تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     28-06-2013

انتخابات: امریکی مسلمان کیا کریں؟

جمعہ کی نماز ہو چکی تو مسجد نور کے صدر نے اعلان کیا کہ ریاست (ورجینیا) کی ایک اہم سیاسی شخصیت یہاں موجود ہیں ۔ ٹیری مکلف (Terry McAulliffe) جو ڈیموکریٹک ٹکٹ پر ریاستی گورنر شپ کے امیدوار ہیں آپ سے مختصر خطاب کریں گے۔ ایک چوتھائی لوگ‘ جنہیں کام پر واپس لوٹنے کی جلدی تھی‘ اٹھ کر چلے گئے اور باقی نمازیوں نے سیاستدان کی باتیں سنیں ۔ وہ شہری حقوق کی اہمیت پر زور دے رہے تھے اور وعدہ کر رہے تھے کہ ان کی حکومت مسلمانوں کے خلاف امتیاز و تفریق برداشت نہیں کرے گی اور اس میں زیادہ سے زیادہ مسلمان شامل ہوں گے ۔ اگلے دن بنیادی الیکشن (پرائمری) ہوا تو اس میں رائے دہندگان کی شمولیت برائے نام(1.4)تھی۔ میں عام طور پر ڈیموکریٹک لائن پر ووٹ کرتاہوں ۔ صبح صبح فریڈم ہائی سکول وڈ برج پہنچا تو دیکھا کہ وہاں صر ف ایک ووٹر ہے ۔بیس منٹ بعد میں دوسرا تھا۔ اس روز میری کاؤنٹی کے ووٹروں نے ریاستی سینیٹر رالف نارتھم کے مقابلے میں اوبامہ انتظامیہ کے عہدیدار انیش چوپڑہ کو نائب گورنر کے لئے پارٹی ٹکٹ دیئے جانے کی سفارش کی۔وہ شمالی ورجینیا میں رہتے ہیں اورووٹ کے لیے تقریباً ہر دروازے پر دستک دے چکے ہیں ۔ پرنس ولیم کاؤنٹی کی ڈیمو کریٹک کمیٹی کے ایک عہدیدار نے کہا ۔جب مقابلہ مکلف اور (سٹیٹ) اٹارنی جنرل کن کشینیلی (Ken Cuccinelli) میں ہو تو پرائمری میں ’’لو ٹرن آؤٹ‘‘ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ یہ صحیح ہے کہ ایک عہدے کے دونوں امیدوار ریاست میں جانے پہچانے ہیں اور رائے دہندگان اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں کی پرائمریز میں ووٹ کرتے ہیں ۔ہار جیت کا فیصلہ پانچ نومبر کو ہوگا جو گورنری کے الیکشن کا مقرر دن ہے ۔اس سے پہلے ایک سنیچر کو ایک بس اسی مسجد سے پچھتر میل جنوب میں ریاستی دارالحکومت رچمنڈ گئی تھی اور وہاں نمازیوں نے ری پبلکن پرائمری میں ووٹ ڈالے ہونگے ۔ ان چالیس برسوں کے دوران میں نے شمالی امریکہ میں اسلام کا ظہور اور اسے تیزی سے پھیلتے دیکھا ہے ۔امریکہ میں مساجد اور اسلامی مراکز (اسلامک سنٹرز) کی تعداد 120 سے تجاوز کر چکی ہے مگر یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے ایک اہم سیاسی عہدے کے امیدوار کوجو نیشنل ڈیموکریٹک کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں‘ ایک مسجد میں آکر رائے دہندگان سے ووٹ مانگتے دیکھا شاید اس وجہ سے کہ اب امریکی مسلمان ایک منظم کمیونٹی ہیں اور ان کی آبادی اس ملک کے جیوش افراد سے بڑھ چکی ہے۔ امریکی یہودی اپنی تعداد 5,425,000 بتاتے ہیں ۔مسلم آبادی کا کوئی مستند تخمینہ موجود نہیں کیونکہ مردم شماری میں کسی شہری سے اس کا عقیدہ نہیں پوچھا جاتا۔ تاہمPEW FOUNDATIONکے ایک اندازے کے مطابق امریکی مسلمانوں کی تعداد ستر لاکھ سے زائد ہے۔ اگر چہ ایوان نمائندگان اور سینٹ میں جیوش ارکان کی تعداد بالترتیب بایئس اور دس ہے مگر اب تک صرف دو مسلمان ایوان میں پہنچے ہیں اور وہ دونوں افریقی امریکی ہیں ۔یہ گمان کسی کو نہیں ہونا چاہیے کہ یہاں کوئی مسلمان‘ محض مسلمانوں کے ووٹوں سے کوئی سیاسی عہدہ حاصل کر سکتا ہے۔ مسجد النور یا امریکی مسلمانوں کی کوئی اور تنظیم کسی سیاسی امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کرتی اور یہ امید کرتی ہے کہ مسلم ووٹر اپنی اقدار کی روشنی میں ووٹ دیں گے ۔ بیشتر ریاستوں کی طرح ورجینیا کو چار بڑے مسائل درپیش ہیں : اول گن کنٹرول یعنی معاشرے کو آتشیں اسلحے سے پاک کرنا ’ دوم ہم جنسی کی شادی یعنی مرد اور عورت کے نکاح کا تصور بدلنا اور اسقاط حمل یعنی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورت کو سرکاری خرچ پر حمل گرانے کی اجازت دینا۔ ان ایک کروڑ افراد کو واپس ان کے وطن بھیجنا یا انہیں کام کرنے کی اجازت دینا جو جنوبی امریکہ سے غیر قانونی نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ مسلمانوں کی اقدار میں وہ مذہبی احکامات شامل ہیں جو دوسرے سامی (ابراہیمی) ادیان میں بھی پائے جاتے ہیں ۔