وہ وقت آہی گیا جس کا پاک فضائیہ کے جانبازوں کو مدت سے انتظار تھا۔ 26 فروری2019ء کو بھارتی فضائیہ نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تو اگلے ہی روز پاکستان کے وہ دو ایواکس (Airborne Warning and Control System) طیارے جنہیں اگست2012ء میں بھارت نے کامرہ ایئر بیس پر دہشت گردوں کے ہاتھوں تباہ کروایا تھا اپنی پوری قوت کے ساتھ میدان عمل میں تھے اور ان کے کامیاب آپریشن کا نتیجہ بھارت کے دوسرے فضائی حملے کو بروقت کارروائی کر کے ناکام بنا دیا گیا اور دوبھارتی طیارے تباہ اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کو اچھی چائے کا مزہ چکھا یا۔
قران پاک کی سورۃ الانفعال آیت نمبر 30 میں فرمانِ ربی ہے کہ جب کافر تمہارے متعلق تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کردیں یا تمہیں قتل کردیں یا تمہیں دیس بدر کر دیں‘ وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا‘ اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ اگست 2012 ء کی شب ِقدر تھی کہ دہشت گردوں نے کامرہ بیس پر حملہ کیا اور یہاں کھڑے دو ساب ا یواکس طیاروں پر راکٹ اور گولیوں کی بارش کر دی جس سے ان جہازوں کے ڈھانچوں اور الیکٹرانک آلات کو شدید نقصان پہنچا اور کئی سو میٹر لمبی تاریں جو جال کی صورت میں جہاز کی باڈی میں گھومتی ہیں سب جل گئیں ‘سرکٹ بورڈ بھی تباہ ہو گئے ‘یہاں تک ہوا کہ جہازوں کے ڈھانچوں کو آگ لگنے کی وجہ سے ان میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ گئیں اور دہشت گردوں کے داغے گئے گولوں سے ان ڈھانچوں میں شگاف پڑ گئے ۔یہ ایک ایسا قومی نقصان تھا کہ ہماری دفاعی صلاحیت تقریباًہل کر رہ گئی ۔
ساب کمپنی کے ماہرین کو ان تباہ شدہ جہازوں کے معائنے کے لیے سویڈن سے بلایا گیا مگر ان کا اتفاق تھا کہ جہاز اس درجے کے نقصان سے دوچار ہوئے ہیں کہ ناقابل مرمت ہیں‘ لیکن خدائے بزرگ و برتر کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے کہ '' میری رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا‘‘ پاکستان ایئر فورس نے اپنے جہاز سازی کے تین پی ایچ ڈی انجینئرز کو دونوں تباہ شدہ جہازوں کو قابلِ پروازبنانے کا ٹاسک دے دیا۔ چند مہینوں کے جائزے اور اپنے طور پر اس پیچیدہ ایواکس سسٹم بارے درکار معلومات اکٹھی کرنے کے بعد پاکستان ایئر فورس کی اس ٹیم نے ان دونوں طیاروں کی مرمت کا کام شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں جب سویڈن کی کمپنی کو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے پاکستانی ماہرین کی بریفنگ سننے کے بعد کہا کہ تکنیکی طور پر آپ کا پلان ٹھیک لگتا ہے لیکن ہمارے تجربے کے مطا بق اس حد تک تباہ شدہ ایواکس طیارے آج تک دنیا میں کہیں بھی مرمت نہیں کئے جا سکے۔ اگر آپ ان جہازوں کو مرمت کر کے دوبارہ قابل ِاستعمال بنا لیتے ہیں تو ایسا دنیا میں پہلی بار ہو گا۔
پھر خدائے بزرگ و برتر کی رحمت پر بھروسا رکھتے ہوئے ایمان کی حرارت والوں نے دو برس کی شب و روز محنت‘ ایمان کی طاقت اور اپنے کام میں ڈوب کر ان طیاروں کو دوبارہ اڑان کے قابل بنا دیا۔ مرمت کئے گئے اس پہلے ایواکس طیارے کی آزمائشی پرواز کا وقت آیا تو مسئلہ بھی کچھ کم اہم نہ تھا‘ چونکہ اس قسم کی مرمت دنیا میں کبھی اور کہیں بھی نہیں ہوئی تھی اس لئے پاک فضائیہ کے انجینئرز کو یہ تحقیق اور تصدیق بھی خود کرنی تھی اور اس صلاحیت اور مہارت کو اپنے ساتھ کام کرنے والے دوسرے انجینئرز تک بھی پہنچانا تھا تا کہ ان میں کسی قسم کی صلاحیت کی کمی نہ رہے۔ ساب جو یہ طیارے تیار کرتی ہے اس کے انتہائی قابل انجینئرز ان طیاروں کی حالت دیکھنے کے بعد پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر چکے تھے کیونکہ ان کے سامنے جگہ جگہ ڈھانچوں میں گولوں کے بڑے بڑے سوراخ اور تاروں کے میلوں لمبے گچھے اور تباہ شدہ پیچیدہ الیکٹرانک بورڈ کی مرمت اور بحالی بہت بڑا مسئلہ تھا‘لیکن ہمت ِمرداں مدد ِخدا ‘ پاکستان میں ہی یہ تاریں اور بورڈز تیار کر لئے گئے اور ان طیاروں میں لگا دیئے گئے۔اور پھر آزمائشی پرواز کا مرحلہ آن پہنچا اور ہمیشہ کی طرح پاکستان ایئر فورس کی روایات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے ایئر چیف مارشل خود اس مرمت شدہ ایواکس طیارے میں سوار ہوئے۔ کسی کو بھی مکمل طور پر یقین نہیں تھا کہ تباہی کا نشانہ بننے والا ایواکس طیارہ مقامی سطح پر مرمت اور بحالی کے اس عمل کے بعد اپنی پہلی آزمائشی پرواز میں کیا رسپانس دیتا ہے۔ اور پھر اﷲ اکبر کی گونج میں ہمارے ایواکس نے اڑان بھری اور دنیا بھر کے ماہرین ِصنعت کو حیران کر کے رکھ دیا کیونکہ تمام تکنیکی نظام بالکل اسی طرح کام کر رہے جیسے یہ سویڈن میں اپنی تیاری کے اوائل میں کام کرتے تھے۔
پاکستان نے اپنی اس کامیابی کی ساب کمپنی کو باضابطہ اطلاع دی جس کے ماہرین کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا‘ وہ سوچ رہے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟ ساب کمپنی کے اعلیٰ ماہرین کی ٹیم فوری طور پر پاکستان بھیجی گئی اور انہوں نے پاکستانی عملے کے ساتھ کئی آزمائشی پروازیں کرنے کے بعد کہا کہ آپ کی یہ کامیابی ایک معجزے سے کم نہیں۔ ساب کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم جو یہ طیارہ بنانے والے ہیں اس طیارے کو کبھی بھی دوبارہ قابل استعمال نہیں بنا سکتے تھے‘ہم آپ کو سرٹیفکیٹ دیتے ہیں کہ آپ ساب ارلی ایواکس سسٹم کی مرمت کر سکتے ہیں اور پھر ٹھیک ایک برس بعد دوسرا تباہ شدہ ایواکس طیارہ بھی پاکستان ایئر فورس کے ماہرین نے مرمت کر کے پاک فضائیہ کے حوالے کر دیا۔اگر نئے ایواکس خریدے جاتے تو پاکستان کے بجٹ کے لیے یہ بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا‘ لیکن نئے جہازوں کی خریداری پر خرچ ہونے والی رقم سے95فیصد کم بجٹ اور اخراجات کے بعد یہ دونوں طیارے فضائی بیڑے میں شامل کر دیئے گئے اور پھر پاکستان نے تین نئے ایواکس ریڈار سویڈن سے خرید کر پاکستان میں ہی جہازوں پر لگائے۔ اس طرح مکمل سسٹم سویڈن سے خریدنے کے بجائے کئی کروڑ ڈالر کی بچت ہوئی۔
کل تک پاکستانیوں کو دنیا بھر میں یہ طعنے دیئے جاتے تھے کہ آپ لوگ تو سوئی تک بنانہیں سکتے ‘مگر وہ پاکستان جو اپنے قیام کے وقت کامن پن یا فائلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ نتھی کرنے کے لیے کیکر کے کانٹے ا ستعمال کیا کرتا تھا آج دنیا کی پانچویں بڑی نیو کلیئر طاقت بن چکا ہے اور کچھ ایسے ادارے اور لوگ بھی ہیں جن کے نام اور کام سے کروڑوں پاکستانی واقف ہی نہیں‘ لیکن دنیا بھر میں ان کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ان میں سے ایک نام نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن کا ہے جو آج عالمی معیار کے بہترین ٹیلی کمیونی کیشن اور الیکٹرانک آلات کی تیاری سے جانا جاتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے میں NTRC کا پچاس فیصد کے قریب حصہ ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔سافٹ ویئر ڈیفائنڈ ریڈیوز‘ فیلڈ ایکسچینج‘RCIED جیمرز‘Encryption Devices‘ لینڈ موبائل ریڈیوز‘ بم اور بھاری مشین گنوں سے لیس ڈرون‘ ننھا منا ڈرون ہیلی کاپٹر‘خود کارRattler 20mm گرینیڈ لانچرزنیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن کے چند کمالات ہیں ‘جن کا سہرا اس ادارے کے ایم ڈی بریگیڈئر توفیق جیسے وطن پرست اور ایک سے بڑھ کر ایک ان کے منتخب کئے گئے فنی ماہرین کی ٹیم کے سر جاتا ہے۔یہ مہارت اور کامیابیاں ثبوت ہیں کہ اس قوم میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے ‘ مگر اس کو ابھرنے کا موقع ملنا چاہیے اور جو ادارے سائنسی اور دفاعی مہارتوں کا مظاہرہ کر سکتے ہیں ان کو وسائل کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔اگر وسائل کی کمی ہماری کامیابیوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو اس سے بڑی بد قسمتی نہیں ہو سکتی ۔