تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     05-02-2021

میانمار: مارشل لاء کی ماں

اور تو اور اب اقوامِ متحدہ کو بھی فکر لگ گئی کہ روہنگیا کے مسلمانوں کو پھر نسل کشی کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس پر مغربی ملکوں نے بھی ہومیو پیتھک قسم کے بیان جاری کئے ہیں‘ جن کے ذریعے روٹین کا سرکاری موقف، جو سالوں پہلے کا لکھا ہوا ہے، اُسی کو پھر جاری کر کے میانمار کے تازہ مارشل لاء کی مذمت کی گئی ہے۔ مغرب کے پاس مقبوضہ کشمیر، برما (میانمار)‘ مقبوضہ فلسطین یا پھر بھارت میں مسلم کشی روکنے کے لئے روڈ میپ یہی ہے، اور بس!
جب جمعرات کے دن یہ وکالت نامہ لکھا جا رہا تھا، تو عین اُسی وقت جرمنی کے DW ٹی وی نے یہ خبر بریک کرنا شروع کر دی تھی کہ برما کی سابق جمہوریت پسند کہلانے والی لیڈر آنگ سان سوچی کو اُس کی اپنی فوج نے گرفتار کر لیا ہے۔ مادام سوچی کسی زمانے میں انسانی حقوق کی علم بردار ہوا کرتی تھی۔ اس لئے اُن کی نظر بندی کے خلاف مسلم ملکوں میں بھی آواز اُٹھائی جاتی رہی‘ لیکن یہی آنگ سان سوچی اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی مسلم اقلیت کے لئے وِلن بن کر سامنے آ گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب سابق ریاستِ اراکان کے علاقے میں آباد روہنگیا مسلمان برما کی فوج کے ہاتھوں زندہ کاٹے اور جلائے جا رہے تھے۔ آنگ سان سوچی نے ایک پلاننگ کے تحت مشرق کے ملکوں میں کبھی کوئی پی آر نہیں رکھی۔ اُن کی ساری زندگی کی سب سے بڑی کوشش مغرب کے پبلک اوپنین کو اپنا عاشق بنانا تھا‘ لیکن روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں جس بے رحمی اور لا تعلقی کا مظاہرہ بطور حکمران اس خاتون نے کیا، اس نے سُو چی کی عزت دنیا کی نظروں میں خاک میں ملا کر رکھ دی؛ چنانچہ وہی آنگ سان سو چی جس کے حق میں مغرب کے بڑے بڑے آڈیٹوریمز میں تالیاں بجا کرتی تھیں‘ اُنہی آڈیٹوریمز کے باہر اس کے خلاف پبلک نکل آئی، اس کو مردہ باد کے نعرے سننا پڑے اور اُس کی مذمت میں بڑے بڑے مظاہرے شروع ہو گئے۔
سابق برما اور موجودہ میانمار کی اس خاتون رہنما کا ایک اور اَلمیہ بھی جرمنی کے DW ٹی وی کے کوالالمپور میں موجود تجزیہ کار نے جمعرات کی صبح کو بیان کر دیا‘ جس کے مطابق یہ تجزیہ کار گزشتہ کئی عشروں سے برما کی سیاست اور حالات حاضرہ کی کوریج کر رہے ہیں اور اس کے ماہر بھی مانے جاتے ہیں۔ اِس سینئر کارِسپانڈنٹ نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ مسلم آبادی اور فوجی اقتدار کے مخالف لوگوں کو مِسنگ پرسن بنانے کے لئے برما کی فوج نے 25، 30 سال پہلے جو قانون بنایا تھا‘ آنے والے چند روز میں آنگ سان سو چی کے خلاف اُسی قانون کے تحت برما کا فوجی ٹریبونل ٹرائل منعقد کرے گا۔ پچھلے پانچ سال تک برما لینڈز میں حکمرانی کرنے والی مادام کو سیاسی آزادیوں پر یقین رکھنے والے وُکلا اور وَرکرز نے ہمیشہ اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ کیوں وہ اس قانون کو اپنے دورِ حکومت میں تبدیل نہ کرسکی۔ اس سے دو دن پہلے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل António Guterres نے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو ابھی تک برما کے اندر محصور ہیں، اُن کے لئے نئے خطرات پیدا ہونے اور اُن کی سلامتی کے چیلنجز میں اِضافہ ہو جانے کے بارے میں کُھل کر اظہارِ خیال کیا۔
آنگ سان سوچی کا عالمی المیہ یہ بھی ہے کہ جس وقت برما کے مسلمان آگ اور بارود میں جھونک کر خاک اور خون میں نہلائے جا رہے تھے‘ تب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے رپورٹر نِک بیک نے 15 دسمبر 2019 کو آنگ سان سو چی کی ساری تاریخ ایک سرخی میں جمع کرکے رکھ دی تھی۔ برما کی تازہ ترین صورتحال پر یہ سرخی آج بھی بہت ہی تازہ لگتی ہے۔ آئیے اسے آپ سے شیئر کرتا ہوں، سرخی تھی ''آنگ سان سوچی: نوبل امن انعام سے روہنگیا قتل عام کے الزامات کے دفاع تک‘‘۔ اس برچھی نما سُرخی کا بیک گرائونڈ یہ تھاکہ جب برمی خاتون لیڈر آنگ سان سوچی سال 2010 میں بڑی لمبی نظر بندی سے رہا ہوئی، تو دنیا بھر کے بڑے بڑے ایوانوں میں جمہوریت کے نام پر اس کے لئے ریڈ کارپٹ بچھنا شروع ہو گئے۔ ہیگ کے پیس پیلس کی شان و شوکت والا دروازہ بھی، نوبیل امن انعام حاصل کرنے کے لئے اس کے لئے کھل گیا۔ دوسری جانب آنگ سان سوچی کے اقتدار میں آنے کے بعد اسی گریٹ ہال آف جسٹس میں روہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے لرزہ خیز مظالم کی کارروائی شروع ہوئی۔
آنگ سان سو چی کی پرسنیلٹی کے ڈبل سٹینڈرڈز پر اس وقت دنیا بھر کی پبلک اوپینین حیران رہ گئی، جب یہ مقدمہ بین الاقوامی کورٹ آف پبلک اوپینین میں دو سال تک مسلسل چلتا رہا۔ گریٹ ہال آف جسٹس میں ایک دن ایسا دیکھنے کو ملا جب وہاں ریڈ کارپٹ کے بجائے سرخ خون کی ندیوں کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ بے رحم قاتل خود اپنا دفاع کرنے کے لئے سامنے نہ آئے بلکہ آنگ سان سو چی اُن کی وکیل بن کر روہنگیا کے نہتے اور معصوم مسلمانوں کے خلاف انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں 17 ججوں کے دل جیتنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی‘مگر آج ایک بار پھر برمی فوج نے آنگ سان سو چی کو گرفتار کر کے اس کا ٹرائل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے آنگ سان سوچی کو اپنی منافقت کے ساتھ ساتھ اُن 740000 مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی بد دعا لگ گئی ہے‘{ جن کے بارے میں دل ہلا دینے والی چشم دیدگواہیوں کے خلاف آنگ سان سوچی نے اس انٹرنیشنل فورم پر ظالموں کی وکالت کی تھی۔ وہ بھی مظلوموں کو ظالم اور Agressiveثابت کرنے کے جھوٹے دلائل دے کر۔ اِن گواہوں میں بنگلہ دیش کے کاکسس بازار سے آنے والے روہنگیا پناہ گزین شامل تھے جنہیں ہیگ کی عالمی عدالت نے اپنے خرچے پر خود برما کی فوج کے مظالم کی گواہی دینے کے لئے بلایا تھا۔ جب اِن بے بس مسلم خواتین کے وُکلا نے گواہی کی تفصیلات بیان کیں، تو عدالت کے کمرے میں آہوں اور سسکیوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ برما کی گرفتار لیڈر نے جن الزامات کا بے دَردی سے دفاع کیا تھا، اُن میں حاملہ خواتین کو مار مار کے ہلاک کرنا، بہت بڑے پیمانے پر گینگ ریپ، نومولود اور بھاگنے کی کوشش کرنے والے بچوں کو اُٹھا کر آگ میں پھینکنے جیسے بے رحمانہ اور انسانیت سوز واقعات کی تفصیل شامل تھی۔
ہیگ کی عدالت کے باہر، 5000 میل دور سے سرکاری خرچ پر میانمار سے آئے ہوئے 100 عدد سرکاری لوگوں نے بینر اُٹھا رکھے تھے، جن پر انگریزی زبان میں لکھا تھا، (مدر سُو) یعنی برما کی ماں۔ یہ کُھلا تضاد اَب برما کے 2021 ماڈل مارشل لاء کا واحد سچ ہے۔ اسی لئے پورے برما میں پہلی بار آنگ سان سوچی کے حق میں نہ کوئی آواز اُٹھی، اور نہ ہی کوئی شخص احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئے سڑک پر نکلا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کو برما کی آہنی دیوار کے پیچھے سے فون پر بتایا گیاکہ آنگ سان سو چی، اُس کی کابینہ کے سارے وزیر، اُس کا صدر وَن مائنٹ اور دیگر عہدیداروں کو رات کے پچھلے پہر فوج نے گرفتار کر لیا۔
آنگ سان سوچی نے نوبیل انعام کے مقام سے جو چھلانگ ماری تھی، اُس کی آخری کھائی میں وہ خود جا گری ہے۔ اِس بار ایک آئرن لیڈی کی طرح نہیں بلکہ ایک انتہائی متنازع، کمزور اور کنفیوزڈ عورت کی حیثیت سے۔ وہ خود نمائی اور سیلف سروس کے علاوہ اپنے ہم وطنوں کو ضرورت کے وقت اکیلا چھوڑ سکتی ہے۔
خودی عاقبت کا راز کیا ہے؟
مآل حسن کا یہ ساز کیا ہے؟
تحیّر خیز ہے خود روح ہستی،
کہ اس انجام کا آغاز کیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved