تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-02-2021

تقدیر اور تدبیر

قریب 16 برس پہلے کی بات ہے کہ کسی نے مجھے بتایا کہ دسمبر 2004ء میں آصف علی زرداری اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی‘ خواہ اس نے دو تہائی اکثریت سے بھی کامیابی حاصل کر لی تو اس کے باوجود بھی وہ سب جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک قومی حکومت تشکیل دیں گے۔ مجھے یہ بتانے والے صاحب کہنے لگے کہ یہ سنی سنائی بات نہیں بلکہ خود آصف علی زرداری اپنی اس سوچ اور فیصلے کا اعلان متعدد جگہوں پر کر چکے ہیں۔
27 دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے اب تک مختلف بیانات، تبصروں اور نجی گفتگوئوں میں آصف علی زرداری اور پرویز مشرف جلسہ گاہ میں سکیورٹی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے آئے ہیں۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو زندہ رہتیں تو زرداری صاحب کا اس طرح کھل کر ملکی سیاست کے منظر نامے پر آنا شاید ممکن نہ ہو پاتا، کیونکہ بعض سابقہ تجربات کی بنیاد پر محترمہ کی جانب سے فیصلہ ہو چکا تھا کہ اگر آئندہ حکومت ملی تو زرداری صاحب کو وزیراعظم ہائوس کے معاملات میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ آصف علی زرداری بھٹو کی سیاسی جماعت کے وارث بن گئے۔
16برس قبل‘ دسمبر 2004ء کا ہیرالڈ جریدا دیکھیں تواس کے سر ورق پر جناب آصف علی زرداری کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا ملے گا: Pakistan's Favourite Jailbird seeks a role for himself۔ اسی انگریزی جریدے کے صفحہ 51 پر آصف زرداری سے متعلق لکھا ہوا ملے گا: Meanwhile specluation is rife that Zardari may become the Prime Minister at the head of a National Government۔ کیا یہ انٹرویو اور اس کے اقتباسات ہم سب کیلئے حیران کن نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان واپس آنے سے تین سال قبل ہی جناب زرداری کی زیر قیادت قومی طرز کی حکومت کی خبریں دی جا نے لگی تھیں‘ جو 2008ء کے انتخابات کے بعد اس طرح سچ ثابت ہوئیں کہ اس میں نواز لیگ، مولانا فضل الرحمن، ایم کیو ایم اور ق لیگ سمیت سبھی جماعتیں شامل تھیں۔ (تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت چند دوسری جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا)۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا انتخاب بھی بلامقابلہ ہوا تھا۔
یہ امر بھی ذہن میں رکھئے کہ ہیرالڈ اُسی میڈیا گروپ سے تعلق رکھتا تھا جس کے اخبار نے نیوز لیکس والی مشہور زمانہ سٹوری شائع کی اور پھر نواز شریف کا وہ خصوصی انٹرویو‘ جس میں انہوں نے بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری ریاست پر ڈالی تھی اور 26/11 کے ذمہ دار دہشت گردوں اور ممبئی حملوں کے حوالے سے کہا تھا کہ ذمہ دار دہشت گرد پاکستان سے بھیجے گئے تھے۔ یہ بے بنیاد انٹرویو عین اس وقت شائع ہوا جب دو دن بعد عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی سماعت میں بھارتی وکیل نے دلائل دینا تھے اور سب سے حیران کن امر یہ کہ بھارتی وکیل نے کلبھوشن کا دفاع کرنے کے بجائے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگانے کی روش برقرار رکھی اور اس کے دلائل میں سرفہرست میاں نواز شریف کے انٹرویو کا تراشا تھا۔یہاں پر یہ اہم ترین نکتہ بھی مدنظر رکھئے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت مئی 2006ء میں طے پاتا ہے اور یہ انٹرویو اس سے بھی دو سال قبل کیا جا رہا تھا۔ جدہ کے سرور پیلس میں ان دونوں سیاسی خاندانوں کی آپس میں ملاقات کا بھی اس وقت کوئی تصور نہیں تھا۔
دسمبر 2004ء کے ہیرالڈ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں آصف علی زرداری سے پوچھا گیا ''آپ کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی اگر دو تہائی اکثریت سے بھی آنے والے انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے باوجود وہ قومی حکومت بنائے گی‘ آپ یہ فیصلہ کیسے کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا یہ فیصلہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے لیے قابلِ قبول ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں آصف زرداری کہتے ہیں ''We need to create national consensus in order to cope with the post 9/11 world. It is a monumental task۔ شاید یہ قومی حکومت میں حصہ داری کی آفر تھی کہ جب میاں نواز شریف نے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور محمود اچکزئی سمیت دوسری جماعتوں کے ساتھ محترمہ کی شہادت کے بعد 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو یہ آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کو ان انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔
دوسری جانب جولائی 2006ء میں پرویز مشرف اور منموہن سنگھ کے مابین جب سیاچن پر بیک چینل مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونے لگے تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اس معاہدے کو روکنے کیلئے کانگریس کی حکومت کے خلاف وہی حربہ استعمال کیا جو وہ آگرہ میں اٹل بہاری واجپائی کے خلاف استعمال کر چکی تھی۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ''کارگل میں بھارتی فوج کو دنیا بھر میں رسوا کرنے والے پاکستانی جرنیل سے کشمیر اور سیاچن پر تصفیہ‘‘ کے حوالے سے ایک منفی مہم چھیڑ دی تاکہ دونوں ممالک کے مابین کوئی مذاکرات نہ ہو سکیں کیونکہ اس سے جنرل پرویز مشرف کے ایک بار پھر ''فاتح‘‘ بن جانے کے امکانات تھے اور اسے پورے بھارت میں بھارتی فوج کو تذلیل کے طور پر پیش کیا جانے لگا کہ اس سے بھارتی فوج کے مورال پر بھی برا اثر پڑے گا۔ اس وقت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے‘ جو منموہن سنگھ کو مئی 2007ء میں اسلام آباد بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر چکی تھیں اور ایجنڈے کے مطابق اس دورے میں سیاچن پر دونوں ملکوں کے درمیان تصفیہ ہو جانا طے پایا تھا‘ جنرل جے جے سنگھ کے سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے مجبوراًاسلام آباد پیغام بھیجوایا کہ وہ سیاچن پر ہونے والے تصفیہ کیلئے طے شدہ ایجنڈے سے تو متفق ہیں لیکن کانگریس کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی فوجی حکومت کے بجائے جمہوری حکومت کے ساتھ بیٹھ کر اس کا اعلان کرے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آصف علی زرداری بطور صدرِ پاکستان حلف اٹھا رہے تھے تو حامد کرزئی نے‘ جنہیں بطور صدرِ افغانستان خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا‘ تقریبِ حلف برداری کے بعد پاکستانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''بہت جلد کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی خوش خبری دیتا ہوں‘‘ (اسی تقریب میں حامد کرزئی نے میڈیا سے طنزاً پوچھا: کدھر ہے پرویز مشرف؟ اس سے قبل جنرل مشرف برسلز میں پاکستان پر الزام تراشیوں کے حوالے سے حامد کرزئی کو بے نقط سنا چکے تھے)۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ جو افغان طالبان کے ساتھ پرویز مشرف کے نرم رویے کی وجہ سے بہت پریشان تھی‘ نے فیصلہ کر لیا ہوا تھا کہ پرویز مشرف کو اب فارغ کر دینا چاہئے اور اس کیلئے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد جیسا ایجی ٹیشن والا طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ ہواجس کیلئے کسی ایشو کی تلاش تھی، بعد ازاں افتخار چودھری کی بحالی کا جو کھیل کھیلا گیا‘ وہ تاریخ ہے۔ سمجھ دار عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ہفت روزہ اکانومسٹ کے ذریعے اس کا اشارہ دے دیا تھا کہ مشرف سے ہم نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اکانومسٹ نے اپنے صفحہ اول پر بڑے بڑے لفظوں میں Mr. Musharraf Time's Up لکھتے ہوئے پاکستان میں اپنے حامیوں کو ''Go Ahead‘‘ کا اشارہ کر دیا۔ پیر صاحب پگاڑو مرحوم کا اگست 2006ء کے اخبارات میں شائع ہونے والا وہ انٹرویو بھی آج ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں پرویز مشرف کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ''مارچ میں ڈبل مارچ ہو گا‘‘ اور پھر وہی ہوا۔ 9 مارچ 2007ء کو ایک نئے اور انوکھے طریقے سے ''عدلیہ کی آزادی‘‘ کی مہم شروع ہو گئی۔ پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو جب آپس میں این آر او طے کر رہے تھے تو تقدیر دونوں پر علیحدہ علیحدہ ہنس رہی تھی۔ افسوس ایک سیاسی طور پر تو دوسرا جسمانی طور پر عالمی اسٹیبلشمنٹ سے مار کھا گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved