تمام فیصلوں پر عمل کریں گے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''تمام فیصلوں پر عمل کریں گے‘‘ جیسا کہ میں اپنے سارے فیصلوں پر عمل کرتا ہوں کیونکہ بھاگتے وقت میں فیصلہ کر چکا تھا کہ میں نے واپس نہیں آنا اور اس پر پوری مضبوطی سے قائم ہوں اور میرے جن ساتھیوں نے مجھے ایجنٹ قرار دیا ہے؛ اگرچہ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا، تاہم یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ وہ اپنے مؤقف اور فیصلے پر قائم ہیں اور اس پر عمل بھی کر رہے ہیں اور یہی وہ کردار کی مضبوطی ہے جو انہوں نے مجھ سے سیکھی ہے۔ آپ اگلے روز لندن سے مولانا فضل الرحمن سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم کی عوام سے گفتگو کا مقصد
مسائل کا ممکنہ حل نکالنا ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کی عوام سے گفتگو کا مقصد مسائل کا ممکنہ حل نکالنا ہے‘‘ اسی لیے وزیراعظم کی گفتگو منتخب لوگوں ہی سے کرائی گئی تھی کیونکہ ہم سب لوگوں کو عوام نہیں سمجھتے کیونکہ ان میں بعض معاملے کو ہوا دینے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ عوام نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ صبر تو ان کے کہنے کے مطابق انہوں نے کافی کر لیا ہے، اب مزید صبر کی گنجائش نہیں؛ البتہ جبر وہ کافی دیر تک کر سکتے ہیں اور جب جبر کی میعاد ختم ہو جائے گی تو وہ عوام کو پھر کوئی ایسی تلقین کر دیں جو ان کے فائدے کے لیے ہو۔
آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
تھوڑا صبر کریں، بتاتے ہیں کہ استعفے کیا ہوتے ہیں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''تھوڑا صبر کریں، بتاتے ہیں کہ استعفے کیا ہوتے ہیں‘‘ وہ تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ جسے دے کر کوئی رکن صاف مکر جائے کہ میں نے دیا ہی نہیں تھا، اور دوسرے وہ ہوتے ہیں جو صرف قیادت کے پاس جمع کرائے جاتے ہیں اور تیسرے وہ جو سپیکر کے پاس یہ کہہ کر جمع کرائے جاتے ہیں کہ انہیں منظور نہیں کرنا، اور اگر سپیکر انہیں منظور کرنے بھی لگے تو ارکان شور مچا دیں کہ یہ جعلی ہیں اور ہم نے دیے ہی نہیں کیونکہ استعفے دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ہم سینیٹ الیکشن میں سرپرائز دیں گے: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''ہم سینیٹ الیکشن میں سرپرائز دیں گے‘‘ جیسا کہ ہم پی ڈی ایم کو پہلے ہی کافی سرپرائز دے چکے ہیں اور وہ سر پکڑ کر بیٹھی ہوئی ہے، اور مزید کسی سرپرائز کی متحمل نہیں ہو سکتی ورنہ ابھی ہمارے پاس اسے دینے کے لیے ایک سے زیادہ سرپرائز موجود تھے لیکن اس کی حالت دیکھ کر ہمیں ترس آ گیا ہے اور اب مزید کوئی سرپرائز دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، بشرطیکہ وہ خود اس کا مطالبہ نہ کر دے۔
البتہ سینیٹ میں دیا جانے والا سرپرائز ہماری اپنی پارٹی کے لیے بھی بیحد تشویش انگیز ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
این آر او لے کر بھاگنے والے کیا استعفے دیں گے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''این آر او لے کر جدہ بھاگنے والے کیا استعفے دیں گے‘‘ اور جب سے استعفوں کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہے اور پیپلز پارٹی نے معذرت کر لی ہے اس وقت سے ہم بھی شیر ہو گئے ہیں اور انہیں چیلنج بھی کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارے چیلنج کرنے پر بھی استعفے نہیں دیں گے اور صحیح بات صحیح وقت پر ہی کرنی چاہیے بلکہ ہم تو غلط بات بھی صحیح وقت پر کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک وقت اور اس کی پابندی سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے اور یہی زندہ قوموں اور زندہ جماعتوں کا وتیرہ ہے۔
آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
اور، اب آخر میں ضمیر طالب کی تازہ غزل:
وہاں مجھ کو پہلے تو جانا نہیں چاہیے تھا
چلا ہی گیا تھا تو آنا نہیں چاہیے تھا
اسے پیار کرنا مناسب نہیں تھا کسی طور
کیا تھا تو اس کو بتانا نہیں چاہیے تھا
یہ اچھا ہوا ہے کسی نے بدل ڈالا اُس کو
مجھے بھی وہ پہلا پرانا نہیں چاہیے تھا
وہ کچھ بھی نہ دیتا زیادہ مناسب یہی تھا مگر
اسے میرا حصہ گھٹانا نہیں چاہیے تھا
مجھے اُس نے حاصل کیا تھا بڑی مشکلوں سے
یوں آسانی سے تو گنوانا نہیں چاہیے تھا
علاوہ ازیں اور بھی چاہیے تھا مجھے کچھ
فقط تیرے دل میں ٹھکانا نہیں چاہیے تھا
اگرچہ مری آزمائش پہ اترا ہے پورا
مجھے اس کو یوں آزمانا نہیں چاہیے تھا
مجھے اس طرح نارسانا نہیں چاہیے تھا
تمہیں اس قدر پارسانا نہیں چاہیے تھا
سنبھلنے کا موقع تو دیتے کسی طور ہم کو
اچانک تمہیں انتہانا نہیں چاہیے تھا
اگرچہ تکلف کے قائل نہیں ہم بھی لیکن
تعلق کوئی بے حیانا نہیں چاہیے تھا
اگر آپ خود ہی شناسا نہیں راستے سے
تو صاحب ہمیں رہنمانا نہیں چاہیے تھا
اگر انتہا تک نہیں لے کے جا سکتے تھے آپ
تو یہ سلسلہ ابتدانا نہیں چاہیے تھا
آج کا مقطع
بہت میں اُس کا بھی احسان مند ہوں جو‘ ظفرؔ
غریب خانے پہ اُس خوش نما کے ساتھ آیا