میں نے چھ برس پہلے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جب ڈاکٹر طاہرالقادری اسلام آباد کی شاہراہ دستور سے اپنا دھرنا سمیٹ کر لے گئے اور عمران خان اپنے کنٹینر میں اکیلے رہ گئے۔ ایک وسیع و عریض سڑک پرکنٹینر کے سامنے چند خالی کرسیاں رکھی تھیں، جن پر سرشام کچھ لوگ آکر بیٹھ جاتے اور عمران خان کی تقریرکے درمیانی وقفوں میں سنائی جانے والی موسیقی پر بے ڈھنگا سا ناچ کر اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوجاتے۔ عمران خان دھرنے کے ذریعے حکومت گرانے کا خواب لے کر آئے تھے۔ اپنے ارکانِ اسمبلی سے انہوں نے استعفے بھی دھروا لیے، خیبرپختونخوا کی حکومت بھی توڑنے کی دھمکی دی‘ امپائر کی انگلی تو ان کی سیاست کا استعارہ بن گئی، سول نافرمانی کا اعلان وہ کر بیٹھے مگر حکومت نہ گرا سکے۔ پشاور میں سانحۂ آرمی پبلک سکول کے بعد یہ دھرنا ختم بھی ہوا تو یوں کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ ارکان قومی اسمبلی میں واپس چلے گئے، صوبائی حکومت نہیں ٹوٹی اور امپائر نے بھی انگلی اٹھانے سے انکار کردیا۔ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف دیے گئے اس دھرنے سے کل حاصل وصول ایک عدالتی کمیشن تھا جس نے دوہزار تیرہ کے انتخابات کا پوسٹ مارٹم کرنا تھا۔ لطیفہ یہ کہ اس کمیشن پر نواز شریف دھرنے سے پہلے ہی تیار تھے اور دھرنے کے دوران بھی ان کی پیشکش یہی رہی۔ پھر اس عدالتی کمیشن کا فیصلہ آیا تو عمران خان کا وہ دعویٰ ہی غلط ثابت ہوا جس کی بنا پر وہ چار مہینے دھرنے پر بیٹھے رہے تھے، یعنی دوہزار تیرہ کے الیکشن میں کوئی منظم دھاندلی ثابت نہ ہوئی۔
کیا دھرنا دینا عمران خان کی غلطی تھا اور وہ اپنے مقاصد میں ناکام رہے؟ یہ سوال آج مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ وہ گزشتہ ڈھائی سال سے پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ اس کامیابی تک پہنچنے کیلئے انہیں بے شمار ناکامیوں کا سامنا کرناپڑا ہوگا اور شاید دھرنا سب سے بڑی ناکامی سمجھا گیا تھا‘ لیکن تاریخ یہ ہے کہ یہ دھرنا ان کی دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں کامیابی کا دیباچہ بن گیا۔ اس دھرنے کے ذریعے ہی ان کی سیاسی استقامت کا ثبوت ملا۔ ایک سو چھبیس دن تک روزانہ تقریرنے ان کے پیغام کو پاکستان کے ہرگھر تک پہنچا دیا۔ تبدیلی کا جو خواب انہوں نے دھرنے کے دنوں میں دکھایا اس کی تعبیر دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں پالی۔ شاید ہی آج کوئی اس چہار ماہی دھرنے کوان کی ناکامی سے تعبیر کرے کیونکہ اس کے بعد ہی ان کا خوف نوازشریف حکومت پر تلوار بن کر لٹکتا رہا اوروہ اس قابل بھی نہ رہی کہ دوہزار اٹھارہ میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرسکتی۔ اس دھرنے سے لے کر اب تک کے حالات ذرا ذہن میں تازہ کیجیے اوردل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ عمران خان کا دھرنا کامیاب تھا یا ناکام؟ خان صاحب کے دھرنے کی طرح اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم نے بہت کچھ کہہ رکھا ہے۔ پچھلے سال ستمبرکے جس اجلاس میں اس کی تشکیل ہوئی اس میں نواز شریف کی تقریر نے یہ طے کردیا تھاکہ اس اتحاد کا پہلا ہدف سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کے کردارکو کم کرنا ہے۔ اس کے بعد جلسوں، جلوسوں اور پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بات اکتیس جنوری تک وزیراعظم عمران خان کے استعفے تک آن پہنچی۔ اس دوران اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اعلانات، الیکشن کے بائیکاٹ کے دعوے اور لانگ مارچ کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ پی ڈی ایم کو امید تھی کہ لاہور میں اس کا جلسہ عمران خان کی بساط الٹ دے گا‘ مگر لوگوں کی حاضری کے حوالے سے اس کا انجام وہی ہوا جو خان صاحب کے دھرنے کا ہوا تھا۔ لاہور میں اس ناکامی کے بعد پی ڈی ایم کے پاؤں ہی اکھڑ گئے۔ پیپلزپارٹی مفاہمت کے راستے پر چل نکلی ہے تو نواز شریف بھی اب نام لینے سے گریز کرنے لگے ہیں؛ البتہ مولانا فضل الرحمن وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ الیکشن 2018 کے بعد تھے۔ اس اتحاد کی سیاسی مساوات جو مولانا فضل الرحمن ضرب نواز شریف ضرب آصف علی زرداری سے شروع ہوئی تھی، لاہور جلسے کے بعد مولانا جمع نواز شریف منفی پیپلزپارٹی میں بدل چکی ہے‘ لہٰذا مبلغ نتیجہ یہ کہ پی ڈی ایم کی ہر جماعت پورے زوروشور سے ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور سینیٹ کے لیے بھی امیدواروں کے فیصلے کررہی ہے۔ تاثر یہ ہے کہ وہ تحریک جس کی بنیاد حکومت گرا دینے کے دعوے پراٹھائی گئی تھی، اپنی پیدائش کے صرف چار مہینے بعد فنا کے گھاٹ اتر گئی۔ مگر بات اتنی سادہ نہیں۔
پی ڈی ایم اب تک عمران خان کو نہیں گرا سکی لیکن اس نے اپنی تشکیل سے لے کر آج تک چار مہینوں کے اندر اندرایسی صورتحال پیدا کر دی کہ غیر سیاسی قوتوں کے لئے سیاست میں کردار ادا کرنا مشکل ہوگیا۔ جن حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں، وہاں چھوٹی موٹی باتوں کے سوا کسی بڑی مداخلت کی شکایت کسی نے بھی نہیں کی۔ سندھ میں ایک صوبائی نشست کھو دینا ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف کی حمایت کم ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ سینیٹ الیکشن میں جس طرح خود عمران خان کو متحرک ہونا پڑا ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے 'دوست‘ ان کی مدد سے کترانے لگے ہیں کیونکہ ان کی ذرا سی حرکت بھی ان کے لیے زیادہ بڑی مشکلات کھڑی کردے گی۔
اس تحریک کی دوسری بڑی کامیابی دس برس والی تھیوری کی تدفین ہے۔ باخبر لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن دراصل دس برس کی حکومت کے پہلے پانچ سالوں کے لیے تھے۔ دو ہزار تئیس کے الیکشن میں مداخلت ہوتی یا کچھ اور، جیت عمران خان کے حصے میں ہی آنی تھی۔ اس تھیوری پر کام کرنے والوں کا خیال تھا کہ مقاصد کے حصول کے لیے ریلے دوڑ کی طرح ایک کھلاڑی معین جگہ پر چھڑی دوسرے تازہ دم کھلاڑی کے حوالے کر دے گا اور اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ اس تھیوری اسی دن ختم ہو گئی تھی جب پی ڈی ایم نے روپ دھارا۔
تیسری اہم کامیابی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے مشترکہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیے یوں کہ مبینہ دس سالہ منصوبے کے تحت اس کو آئندہ الیکشن میں سندھ کی حکومت نہیں ملنا تھی‘ اور مسلم لیگ ن کو جو کچھ بھی ملنا تھا وہ شریف خاندان کے بغیر ملنا تھا۔ پی ڈی ایم بننے کے بعد یہ منصوبہ بھی ناکام ہوچکا ہے۔ اب تک ہونے والی یقین دہانیوں کے مطابق پیپلزپارٹی کو آئندہ سندھ میں کسی غیر سیاسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ اسی طرح شریف خاندان کو بھی اتنی گنجائش مل گئی ہے کہ مریم نوازنے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر منعقد کرلیا۔ اس اجلاس سے یہ پیغام بھی چلا گیاکہ ان کی قیادت پر پارٹی میں کوئی اختلاف تھا بھی تو اب نہیں رہا‘ گویا نواز شریف اوران کا خاندان سیاست میں پورے قد کے ساتھ موجود ہیں۔
پی ڈی ایم کی چوتھی بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے حکومت کی نالائقی اتنی کھل کر بیان کی ہے اور اسے اس طرح دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے کہ وہ کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ اپنے اقتدار کی نصف مدت میں اس حکومت کو نااہل مشیروں نے کچھ نہیں کرنے دیا اور بقیہ نصف میں یہ کچھ کرنا بھی چاہے تو اس کے راستے میں پی ڈی ایم کھڑی ہوگی یعنی اب حکومت اپنی باقی ماندہ مدت پوری بھی کرلے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ اب لنگڑی بطخ کی طرح گھسٹ گھسٹ کر ہی دوہزار تئیس تک جائے گی۔ ان حالات میں اگر کوئی ہمدردی اس حکومت کے ساتھ ہوسکتی ہے تو یہ کہ اسے گرا دیا جائے تاکہ باہر آکر اتنا تو کہہ سکے کہ 'ہم تبدیلی تو لے آئے تھے مگر ہمیں نکال دیا گیا‘۔
خان صاحب کا دھرنا ہو یا پی ڈی ایم کی تحریک، ان کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ خیال رکھنابھی ضروری ہے کہ سیاسی تحریکیں یا دھرنے، کبھی ناکام نہیں رہتے۔ ہاں، کامیابی کی نوعیت اور وقت کا اندازہ بعد میں ہوتا ہے۔