فیصلے اللہ کی بارگاہ میں صادر ہوتے ہیں ۔۔۔اور سب انسانی اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔ ہوائی چپل پہنے، ہر کہیں ، ہر طرح کے لوگوں میں آسودہ ، دور دراز گائوں کے اس صوفی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ درودِ تاج پڑھا کرتے ہیں ۔ اس آدمی نے ، جو اپنی آواز کبھی بلند نہیں کرتا ، رسان سے جواب دیا:ہم پکی سڑک پہ چلتے ہیں ، ہم درودِ ابراہیمی پڑھا کرتے ہیں ۔ ایک سیدھا راستہ ہوتا ہے ۔ واضح اور کشادہ ۔ بہت سی ٹیڑھی میڑھی راہیں بھی۔ جنہیں توفیق نہ ہو ، وہ ساری زندگی پگڈنڈیوں پہ بھٹکتے رہتے ہیں ۔ احمد رضا قصوری کی بات الگ ، جنرل پرویز مشرف پہ مقدمہ چلانے کی مخالفت کون کر سکتاہے ۔ ایک نہیں ، دوبار انہوںنے دستور کو پامال کیا۔ سوال تویہ ہے کہ کیا قانون کے جرّی علم بردار دوسروں کے خلاف بروئے کارآنے کی جرأت بھی رکھتے ہیں ، سنگین جرائم کے جن پر الزامات ہیں ؟ محترمہ یاسمین عباسی اور جناب فاروق نائیک کا تذکرہ بہت ہے کہ انہوںنے جعل سازی کا ارتکاب کیا۔ حکومت اور عدالتِ عظمیٰ نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے ۔ کیا صدر زرداری کی اشیرباد کے بغیر ہی وہ ا س اقدام کی ہمت پا سکے ؟ وزیر اعظم نواز شریف یہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ تحقیقات ہوں گی ، اگر وہ ملوّث پائے گئے تو عدالت میں کھڑے کر دئیے جائیں گے ؟ ہزار ہا تاویلات اور سینکڑوں بہانے ہوں گے ۔ سچی بات صرف اتنی ہے کہ عظیم مینڈیٹ کی حامل یہ حکومت ان کے خلاف اقدام کر ہی نہیں سکتی۔ جس طرح گذشتہ پانچ برس وہ ایک دوسرے کی حفاظت کرتے رہے ، اب بھی کریں گے ، الّا یہ کہ کہیں دشواری ہو ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، کلہاڑا تھام کر پروگرام کرنے والے ٹی وی میزبان بھی اس پر ژولیدہ فکری میں مبتلا ہوں گے ۔ وہ پوچھیں گے: کیا جمہوریت پٹڑی سے اتر نہ جائے گی؟ اہمیت اصول کی ہوتی ہے یا حکمتِ عملی کی ؟اگر اصول ہی موجود نہیں تو دلیل کی عمارت کیونکر اٹھائی جائے گی اور وہ برقرار کیسے رہے گی ؟ اصول وہ ہے ، پوری انسانی تاریخ میںجو کارفرمانظر آتاہے ۔ چودہ صدیوں کے اہلِ علم میں سے کسی نے کبھی اس کی پرجوش تائید سے انکار نہ کیا۔ یہ اس ذاتِ اقدسؐ کے الفاظ ہیں ، جیسی آدمیت نے کبھی دیکھی نہ سنی ۔ جس سے کبھی کسی کا موازنہ اور مقابلہ کرنے کی جسارت نہیں کی جاتی ۔ ختم المرسلینؐ کا ارشاد یہ ہے : وہ قومیں برباد ہوئیں ، جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتیں اور اپنے طاقتوروں کومعاف کر دیا کرتی تھیں ۔ کس قدر حیران کن بات ہے کہ چار دن سے جاری ٹی وی مباحثوں میں کوئی ایک بھی اس فرمان کا حوالہ دیتا سنائی نہ دیا۔ جنرل مشرف کے جرم میں کوئی کلام نہیں لیکن آج وہ ایک کمزور آدمی ہیں او رکوئی ان کا دفاع کرنے والا نہیں ۔ قانون کی رزم گاہ میں شجاعت کے علم لہرانے والے اس وقت کیوں نہ اٹھے ، جب اسی شخص کو گارڈآف آنر دے کر ایوانِ صدر سے رخصت کیا گیا ۔ احترامی پریڈ ، اس آدمی کے لیے ، جس نے مقدس آئین کوڑے دان میں ڈال دیا تھا۔ عالی مرتبت ججوں کو جس نے گھروں میں قید کر ڈالا تھا۔ جب ایک دوست ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کا سربراہ اسلام آباد میں اخبار نویسوں کے سامنے کاغذ لہرارہا تھا : سپریم کورٹ کا حکم افضل ہے یا ہم سے کیا گیا معاہدہ ؟ تب ان سب بہادروں کو سانپ کیوں سونگھ گیا تھا؟ تب یہ سارے لوگ چپ کیوں سادھے رہے ، جب دخترِ مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو اس شخص سے خفیہ ملاقاتیں فرماتی رہیں ۔ اقتدار میں حصہ بٹورنے کے لیے ملک کی سب سے بڑی پارٹی اس کے ساتھ ساز باز کر تی رہی ۔ جب میثاقِ جمہوریت کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی ۔ کیا اس لیے کہ تب امریکہ کی سرپرستی اس عمل کو حاصل تھی ؟ کیا اس لیے کہ مذاکرات کا اہتمام برطانوی وزارتِ خارجہ نے کیا تھا اور ہمارے دوست عرب ممالک کی تائید اس فریب کاری کو حاصل تھی ؟ سوال کیا جاتاہے کہ کن لوگوں نے جنرل پرویز مشرف کو پاکستان آنے پر آمادہ کیا؟ خود ان کے سوا کوئی شخص ذمہ دار نہیں۔ شام ڈھلے ایک آدھ ٹاک شو دیکھنے والا سکول کا کوئی طالبِ علم بھی بتا سکتا تھا کہ فوجی آمر نے اگر اس سرزمین پر قدم رکھا تو آزمائش اور عذاب سے دوچار ہوگا۔ یہ اس کی تقدیر تھی ، جو اسے گھیر لائی اور یہ فقط اسی کی تقدیر نہ تھی بلکہ سارے حکمران طبقات کی ۔ اب ان میں سے ایک ایک کو بے نقاب ہوناہے ، ایک ایک کو رسوا ہو کر رہنا ہے ۔ جوبھی شریکِ جرم تھا ۔ اپنے ساتھیوں کی مدد سے خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دیتا رہا۔ اگر انصاف عزیز ہے ، اگر وہی ترجیحِ اول ہے تو نئے زخموں کا علاج اور اندمال کیوں نہیں ؟ اصرار ہوگا تو نام بھی لکھ دوں گا۔ پاکستان میں امریکی سفیر کے بعد، اس کا اہم ترین نائب الوداعی ملاقاتوں میں کئی ایک سے کہتا پھرا کہ عام انتخابات میں 25فیصد سیٹوں پر دھاندلی ہوئی ۔ یورپی یونین کے مبصر بھی آف دی ریکارڈ ایسی ہی گفتگو کرتے رہے ؛اگرچہ ان کی رائے میں تناسب قدرے کم تھا۔ ایک کے سوا ، کراچی کی سب سیاسی جماعتیں واویلا کر تی رہیں ۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے خود مانا کہ دو کروڑ آبادی کے اس شہر میں منصفانہ الیکشن کا وہ اہتمام نہ کرا سکے ۔ بار بار یہ سوال اٹھایا گیا او رکوئی اس سوال کا جواب نہیں دیتاکہ الیکشن کمیشن انگوٹھے کے نشانات کا جائزہ کیوں نہیں لیتا۔ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی کے ایوان میں اعلان کیا کہ چار نہیں ، وہ چالیس سیٹوں کے نتائج کھنگالنے پر آمادہ ہیں اور ایک کمیشن بنا دیا جائے گا، کس لیے ؟ قانونی طور پر جن کی ذمہ داری ہے ، وہ کیوں اسے پورا نہیں کرتے؟ طے شدہ طریق کے مطابق کیوں نہیں ؟ خود چوہدری نثار کی سیٹ پر ووٹ دوسری بار گنے گئے تو وہ ہار گئے ۔ ملک بھوک سے نڈھال ہے اور بھیک مانگنے پر اترا ہوا۔ کون کون سے مگر مچھ ہیں ، ایف بی آر جن کے نام اربوں روپے ادائیگی کے نوٹس جاری کر چکا ؟ ان سے باز پرس کا آغاز کیوں نہیں ؟ حال ہی میں ان میں سے ایک کو ایسا منصب کس طرح سونپ دیاگیا، جس کا وہ سزاوار نہیں ؟ ان بیس پچیس لاکھ تاجروں اور صنعت کاروں سے ٹیکس وصولی کے لیے ابتدائی سی کارروائی بھی کیو ںنہیں ، جن کی سفاکی اور خود غرضی نے اس خوشحال سرزمین کو ویرانہ بنا رکھا ہے ؟ جس صنعت کار کو کبھی ایک بینک سونپ دیا گیا تھا، وہ سرکاری اجلاسوں میں کیونکر شریک ہوتاہے ۔۔۔اور شاہی خاندان کے شہزادے؟ کیا راجہ پرویز اشرف کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہو سکتاہے ،جن پر انتخابی مہم کے دوران کروڑوں روپے نقد بانٹنے کا الزام ہے؟ کیا اصغر خان کیس میں صادر کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد ممکن ہے ؟ آئی ایس آئی سے رقوم بٹورنے والوں کا احتساب کیا جا سکتاہے ؟ کیا ریپڈ بس سمیت کراچی ، لاہور اور ملتان میں کھربوں کے تعمیراتی منصوبوں کا جائزہ کوئی لے سکتا ہے ؟ کیا ہم سب گواہ نہیں کہ اربوں ڈالر لوٹ کر بیرونِ ملک پہنچا دئیے گئے ؟ کیا کوئی حکم صادر کر سکتاہے کہ مجرم عدالت کے کٹہرے میں لائے جائیں ، خاص طور پر مقتدر سیاستدان ؟ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بالکل برحق۔ سو فیصد برحق ۔ معاشرے کو مگر عدل کی راہ پر گامزن کرنا بہرحال مقصود نہیں ۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں اور ہم سب اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ کب تک قوم کو فریب دیاجا سکتاہے ،آخر کب تک ؟ ان لاکھوں نوجوانوںکو ، جو اب ایک ایک دھاگہ پہچانتے اور ایک ایک جملے کی تہہ میں اترسکتے ہیں ؟ ایک فوجی آمر ہی نہیں ، بہت سوں کی عقلیں غارت ہو گئیں اور وہ سب اپنے لیے گڑھے کھو درہے ہیں۔ دو چار نہیں ، تو زیادہ سے زیادہ پانچ برس بعد کون کون کٹہرے میں کھڑا ہوگا؟ فیصلے اللہ کی بارگاہ میں صادر ہوتے ہیں ۔۔۔اور سب انسانی اندازے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved