تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     04-02-2021

ایک معصوم خواہش

اگرچہ اس کی ڈیوٹی میٹر ریڈر کی تھی لیکن ایک اہم ادارے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مزاج میں وہی کھردرا پن، عدم تعاون اور بے نیازی تھی جو سرکاری اہلکاروں کا وتیرہ ہے۔ اس نے پتھر مار لہجے میں بتایا کہ آپ کا پانی کا میٹر خراب ہو چکا ہے اور آئندہ بل تخمینے کی بنیاد پر آیا کرے گا۔ اس دن میں بہت مصروف تھا لیکن اس اطلاع نے مجھے پچھلے روح فرسا تجربات کی یاد دلا دی۔ میں نے کہا کہ اگر میٹر خراب ہے تو بدل دیں یا اسے ٹھیک کر دیں۔ کہنے لگا: ایسے نہیں، اسے ٹھیک کرنے کی درخواست دیں اور متعلقہ دفتر میں جمع کرائیں۔ میں نے پوچھا: کتنی دیر لگتی ہے درخواست جمع کرانے سے میٹر ٹھیک ہونے تک؟ پتا چلا چھ ماہ بھی لگ جاتے ہیں اور خوش قسمت ہوں تو جلد بھی ہو سکتا ہے۔ میں جانتا تھا کہ متعلقہ دفتر میں کسی کو بھیجنے یا خود جانے کا مطلب محض اور محض پورے دن کی خواری ہو گا، اس لیے اسی شخص کا تعاون نہایت ضروری تھا۔ بھائی! دو درخواستیں ہیں آپ سے۔ ایک تو یہ ہمارا آدمی تو چکر کاٹ کر اور دن برباد کرکے واپس آ جائے گا، آپ اس محکمے کے ہیں، یہ مہربانی کیجیے کہ یہ درخواست آپ ہی جمع کرا دیں۔ دوسرے یہ میٹر ٹھیک ہونے تک اوسط کی بنیاد پر جو بل مجھے بھیجیں‘ وہ بہت زیادہ نہ ہوں۔ ایک درخواست اس نے قبول کر لی یعنی کہا کہ آپ درخواست لکھ کر مجھے فون کریں‘ میرا ادھر سے روز گزر ہوتا ہے‘ میں جمع کرا دوں گا۔ دوسری درخواست رد ہو گئی۔ بل تو اتنے کا ہی آئے گا جتنا محکمے کا اصول ہے۔ میں کیا کر سکتا ہوں اس میں؟ اس گفتگو کا انجام میری خاموشی تھی جو ہر اس آدمی کا مقدر ہے جو سرکاری اداروں کا محتاج ہو۔
میرا دفتر مال روڈ لاہور کی سروس روڈ پر انارکلی چوک کے قریب ہے۔ مال روڈ یعنی شہر کی مرکزی سڑک۔ جو ریڑھ کی ہڈی کی طرح شہر کی کمر میں پیوست ہے اور ٹاؤن ہال سے شروع ہو کر میاں میر پل تک پہنچتی ہے۔ اسی مرکزی سڑک سے شاہان سلطنت، وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹری، کمشنر اور دیگر کی سواریاں گزرتی ہیں۔ یقینا کوئی محکمہ، کوئی شعبہ، کوئی شخص تو ایسا ہوگا جس کی عملداری میں سڑک کا یہ حصہ آتا ہوگا، لیکن سالہا سال سے اپنا تاثر تو یہی ہے کہ یہ حصہ ہمارے شہر اور ملک کا حصہ ہے ہی نہیں‘ جبھی اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
کون سا مسئلہ ہے جو مال روڈ کی اس سروس روڈ پر رہائشیوں، دکانوں اور دفتروں کو روز پیش نہیں آتا۔ تجاوزات، کوڑے کا ڈھیر، ناجائز پارکنگ، ناجائز کاروباری اڈے، ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑک، سڑک سے متصل باغیچے کی ابتر حالت، اور پانی کی مسلسل نایابی۔ ان مسائل میں سے دو یعنی سیوریج اور پانی کی فراہمی ایک ہی محکمے سے متعلق ہیں‘ لیکن اس محکمے کو ان میں سے کسی ایک کام کے لیے بھی کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔ یہاں کے متاثرین نے متعلقہ دفتروں میں درخواستیں دیں، سٹیزن پورٹل پر شکایات لکھیں، کالم لکھ کر سڑک کی حالتِ زار بیان کی۔ وفد لے کر ٹاؤن ہال پہنچے۔ متعلقہ ٹاؤن کے عملے سے درخواستیں کیں۔ محکمے کے اہلکاروں کو گٹر کھولنے کیلئے پیسے دیے۔ مستقل بنیادوں پر ماہانہ دیکھ بھال کیلئے پیسوں کی پیشکش کی۔ ذرا سوچیے وہ محکمہ‘ جو ہر ماہ اپنی سروسز کے پیسے ہم سے لیتا ہے‘ اسی کے اہلکاروں کو گٹر بند نہ ہونے کے لیے ماہانہ تنخواہ کی پیشکش کی۔ ہر چیز اس طرح ناکام ہوئی جیسے بد قسمتوں کی کوششیں ناکام ہوتی ہیں۔ وہ فارسی مصرعہ سنا ہے نا آپ نے، غرض دو طرفہ عذاب است جان مجنوں را (غرض مجنوں کی جان پر دو طرفہ عذاب ہے)۔ بس اس سڑک کے رہنے والوں پر اس طرح ایک مسلسل عذاب کی سی کیفیت ہے کہ ہر کوئی صاف پانی کے ایک قطرے کو ترستا ہے جبکہ بدبودار پانی جان نہیں چھوڑتا۔
یہاں میرا دفتر ہے، رہائش نہیں۔ ایک دفتر جس میں ایک واش روم اور مختصر سا عملہ آٹھ نو گھنٹے کیلئے آتا ہو اور اتوار کی چھٹی کے علاوہ سرکاری چھٹیاں بھی ہوتی ہوں، وہاں کتنا پانی چاہیے ہوتا ہے بھلا؟ لیکن وہ پانی بھی یہاں میسر نہیں ہے۔ یہاں کے رہائشی بتاتے ہیں کہ رات کو آٹھ نو بجے کے بعد صبح چھ بجے تک پانی آ جاتا ہے۔ بعض دفعہ وہ بھی نہیں۔ یعنی مکین رات کو سونے کے بجائے سرکاری نل سے پانی بھرتے رہیں۔ دن بھر سویا کریں اور پانی کی چھٹی کی خوشی منایا کریں‘ لیکن ماہانہ بل بہرصورت ادا کرتے رہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس پس منظر کے ساتھ جب میٹر خراب ہونے کی خبر مجھے سنائی گئی تونہ جانے کون کون سے اندیشہ ہائے دوردراز مجھے لاحق ہوگئے ہوں گے لیکن میں نئی مصیبت میں بہرحال نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ اگلے دن میں نے متعلقہ محکمے کے نام درخواست لکھی پانی کا سابقہ بل ساتھ لگایا اور میٹر ریڈر کو فون کیا۔
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ اس نے فون اٹھا لیا ہوگا اور درخواست جمع ہو گئی ہو گی تو آپ غلطی پر ہیں۔ تقریباً پورا مہینے اس سے رابطے کی کوشش کی ۔وہ یا فون کاٹ دیتا تھا یا گھنٹی بجتی رہتی تھی۔ تھک ہار کر میں نے کوشش چھوڑدی اور اسی دوران تخمینے کی بنیاد پربل وصول ہوگیا جو سابقہ بلوں سے تین گنا زائد رقم کا تھا۔ دوماہ اسی طرح زائد رقموں کے بل ادا کرتے گزرے۔ پھرایک نئے صاحب نے آکر مطلع کیاکہ آپ کا میٹر خراب ہے۔ میں نے انہیں پوری بپتا سنائی۔ درخواست دکھائی۔ سابقہ بل دکھائے۔ انہوں نے یہ مہربانی کی کہ درخواست لے لی، جمع کرانے کا وعدہ بھی کرلیا، مزید مہربانی یہ کہ جمع کراکر مجھے رسید بھی بھیج دی۔ لیکن بات ختم کہاں ہوئی۔ آج دو صاحبان درخواست پر عمل کرنے کیلئے میٹر اتارنے تشریف لائے۔ پہلے لوگوں سے بھی زیادہ کھردرے‘ جیسا کہ لیبر کلاس کے اکثر لوگوں کا رویہ ہوجاتا ہے جب انہیں کوئی اختیار مل جائے۔ پتا چلاکہ وہ میٹر تو اتار کرلے جائیں گے لیکن رسید کوئی نہیں دیں گے۔ دوسرے میٹراتار کر کنکشن بند ہوجائے یا پانی بہتا رہے، اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ رہا سہا پانی بند ہونا کسے گوارا ہوسکتا ہے اس لیے انہیں بڑی مشکل سے اس کارروائی سے منع کیا۔ اب اپنا کوئی پلمبر بلاکر خود یہ میٹر اتارا جائے گا، اور خون کے گھونٹ پینے کے باوجود پوری ظاہری خوشدلی کے ساتھ انہیں پیش کردیا جائے گا۔ اور اسی دوران میں فروری کا بل بھی جمع کراؤں گا جو تین گنا رقم کا ہے۔ اور جس کی آخری تاریخ چند دن بعد کی ہے۔ بجلی کے محکمے نے جو زریں اصول بنایا تھا کہ پورے علاقے میں جتنی بجلی چوری ہوتی ہے اس کا محکمہ کچھ نہیں کرسکتا، بس یہ کرسکتا ہے کہ سب کے حصے میں چوری کی رقم برابر تقسیم کرکے سب سے وصول کرلے۔ یہ اصول واسا کو بھی بہت پسند آیا ہے؛ چنانچہ چوری شدہ پانی کی رقم بھی اہل علاقہ پر تقسیم کردی جاتی ہے اور اوسط بل بھی اسی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں۔سو!میں آج کل اسی زریں اصول کی زد میں ہوں اور چوری کی رقم اپنی جیب سے بھررہا ہوں۔
جناب کمشنر لاہور! جناب ڈائریکٹر صاحب واسا، شاہ جمال! جناب ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب گنج بخش ٹاؤن! سالہا سال کے تجربے کے بعد یہ سمجھ میں آیا ہے کہ اس سڑک پر صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی تومتعلقہ محکمے کے بس میں نہیں ہے کہ یہ ناممکن کام ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی نہیں ہیں۔ توپھر میری ایک معصوم سی خواہش ہی پوری کردیں۔ میری خواہش ہے کہ کمشنر صاحب کی رہائش اس سڑک پر منتقل کردی جائے۔ انچارج واسا کا دفتر یہاں قائم کیا جائے اور گنج بخش ٹاؤن کے عملے کیلئے ملحقہ باغیچے میں کمرے بنا دیے جائیں کہ باغیچے اور ہوتے کس لیے ہیں؟ ہم اس پر راضی ہیں۔ میں تو 25 سال سے اس سڑک کے مزے اٹھا رہا ہوں۔ چند سال ان پیاروں کوبھی یہ لطف اٹھانے دیں۔ شہر کے وسط میں مال روڈ پر ایسی قیمتی جگہ کہاں ملتی ہے آج کل۔ اور ہاں! اوسط کی بنیاد پر پانی کا ماہانہ بل انہیں ضرور ملنا چاہیے۔ ناممکن کام نہ سہی، یہ معصوم سی خواہش تو آپ پوری کرہی سکتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved