امریکی صدر جو بائیڈن نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے طے شدہ حساس ہتھیاروں کا سودا روک دیا۔ متحدہ عرب امارات کے لئے اسلحہ فروخت کی یہ ڈیل پہلی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے ''ابراہیمی معاہدوں‘‘ پر دستخط کے عوض طے ہوئی تھی۔ سیکرٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے نیوز کانفرنس میں بتایا ''ہم چاہتے ہیں ہمارے پاس ان معاہدوں کو محفوظ بنانے کی خاطر کئے گئے وعدوں کی پوری جانکاری ہو، ہر نئی انتظامیہ کے لئے کسی بھی زیر التوا سوداکا جائزہ لینا معمول کا عمل ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ جو کچھ طے ہوا‘ وہ ہماری خارجہ پالیسی اور سٹریٹیجک مقاصد کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو گا‘‘۔ یہ واضح نہیں کہ تعطل کا یہ وقفہ کتنا طویل ہو گا، امریکی عہدیداروں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اسلحہ بیچنے کی دیگر ڈیلز پہ اس فیصلے کا کیا اثر پڑے گا۔ گزشتہ سال اگست میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے پر متفق ہوئے تو ٹرمپ انتظامیہ نے متحدہ عرب امارات سے اسلحہ فروخت کا 23.37 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا۔ اس پیکیج میں پچاس ایف 35 اے لڑاکا طیاروں کے علاوہ ایم کیو 99 ڈرونز اور میزائلوں کی کھیپ بھی شامل تھی۔ قبل ازیں مسٹر بلنکن نے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو بتایا '' اس ڈیل میں کچھ ایسے وعدے شامل ہیں جو متذکرہ ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے تناظر میں کئے گئے، ان پہ ہمیں کڑی نظر رکھنا پڑے گی، مجھے یقین ہے کمیٹی بھی یہی محسوس کرتی ہو گی‘‘۔ امریکی قانون سازوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا حساس امریکی دفاعی ٹیکنالوجی عرب ممالک کے ہاتھوں محفوظ ہوگی؟ ڈیموکریٹس نے اسلحہ منتقلی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2019ء میں ٹرمپ انتظامیہ کانگریس کو نظرانداز کرکے شاذ و نادر استعمال میں لائے جانے والے ایک قانونی اختیار کو بروئے کار لائی۔ بائیڈن انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں نے یمن جنگ میں مذکورہ ممالک کے کردار پہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسلحہ ڈیل پہ نظرثانی انتظامیہ کا اہم اقدام ہے اور ہم صدر بائیڈن سے یمن تنازع میں فوجی تعاون اور اسلحہ سپلائی پر مستقل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امریکا میں متحدہ عرب امارات کے ترجمان یوسف الطیبہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا: اس جائزے کی توقع تھی‘ یہ ایک انتظامیہ سے دوسری امریکی انتظامیہ کو اقتدار منتقلی کی روایت رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلحہ خریدنے کی یہ ڈیل امریکا کی طرح متحدہ عرب امارات کو بھی جارحیت کے خلاف مضبوط رکاوٹ رکھنے کی اجازت دیتی ہے، اس سے متحدہ عرب امارات کو اجتماعی سلامتی کے عالمی تقاضوں اور زیادہ تر علاقائی دفاع کا بوجھ اٹھانے میں مدد ملے گی، جس سے امریکا کو دیگر عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اپنے اُن دفاعی اثاثوں کو یہاں سے نکالنے میں مدد ملے گی جو طویل عرصے سے ہماری دو طرفہ ترجیح رہے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے غیر علانیہ خاتمے کے ساتھ ہی امریکا نے یکطرفہ طور پہ مڈل ایسٹ سے اپنی فورسزکی بساط لپیٹ کے پورے خطے کو اسرائیل کے رحم و کرم کے حوالے کر دیا ہے اور اب بائیڈن انتظامیہ نے عرب امارت اور سعودی عرب سے ایف 35 طیاروں سمیت حساس دفاعی ٹیکنالوجی فراہمی کی ڈیل روک کے نئی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ شاید مغربی دنیا نے دہشت گردی کے فروغ اور اس کے خلاف شروع کی جانے والی مہمات کے مقاصد حاصل کر لئے ہیں، اس لئے عالمی مقتدرہ مڈل ایسٹ تنازع کو کسی نئی جہت سے مینج کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ خطے میں پھیلی بدامنی بارے عالمی میڈیا میں خبروں کا بہاؤ رُکا تو شرق الاوسط کے ماحول پہ سناٹا چھا گیا، اس وقت پوری دنیا دم بخود ہو کے باہمی جنگوں اور داخلی شورشوں کے شعلوں میں جلنے والے مڈل ایسٹ میں نئی کشمکش کی نمو دیکھ رہی ہے۔ امر واقع بھی یہی ہے کہ گزشتہ تیس سالوں کے دوران امریکا نے مشرق وسطیٰ کی مملکتوں کے مابین پائے جانے والے تنازعات کا استحصال کر کے پہلے انہیں باہمی جنگ و جدل میں الجھا کے کمزور کیا پھر وہاں پراکسی جنگوں کے ذریعے ایسے مہلک عسکری کلچرکی آبیاری کی جس نے ان مملکتوں کے علاوہ مسلم معاشروں کو بھی ناقابل عبور تقسیم سے دوچار کیا۔ بظاہر یہاں سے داعش، جبۃ النصر اور القاعدہ سمیت ان درجنوں جنگجو تنظیموں کا عسکری نیٹ ورک معدوم کر دیاگیا جنہوں نے پچھلی دو دہائیوں تک بلادِ عرب کو وقفِ اضطراب رکھا لیکن ان گروہوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی قوت کو پروان چڑھانے والے اسباب اب بھی موجود ہیں، جنہیں کوئی چھوٹا بڑا حادثہ کسی بھی وقت مہمیز دے کر دوبارہ متحرک کر سکتا ہے۔ خطے میں قیامِ امن کیلئے عرب مملکتوں کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی جو راہ دکھائی گئی تھی وہ بھی فریب ثابت ہوئی۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ اسرائیل سے وابستگی نے عرب مملکتوں کے وجود کو زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ پہلے امریکا جیسی عالمی طاقت جب شرقِ وسط میں کسی جنگی کارروائی کا ارادہ کرتی تو اسے یورپ کے علاوہ عالمی برادری کی مہنگی حمایت خریدنا پڑتی تھی دوسرا، ان مزاحمتی گروہوں کیلئے دنیا بھر میں پھیلے امریکا کے معاشی و سیاسی مفادات اور وسیع دفاعی ڈھانچے کو نقصان پہنچانا آسان تھا جو بظاہر امریکی فورسز کا ہدف ہوا کرتے تھے لیکن اس وقت اسرائیل اگر ایران یا کسی عرب مملکت کو جارحیت کا نشانہ بنائے تو اسے دنیا کی مدد چاہیے نہ عالمی برادری اس کی جارحیت کی طرف انگلی اٹھا سکے گی۔ گزشتہ ستر سالوں پہ محیط تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مڈل ایسٹ میں اسرائیلی جارحیت کو عالم انسانیت نے بند آنکھوں کے ساتھ قبول کیا، مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر میں کوئی مملکت مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کی جرأت نہ کر سکی۔
حالات کے تیور بتا رہے ہیں اگر بائیڈن انتظامیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید کی طرف قدم بڑھایا تو اسرائیلی مقتدرہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنا کے اس خطے کو ناقابلِ برداشت مشکلات کے حوالے کر سکتی ہے اورپھر یہی پیش دستی وائٹ ہائوس کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے مڈل ایسٹ میں اسرائیل کی بالادستی قائم کرانے کی خاطر امریکی ساکھ پہ جتنے زخم لگائے‘ صدر بائیڈن اپنی پالیسیوں میں کچھ توازن لا کے ان زخموں کو مندمل کرنے کی خاطر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی تجدید اور فلسطینیوں کیلئے دو ریاستی فارمولے کی حمایت کا سوانگ رچا کے مسلمانوں کی اشک شوئی ضرور کریں گے۔
مڈل ایسٹ میں اسرائیل کو داخل کرنے کے مقاصد میں ابھرتے ہوئے ترکی کے بلادِ عرب میں بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کا روکنا بھی شامل ہو گا، روس اور امریکا کے بعد ترکی وہ ملک ہے جس نے شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا میں اپنی فوجیں بھیج کر پوری دنیا کو خوفزدہ کر دیا ہے، صدر اردوان نے لیبیا، آرمینیا اور بحیرہ روم میں فورسز بھیج کے عالمی پاور گیم میں اپنی شراکت کا عندیہ دیا ہے۔ نیٹو کا ممبر ہونے کے ناتے برطانیہ، فرانس اور روس سمیت عالمی طاقتیں ترکی کے ساتھ یورپ کے دروازے پہ جنگ چھیڑنے کے متحمل نہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے ترکی پہ حملہ زن ہونے کی صورت میں عربوں سمیت مسلم دنیا اجتماعی ردعمل دینے کی سکت نہیں رکھتی۔ ان حالات میں سب سے زیادہ نازک پوزیشن پاکستان کی ہو گی۔ پہلے تو پاکستان نہایت آسانی کے ساتھ امریکا سے دفاعی کوآرڈی نیشن بنا لیا کرتا تھا لیکن اب اگر اسرائیل سامنے آیا تو ہماری مملکت کیلئے اس سے ہم آہنگ ہونا یا پھر براہِ راست ٹکرانا دشوار ہو جائے گا۔ قبل ازیں ہم عرب ایران تنازع کے باوجود دونوں مملکتوں سے تعلقات میں توازن پیدا کر لیا کرتے تھے لیکن اب عرب اسرائیل اتحاد کی حمایت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستانی عوام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے شدید مخالف ہیں، وہ ایسی کسی پالیسی کی حمایت نہیں کریں گے جس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اسرائیل کو فائدہ پہنچتا ہو۔