وہ مسیحی اکثریت کے درمیان رہتے ہیں۔ اس اکثریت پر مذہب کی گرفت کمزور ہو رہی ہے‘ کیتھولک سے زیادہ پرو ٹسٹنٹ ان احکامات کو پس پشت ڈال رہے ہیں ۔مسلمان بھی مغربی تعلیم یا اقتصادی تقاضوں کے زیر اثر آزاد خیالی کی طرف مائل ہیں۔ ان حالات میں اعتدال پسند مسلم ووٹر سوچتے ہیں کہ جائیں تو کہاں جائیں؟ رپبلکن سیاستدان بالعموم ان کی مذہبی اقدار کی حمایت کرتے ہیں مگر بین الاقوامی جنگوں میں سر گرمی سے حصہ لیتے ہیں۔ وہ معاشرتی انصاف کے اسلامی نظام کو بھی رد کرتے ہیں۔اگر معاشرے کا کوئی فرد پیچھے رہ گیا ہے تو وہ اسے سہا را دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔مسلم ووٹروں کو ان کی خارجہ پالیسی بھی گوارا نہیں ۔ان کے خیال میں قوم کو رپبلکن انتظامیہ نے افغانستان اور عراق کی جنگوں میں دھکیلا اور ملک کو ایران کے ساتھ محاذ آرائی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جب کہ ڈیموکریٹ ملک کو جنگ و جدل کے چنگل سے نکالنے کی سعی کر رہے ہیں۔ لامحالہ امریکی مسلمان کم برائی کا را ستہ اختیار کریں گے ۔ امریکی مسلمانوں کی بے بضاعتی کا ایک منظر چے چن مسلمان TamerlanTsarnevکی تدفین میں مضمر تھا ۔باسٹن میرا تھون کے دوران بھائی جوہر کے ہمراہ خانہ ساز بم چلانے کے بعد وہ ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا ۔ سارا ملک اُس پر برہم تھا۔ شہر شہر اس واردات کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے اور کچھ مظاہرین یہاں تک کہہ رہے تھے کہ جو کوئی اسے سپرد خاک کرے گا ہم اسے زندہ در گور کر دیں گے ۔ کچھ نے مطالبہ کیا کہ اس کے جسدِ خاکی کو روس بھیج دیا جائے جہاں سے اس کے والدین نے نقل وطن کیا تھا۔ بہت سے قبرستانوں نے سارنیف کی میت وصول کرنے سے انکار کر دیا ۔میساچوسٹس کے حکام نے شمالی ورجینیا کی کئی اسلامی تنظیموں سے جن میں دار النور بھی شامل تھی‘ رابطہ کیا مگر ان میں سے کوئی بھی مبینہ دہشت گرد کے کفن دفن پر آمادہ نہ ہوئی ۔ اس مسجد کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پریذیڈنٹ رفیع الدین احمد نے جو ایک مسلم قبرستان کے انصرام کے انچارج بھی ہیں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئمہ مسا جد اور مفتیوں سے استفسار کیا گیا تو سب نے یہ فتویٰ صادر فرمایا تھا کہ سارنیف کی تدفین میسا چوسٹس کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔ وسطی ورجینیا کی ایک خاتون مارتھا مُلن (Martha Mullen)نے ریڈیو پر سارنیف کی عدم تدفین کا احوال سنا تو اسے یسوع مسیح کے یہ الفاظ یاد آئے۔ ’’اپنے دشمنوں سے محبت کرو‘‘۔ اس کی کوشش سے سارنیف کو رچمنڈ سے تیس میل شمال کے ایک قبرستان میں دو گز زمین ملی اور اسے اسلامی رسوم کے ساتھ ڈاسویل میں سپرد خاک کیا گیا ۔اگلے دن AP نے یہ خبر دی ’’سارنیف عمر چھبیس سال کو جمعرات کے دن چپ چاپ دیہی کیرولائن کاؤنٹی کے ایک چھوٹے سے اسلامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ ڈاؤن ٹاؤن باسٹن میں بم پھٹنے کی واردات کے بعد‘ جس میں تین افراد ہلاک اور 260 سے زیادہ زخمی ہوئے‘ انیس اپریل کو پولیس کے ساتھ لڑائی میں اس کی موت کے وقت سے اس کی میت وورچسٹر میسا چوسٹس کے ایک فیونرل پارلر میں پڑی تھی۔ میسا چوسٹس اور کئی دوسری ریاستوں نے باقیات قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی ۔جب فیونر ہوم کی حفاظت کے اخراجات پولیس کی رسائی سے باہر ہونے لگے تو اس نے سارنیف کی تدفین کے لیے جگہ کی تلاش میں امداد کی اپیل جاری کی تھی‘‘۔ مُلن گاؤں میں ذہنی امراض کی مشیر اور یونائیٹڈ میتھوڈسٹ چرچ کی رکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سارنیف کے معاملے میں اس کا اپنا مذہب راہنما ہوا۔ اس نے کئی مذہبی تنظیموں کو ای میل ارسال کی تو اسلامک فیونرل سروسز آف ورجینیا کی جانب سے مثبت جواب آیا اور اس نے ال برزخ میں ایک قبر کی جگہ حاصل کی۔ خاتون نے کہا ’’یہ ایک بین المذاہب کوشش تھی‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved