پیپلز پارٹی مخلوط حکومت بنانے کی ماہر ہے: یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم اور پی پی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی مخلوط حکومت بنانے کی ماہر ہے‘‘ جبکہ مہارت کے کئی دیگر سنگ ِمیل بھی ہم نے عبور کر رکھے ہیں، جن سے پوری دنیا اچھی طرح سے واقف ہے حتیٰ کہ صحت عامہ کے شعبے میں بھی ہماری خدمات تاریخی اور ناقابلِ فراموش ہیں کہ پورا گھر ہی ایک کلینک کی صورت اختیار کر چکا تھا، کوئی مریض کی تشخیص کر رہا ہے، کوئی ٹمپریچر لے رہا ہے، کوئی ٹیکہ لگا رہا ہے تو کوئی آپریشن کر رہا ہے، اور ہمارے ہاتھ میں شفا بھی بہت تھی۔ آپ اگلے روز انسداد بدعنوانی کی وفاقی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز لیگ اور پی پی کے پاس بہت پیسہ ہے: فروغ نسیم
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ ''نواز لیگ اور پی پی کے پاس بہت پیسہ ہے‘‘ جبکہ ہماری صورتحال ان سے کافی مختلف ہے، اور اے ٹی ایم کی چند مشینیں ہیں جن پر گزارہ چل رہا ہے اور مشین تو ایسی چیز ہے کہ قابلِ اعتبار نہیں، اور کسی وقت بھی خراب ہو سکتی ہے، اس لیے صورتحال خاصی مخدوش ہی رہتی ہے اور مقابلہ چونکہ پیسے والی پارٹیوں کے ساتھ ہے اس لیے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ چندہ ہی مانگ سکتے ہیں، کہ یہ کام کسی حد تک آتا بھی ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
حکومت کو گھر بھیجنے کی تاریخ نہیں دینی چاہیے: لطیف کھوسہ
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کو گھر بھیجنے کی تاریخ نہیں دینی چاہیے‘‘ کیونکہ دی گئی تاریخ پر حکومت تو گھر نہیں جاتی الٹا شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے، اس لیے یہ معاملہ قدرت پر چھوڑ دینا چاہیے اور حکومت کے گھر جانے کی دعائیں مانگنی چاہئیں جبکہ پارٹی میں متعدد برگزیدہ اور پہنچے ہوئے لوگ بھی موجود ہیں جن کی دعائیں رائیگاں نہیں جا سکتیں اس کارِ خیر کے لیے اکیلے زرداری صاحب اور یوسف رضا گیلانی صاحب ہی کافی ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
عمران خان کی کامیاب حکمت عملی کے
ثمرات عوام تک پہنچنے لگے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی کامیاب حکمت عملی کے ثمرات عوام تک پہنچنے لگے‘‘ جبکہ اب تک تو ان کی ناکام حکمت عملی کے ثمرات ہی عوام تک پہنچتے رہے ہیں اور عوام اس کے عادی بھی ہو چکے ہیں، اس لیے ایک امکان یہ بھی ہے کہ وہ اس کامیاب حکمت عملی کے ثمرات کو قبول کرنے سے ہی انکار کر دیں اور اس حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا پڑے جبکہ ہم نظر ثانی کرنے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں جسے یار لوگوں نے یوٹرن کا نام دے رکھا ہے، لیکن ہم ایسی باتوں سے گھبرانے والے نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
قوم تیار ہو جائے، بہت جلد فیصلہ اسلام آباد میں ہوگا: کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''قوم تیار ہو جائے، بہت جلد فیصلہ اسلام آباد میں ہوگا‘‘ بلکہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اسے فیصلے کی اتنی تاریخیں دی گئی ہیں کہ اسے ان کی عادت پڑ گئی ہے اور وہ دن رات اس کے لیے تیار رہتی ہے، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ فیصلہ ایک طرح سے ہو ہی چکا ہے، کیونکہ ہم نے اس میں اپنی ایسی شرطیں گھسیڑ دی ہیں کہ شاید پی ڈی ایم اپنے ہی منطقی انجام کو پہنچ جائے، اگرچہ فی الحال تو وہ وضعداری کے تحت غیر منتشر ہی نظر آتی ہے اور شاید یہ وضعداری اسے مزید کچھ عرصے تک دکھانا پڑے، لیکن ہم بھی اس کے مضمرات کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور خود پی ڈی ایم بھی، جو کچھ ہم سمجھتے ہیں، اسے اچھی طرح سے سمجھتی ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی دفتر میں کارکنوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
راگنی کی کھوج میں
یہ نجیبہ عارف کی تصنیف ہے جسے قوسین لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب بابا جانؒ کے نام ہے، اس شعر کے ساتھ ہے؎
دلدار ہے تُو، خو ہے تری خاک نشینوں پہ تلطف
تیری نگہِ کم پہ بھی یاروں کو کرم ہی کا گماں ہے
(حمید نسیم )
پسِ سرورق محمد سلیم الرحمن کا تحریر کردہ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ نجیبہ عارف کی کتاب راگنی کی کھوج میں دو زندگیاں گودے اور خول کی طرح آپس میں پیوست ہیں۔ ایک نجیبہ کی آپ بیتی، دوسرے ان کے مرشد محمد عبید اللہ درانی کی زندگی کے حالات جو و قتاً فوقتاً ان کے سننے میں آئے... میں نے نجیبہ عارف کی کتاب کو ناول کی طرح پڑھا ہے کہ یہ واقعات اور کرداروں کے تنوع کے سبب سے ناولانہ دلربائی کی حامل ہے۔
اور، اب آخر میں حسین مجروح کی یہ نظم
کھلے بھیدوں کی محرم
ہوا کی نوکری کتنی کٹھن ہے
کوئی اوقات ہیں اس کے مقرر
اور نہ قصہ کچھ ترقی کا
مگر یہ سر پھری
دریائوں، صحرائوں، پہاڑوں، بادلوں میں
گشت کرتی
اور وحشت پھانکتی ہے
کوئی احسان دھرتی ہے نہ اُجرت مانگتی ہے
بس اپنی ہی لگن میں
خوابگاہوں، دفتروں، عبرت نشان تھانوں
زمانوں کی گھٹن میں تازگی تمثال کرتی ہے
نہایت بے غرض ہے یہ، غرض والوں کے جھرمٹ میں
جو خواہش کے ہنڈولے میں بٹھا کر
نقرئی سکوںسی آوازوں، تصور کو
خجل کرتی شبیہوں کو
سمندر پار کی دنیا دکھاتی ہے
کبھی خُفتہ زرِ گُل منتقل کرتی ہے
کچھ بے نام کھاتوں میں
بہت خود سر، ہٹیلی ہے
کھلے بھیدوں کی محرم یہ سفر زادی
جو غصے کی طنابیں تھام کر
اکثر درختوں اور منڈیروں کے
کلیجے چاک کرتی ہے
مگر جب مہرباں ہونے پہ آئے
تو زمین و آسماں کے بیچ حائل
نیلگوں خوانچے سے
نابالغ ارادوں کو
کھلونے اور چُورن بھی دلاتی ہے
آج کا مقطع
ظفر ضعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں