی ہے‘ لیکن اس 5.6ارب ڈالر کا کیا کریں گے جو پاکستان کو صرف اس لیے برداشت کرنا پڑے کہ بعیر سوچے سمجھے ریکوڈک ڈیل کو منسوخ کردیا گیا تھا۔براڈشیٹ کے ساتھ یک طرفہ معاہدہ ختم کرنا ایک اور معاملہ ہے اورہمارے قانونی ماہرین بیرون ملک ان مقدمات میں کیسے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جو انتہائی غیر پیشہ ورانہ طریقے کے ساتھ ہینڈل کئے گئے ہوں۔آخر میں ‘کیسے وہ سیاستدان جو کہ مختلف طریقوں سے کسی نہ کسی طرح سے بڑے بڑے کاروبار کر رہے ہیں وہ حکومت سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی آمدنی بڑھائے جبکہ یہی سیاستدان ٹیکس نہیں دینا چاہتے ۔شاید ایک بھی ایسی کمپنی نہیں ہوگی جو کسی سیاستدان کی ہو اور وہ سٹاک ایکسچینج کے ساتھ منسلک بھی ہو‘ کیوں؟ کیونکہ وہ ایف بی آر کو جوابدہ نہیں ہونا چاہتے ‘ اس طرح ٹیکس کا حجم نہیں بڑھ رہا کیونکہ ایف بی آر‘ بیوروکریسی‘ سرمایہ دار طبقہ اور سیاستدان آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved