تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     03-02-2021

اُن کو بھی شکنجے میں آنا چاہیے ظ

کیسی سرکس ہے گویامستقل بنیادوں پر چلتی چلی جارہی ہے ۔ مختلف کاری گر آتے ہیں اور اپنے اپنے کرتب دکھا کر نکل جاتے ہیں ۔ کیسے کیسے شاندارہنرمند وں کا فن دیکھنے کو ملتا رہتا ہے جو ہاتھ کے اشارے سے سینکڑوں ایکڑ زمین غائب کردیتے ہیں۔ اربوں روپے کی رقوم ڈکار مارے بغیر ہی ہڑپ کرجاتے ہیں اور تو اور قرضوں کی مد میں لی گئی بھاری رقوم پلک جھپکتے میں معاف کرالیتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد پیچھے رہ جاتا ہے تحقیقات کا ڈھول جو اتنے زور شور سے بجایا جاتا ہے کہ اپنی کرنیاں اِس کی آوازوں میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایکشن ری پلے کے طور پر مسلسل رونما ہوتا چلا جارہا ہے، آج سے نہیں گزشتہ 74سالوں سے۔ اِسی کی آڑ میں مخالفین کو کھڈے لائن لگایا جاتا ہے اور اِسی کی اوٹ میں اپنے مفادات کی تکمیل کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ نئے آنے والے بھی اِس روایت پر پوری مضبوطی سے قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقین جانیے کہ یہ واحد ایسا عمل ہے جس پر ہر حکومت پور ی دیانتداری سے عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
Public and Representative Office Disqualification Act (پروڈا)کے متعارف کرائے جانے کے بعد سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج بھی زور وشور سے جاری و ساری ہے۔ لوگ بھول چکے ہوں تو ہم یاد دلائے دیتے ہیں کہ یہ ایکٹ قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہی وجود میں آگیا تھا۔ سنتے ہیں کہ اِس کا مقصد تو گڈ گورننس کو بہتر بنانا بتایا گیا تھا لیکن زیادہ تر سیاسی مخالفین ہی اِس کی زد میں آئے۔ گورنرجنرل غلام محمد نے اِس قانون کا اس خوبی سے استعمال کیا کہ بات کرنے تک سے عاری ہوگئے تھے لیکن اِس قانون کے بل بوتے پر اپنے اقتدار کو برقرار رکھا۔ اُن کے بعد اسکندرمرزا نے بھی اِس روایت پر سختی سے عمل کیا‘ یہ الگ بات کہ بعد میں وہ اپنے محسنوں کے ہاتھوں اقتدار سے محرومی کے بعد جلاوطن کردیے گئے۔ آنے والوں کو کچھ ترمیم و تنسیخ کے بعد ایسے ہی کسی قانون کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایبڈو وجود میں آگیا۔ بس تو پھر یہ سلسلہ آج تک زوروشور سے جاری ہے لیکن ہاتھ ہولا کسی نے نہیں رکھا۔ گڈ گورننس اور کرپشن کے خاتمے کے نام پر بنائے جانے والے بے تحاشا قوانین کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں‘ یہ ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
اِسی تناظر میں دنیا نیوز کے سینئر رپورٹر حسن رضا کی ایک رپورٹ نظر سے گزری تو جھٹکا سا لگاکہ ہرفورم پر قوم کے پیسے بچانے کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھی کیا کچھ نہیں کرتے رہے ۔ سرکاری زمین پر پلازے، پٹرول پمپس اور نجانے کیا کچھ تھا‘جو اِدھر اُدھر ہاتھ پائوں مار کر بنایا گیا۔ مذکورہ رپورٹ میں پانچ موجودہ ایم این ایز اور ایم پی ایز اور 10سابق ایم این ایز اور ایم پی ایز کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔
ہمارے ایک سابق وزیردفاع کی بابت بتایا گیا کہ اُنہوں نے اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی میں قبرستان اور پارک کی جگہ شوکرنے کے بعد اُسے بھی رہائشی علاقوں میں شامل کر لیا، کسی نے سرکاری اراضی پر شاندار شادی ہالز بنا رکھے تھے، کسی صاحب کو مناسب محسوس ہوا تو اُنہوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کرکے وہاں پٹرول پمپ بنا لیا۔ لاہورکے ایک ممبر اسمبلی نے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے کروڑوں روپے مالیت کی 62کنال اراضی پر قبضہ جما رکھا تھا ۔شکرگڑھ سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت نے 24سو کنا ل اراضی کو ذاتی ملکیت سمجھ رکھا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس زمین کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پیلس میں شامل سرکاری اراضی واگزار کرانے کے لیے کارروائی کی گئی جس پر کافی شور مچا ۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ کسی پارسی کی ملکیت تھی جو کراچی کا رہائشی تھا، اِس اراضی پر مہربانوں کی نظر پڑی تو کسی نہ کسی طرح سے اِسے اپنے نام کرالیا گیا۔
اِسی طرح رپورٹ میں متعدد دوسرے صاحبان کے نام بھی شامل ہیں جو اِس وقت بھی ممبر اسمبلی ہیں‘ یا رہ چکے ہیں۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے کیا کر رہے ہیں‘ اِس کی بابت تو اِن کے اقتدار سے جانے کے بعد معلوم ہوگا۔ یہ بھی روایت کے عین مطابق ہے‘ ورنہ تو آٹے ، چینی، پٹرول بحرانوں پر کچھ نہ کچھ کارروائی تو سامنے آ چکی۔ گویا سرکس کے نئے کھیل کے لیے ابھی تھوڑا عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔ فی الحال جو کھیل پیش کیا جا رہا ہے، اُسی سے دل بہلائیں۔
اصل سوال تو یہ ہے کہ جب صاحبانِ اقتدار لوٹ مارکر رہے ہوتے ہیں‘ تب ذمہ دار ادارے کہاں ہوتے ہیں؟ کیا اُن کا وجود ختم ہو چکا ہوتا ہے؟ نچلے عملے کی بات تو ایک طرف‘ یہ جو مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے آتے ہیں، اُن کی اکثریت بھی مزاحمت کرنے کی ہمت نہیں کرتی‘ کیوں؟اِن کی ملازمت کو تو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ کسی غلطی کی پاداش میں اِنہیں او ایس ڈی تو بنایا جاسکتا ہے لیکن ایک مقررہ طویل طریقہ کار پر عمل کے بغیر ملازمت سے نکالا نہیں جاسکتا ۔
شاید معاملہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس ہر جگہ پوری طرح سے سرایت کرچکی ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اگر کوئی شخص غلط کام کررہا ہو تو متعلقہ اداروں کو اُس کی بابت معلوم نہ ہو۔ سب کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے لیکن بیشتر صورتوں میں حصہ طے ہوتا ہے کہ کس کو کیا ملے گا۔ یہی طریقہ کار نچلی سطح تک کارفرما ہے۔ جس کسی کو شک ہے‘ اپنے گھر میں معمولی سی توڑ پھوڑ کرکے دیکھ لے‘ شام تک متعلقہ اداروں کا کوئی نہ کوئی ہرکارہ آپ کے سرپر آن موجود ہوگا کہ نقشہ دکھائیں، منظوری لی گئی ہے؟ این او سی ہے؟ جب مروجہ اصولوں کے مطابق معاملات طے ہوجاتے ہیں تو نقشہ، منظوری اور این او سی کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اِسی مک مکا کے نتیجے میں بڑی بڑی غیرقانونی عمارتیں وجود میں آجاتی ہیں۔ پیسے لے کر اِن عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے والے تو نکل جاتے ہیں لیکن اِن عمارتوں کے اردگرد بسنے والے شہریوں کو مستقل عذاب میں جھونک جاتے ہیں۔ اگر صرف لاہور کی بات کی جائے تو رہائشی علاقوں میں غیر قانونی عمارتوں کی تعداد اَن گنت حد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ سب کی سب ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے تعمیر ہوتی ہیں لیکن نذرانے لے دے کر یہ سب کچھ کرانے والوں کی اکثریت احتساب سے صاف بچ نکلتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت کا آغاز تجاوازت کے خلاف آپریشن سے ہوتا ہے، ہر نئی حکومت پھاوڑے اور کلہاڑے لے کر تجاوازت گرانے کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ کرکے اپنی رٹ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ شاید ہی کبھی یہ سوچا گیا ہو کہ اِس صورت حال کے اصل ذمہ داروں کو بھی قانون کے شکنجے میں لایا جانا چاہیے۔
سچی بات یہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ آج ملک کے حالات کے اصل ذمہ دار متعلقہ سرکاری ادارے ہیں تو ایسا کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک سرکاری اہلکار قانون کے شکنجے میں نہیں جکڑے جائیں گے، تب تک تباہی کا یہ لامتناہی سلسلہ اِسی طرح چلتا رہے گا۔ یہاں تو حالات یہ ہوچکے ہیں کہ جب بھی تھوڑی بہت سختی ہوتی ہے تو رشوت کا ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ عجیب تو تب محسوس ہوتا ہے جب یہ سب کچھ کرنے کے ساتھ ہر وقت آخرت کا خوف بھی کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اتنے ہی حقیقتاً ایسے ہوتے جیسے خود کو ظاہر کرتے ہیں تو آج ہمارے ملک کے یہ حالات ہوتے؟ یہ سچ ہے کہ مختلف حکومتوں کے ادوار میں احتساب کے نام پر اکثر اوقات سرکاری ہرکارے بھی پکڑے جاتے رہے، یہ مثالیں موجودہ دور میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں لیکن بیشتر صورتوں میں اِس کا مقصد احتساب سے زیادہ سیاسی مخالفین کے راز اگلوانا ہوتا ہے۔
کرپٹ سیاستدانوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے، اِن سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ وصول بھی ہونا چاہیے لیکن اِس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ ہربدعنوان کو احتساب کے شکنجے میں جکڑا جائے‘ چاہے اُس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو‘ ورنہ تو احتساب کا ڈھول گزشتہ 74سالوں سے بج ہی رہا ہے، مزید بھی 74سالوں تک بجتا رہے‘ تب بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ کرپشن کا کاروبار اِسی طرح دن دگنی ، رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا ۔ بدعنوان کھل کھیلتے رہیں گے، ہر آنے والی حکومت جانے والوں کے احتساب کا نعرہ بلند کرتی اور اپنے مفادات کی تکمیل کو ممکن بناتی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved