کہتے ہیں کہ برا وقت اچھے وقت کی نوید ہو تا ہے۔ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور ہر برائی کے بعد اچھائی ہے۔ برا وقت سیکھنے کے لیے ہوتا ہے‘ مایوس ہونے کے لیے نہیں۔ برا وقت، مشکلات اور برائی کے دور میں خود کو مضبوط رکھنے کے لیے دانائوں کے یہ جملے کافی تسلی بخش ثابت ہوتے ہیں۔ یہ جملے انفرادی حیثیت میں جتنے اہم ہیں اس سے کہیں زیادہ اہمیت اس وقت اختیار کر جاتے ہیں جب انہیں ملکی اور عالمی سطح پر پرکھا جاتا ہے۔ آپ تحریک انصاف کی مثال ہی لے لیجیے۔ آج سے ایک سال پہلے یعنی جنوری 2020ء میں ادارۂ شماریات کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح چودہ اعشاریہ چھ فیصد تھی جو جنوری 2021ء میں کم ہو کر پانچ اعشاریہ سات فیصد رہ گئی ہے۔ جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا لیکن وقت کا بدلنا طے ہے‘ سو بدل گیا۔ پی ٹی آئی نے جب 2018ء میں حکومت سنبھالی تھی تو مہنگائی کی شرح پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی جو آج کے مقابلے میں بھی زیادہ تھی۔ بہت سے ایسے مواقع آئے ہیں جب مہنگائی پچھلے سال کی نسبت کم رہی ہے جیسے جنوری 2019ء میں مہنگائی کی شرح پانچ اعشاریہ چھ فیصد تھی جبکہ ن لیگ کے دور میں جنوری 2018ء کے ادرۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی۔ گو کہ فرق انتہائی کم تھا لیکن نچلی سطح پر لانا ایک کامیابی ہے۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنوری 2020ء میں مہنگائی کی چودہ اعشاریہ چھ فیصد شرح پچھلے چودہ سالوں میں ماہانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ تھی۔ پچھلے ماہ دو اعشاریہ دو فیصد مہنگائی میں کمی ہوئی۔ اس پر وزیراعظم صاحب نے ٹویٹ کر کے خوشی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس اور کور انفلیشن اڑھائی سال کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے یہ رپورٹ بھی جاری کی گئی تھی کہ جنوری میں مہنگائی کی شرح سات اعشاریہ دو سے آٹھ اعشاریہ دو فیصد رہے گی۔ توقعات سے بہتر نتائج آنا اچھی خبر ہے۔ اگر کور انفلیشن کی بات کی جائے تو وہ بھی پچھلے سالوں سے کم ہے۔ کور انفلیشن انرجی اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمت نکال کر بنتی ہے جو اس سال پانچ اعشاریہ چار فیصد رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے یہ سات اعشاریہ چھ فیصد تھی۔ ادارۂ شماریات پینتیس شہروں میں تین سو چھپن کموڈٹیز اور ستائیس مارکیٹوںمیں دو سو چوالیس اشیا کی قیمتوں کی مانیٹرنگ کے بعد مہنگائی کی شرح کا اندازہ لگاتا ہے۔
پچھلے سال مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ اشیائے خور ونوش کی قلت تھی۔ آٹا نہیں مل رہا تھا‘ کے پی والے پنجاب پر، پنجاب والے سندھ پر اور سندھ والے وفاق پر الزام لگا رہے تھے لیکن مسئلے کا حل کوئی نہیں دے رہا تھا۔ حکمرانوں کا کیا بگڑنا تھا‘ سارا بوجھ عوام نے برداشت کیا۔ ایسا وقت بھی آ گیا تھا کہ صاحبِ حیثیت لوگ ہاتھ میں پیسے لے کر دکانوں اور سپر سٹورز کے چکر لگا رہے تھے لیکن آٹا نہیں مل رہا تھا۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں‘ جہاں گندم عوام کی ضرورت سے زیادہ پیدا ہوتی ہے‘ سفارشیں کروا کر آٹے کا ایک توڑا حاصل کیا جا رہا تھا۔ پاکستان کے ایک بڑے برانڈ کے مالک نے بتایا کہ پچھلے سال آٹا بحران کے دنوں میں ان کے گھر میں آٹا ختم ہو گیا، وجہ پوچھی تو گھر والوں نے بتایا کہ سپر سٹورز سے بھی آٹا نہیں مل رہا۔ دن میں سپر سٹور کے باہر ایک وقت آٹے کا ٹرک آتا تھا اور لوگ لائنیں لگا کر عام ریٹ سے مہنگے داموں آٹا وصول کر رہے ہوتے تھے۔ سٹور کے مالک ان کے دوست تھے‘ دونوں ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ ایک دن نماز پڑھ کر نکلے تو وہ صاحب سٹور کے مالک کو روک کر آٹے کے بارے استفسار کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ جب ٹرک آئے گا تو آپ کیلئے ایک توڑا رکھوا لوں گا، وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ آپ میرے دوست ہیں ورنہ لوگ تو ٹرک آنے سے تین گھنٹے پہلے وہاں کھڑے ہوتے ہیں۔ جتنی تکلیف وہ برداشت کرتے ہیں‘ ان کا حق پہلے بنتا ہے لیکن آپ کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے آٹا رکھ لوں گا۔ ملازم سے کہیے گا کہ سٹور بند ہونے سے دس منٹ پہلے آ کر آٹا لے جائے۔ تقریباً ایک سال پہلے یہ ہر گھر کی کہانی تھی لیکن آج حالات قدرے بہتر ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں کسی چیز کی قلت نہیں ہے۔ بلیک مارکیٹنگ بھی نہیں ہو رہی اور حکومت سبسڈی بھی دے رہی ہے۔ مہنگائی کی شرح میں پچھلے چار ماہ سے مسلسل کمی ہو رہی ہے جسے سراہا جانا ضروری ہے۔
مہنگائی کا موضوع چینی کی قلت پر رائے زنی کے بغیر ادھورا ہے۔ نومبر 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت نے گیارہ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی تھی‘ شوگر ملوں سے جب پوچھا گیا کہ کیا ملکی ضرورت کے مطابق چینی موجود ہے تو مل مالکان نے مبینہ طور پر جھوٹ بولا کہ چینی ضرورت سے زیادہ موجود ہے۔ حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس وقت حکومت‘ بقول وزیراعظم‘ چونکہ کچھ ناتجربہ کار تھی‘ اور اقتدار سنبھالے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے‘ جبکہ دوسری طرف مافیاز بہت زیادہ چالاک اور موقع پرست تھے‘ انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس سے پیشتر کہ حکومت کو معاملات سمجھ آئیں‘ فوراً ایکسپورٹ کی اجازت حاصل کر لیں۔ لہٰذا چینی برآمد کر دی گئی اور بینک اکائونٹس بھر لیے گئے۔ چند ماہ بعد جب چینی کی قلت پیدا ہونے لگی تو حکومت نے مل مالکان سے پوچھا کہ چینی کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے؟ کہا گیا کہ چینی کی قلت ہو گئی ہے۔ جب پوچھا گیا کہ پہلے تو بتایا گیا تھا کہ ملکی ضرورت سے زیادہ چینی موجود ہے تو جواب ملا کہ اس مرتبہ چینی کی فروخت زیادہ ہوئی ہے‘ عوام پہلے سے زیادہ چینی خرید رہے ہیں، اس لیے قلت کا سامنا ہے۔ یہ خبر حکومت کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھی کیونکہ چینی کے بڑے مینوفیکچررز حکومت کا حصہ تھا، بلکہ کچھ تو وزیراعظم کے سب سے زیادہ قریب سمجھے جاتے تھے۔ اس سے نہ صرف معاشی بحران کی کیفیت نے جنم لیا بلکہ اپوزیشن نے حکومت کو چینی چور کے القابات سے بھی نوازا۔ جب معاملے کی مکمل تحقیقات کی گئیں تو یہ حقائق سامنے آئے کہ مل مالکان نے چینی سٹاک کی غلط رپورٹ دے کر اربوں روپے کما لیے تھے۔ حکومت نے معاملے پر انکوائری بٹھائی، کمیشن بنا اور بعض حکومتی لوگوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ حکمران جماعت کے ایک اہم رکن کو اس سیکنڈل کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا گیا جو کسی حد تک درست بھی تھا۔ وہ صاحب وزیراعظم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔ وزیراعظم کے سب سے قریب سمجھے جانے والے ان صاحب سے تمام پارٹی ذمہ داریاں واپس لے لی گئیں اور وہ بیرونِ ملک روانہ ہو گئے۔ اب اگرچہ وہ واپس آ چکے ہیں لیکن ابھی تک وزیراعظم نے انہیں معاف نہیں کیا۔ اس وقت چینی بحران سے فوری نمٹنے کے لیے مجبوراً حکومت کو چینی درآمد کرنا پڑی لیکن ایک اصول طے کر لیا گیا کہ شوگر ملوں کی کاغذی رپورٹ پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا، جب تک فزیکل آڈٹ نہ ہو جائے‘ چینی کی مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ بہتر حکمت عملی کے تحت اس سال یہ مسئلہ درپیش نہیں آیا۔ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت نے ماضی سے سبق سیکھا ہے۔
کسی بھی حکومت کا مافیاز کو نکیل ڈالے بغیر معاشی ترقی کرنا ناممکن ہے۔ چینی اور آٹا مافیا کے خلاف حکومتی کارروائی نے یہ امید پیدا کی ہے کہ ناممکن شاید ممکن ہونے جا رہا ہے کیونکہ ماضی قریب میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں وزیراعظم نے اپنے ہی دوستوں اور مشیروں کے خلاف انکوائری کا حکم دیا ہو اور ان انکوائریوں کو سالوں تک لٹکانے کے بجائے چند ہفتوں میں رپورٹ منظر عام پر لے آئے ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج حالات ماضی سے بہتر ہیں اور درست سمت میں آگے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