کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ کبھی اُس کا جی گانے کو نہیں چاہا یا چاہتا؟ بولنا اور گانا دو ایسے اوصاف ہیں جو کم و بیش ہر انسان میں پائے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بچے بولنا بعد میں سیکھتے ہیں اور گانا پہلے سیکھ جاتے ہیں۔ لَے انسان کے اندر ہے اِس لیے جب بھی لَے کاری کی جاتی ہے، پیر تھرکیں نہ تھرکیں، دل ضرور تھرکنے لگتا ہے۔ بہت سوں کا معاملہ یہ ہے کہ جب دل کسی صورت نہیں بہلتا، کچھ سمجھ میں نہیں آتا تب گانے لگتے ہیں۔ گاتے گاتے وقت بھی کٹتا ہے اور دل کے استحکام کا سامان بھی ہوتا ہے۔ گانے سے دل کے استحکام کا سامان؟ آپ سوچیں گے گانے سے گانے والے کے دل کو سُکون ملے یہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر کچھ لازم تو نہیں کہ سُننے والے بھی راحت ہی پائیں! سوچ آپ کی بھی درست ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اِسی پہلو کی طرف آرہے ہیں۔ عام آدمی کو جب بھی گانے کا شوق چراتا ہے تو وہ ریڈیو، ٹی وی اور فلم کے مقبول گیتوں پر ہاتھ صاف کرتا ہے۔ گیتوں، بالخصوص فلمی گیتوں کی دُھنیں عام طور پر سادہ و عام فہم ہوتی ہیں۔ موسیقار اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ گیت کی دُھن ایسی ہونی چاہیے کہ کوئی بھی خاص دِقت کے بغیر گنگناسکے۔ آج کل فلمی گیتوں کی دُھنیں پھر بھی تھوڑی بہت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ فلمی گیتوں کی دُھنیں بالکل سادہ اور مدُھر رکھی جاتی تھیں تاکہ عام آدمی سُن کر حِظ بھی کشید کرے اور گنگنانے میں بھی الجھن کا سامنا نہ کرے۔
ہمارے خطے میں محمد رفیع، شہنشاہِ غزل مہدی حسن، احمد رشدی، مکیش، کشور کمار، طلعت محمود اور دوسرے بہت سے گلوکاروں نے اپنے فن سے کئی نسلوں کو مسحور کیا ہے۔ اِن عظیم فنکاروں کے گائے ہوئے گیت گاکر ہزاروں فنکاروں نے اپنے لیے روزی روٹی کا بندوبست کیا ہے۔ ملکۂ ترنم نور جہاں، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، نسیم بیگم، مالا اور دوسری بہت سے گلوکاراؤں نے بھی اپنے فن کا جادو یوں جگایا ہے کہ اُن کے گائے ہوئے گیتوں کی تمام باریکیوں کو سمجھنا آج تک ممکن نہیں ہوسکا۔ بڑوں کے گائے ہوئے گیتوں کو گنگنانے اور گانے تک تو معاملہ ٹھیک تھا۔ کسی بھی گلوکار یا گلوکارہ کے پرستاروں کو اُس کے گیت گنگنانے اور گانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور روکنا چاہیے بھی نہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یاروں نے قبولِ عام کی سند رکھنے والے گیتوں کو گاتے گاتے اُن کا تیا پانچا کرنا شروع کردیا۔ اچھے خاصے گیتوں کو من چاہے انداز سے اور کبھی کبھی تو قوالی کے سے انداز سے گانا! اِسے تو متعلقہ فنکاروں کے دل و دماغ پر قیامت سے تعبیر کیجیے۔ یہاں تک بھی معاملہ بُرا نہیں تھا۔ اضافی مصیبت یہ ہوئی کہ جھنکار متعارف کراکے اچھے خاصے گیتوں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی!
ہم ٹیلی کام سیکٹر اور آئی ٹی کے عہدِ زرّیں میں جی رہے ہیں۔ پیش رفت کا بازار یوں گرم ہے کہ ہر معقول معاملہ ٹھنڈا پڑتا جارہا ہے۔ ویب سائٹس شوقینوں کے لیے ایپس متعارف کراتی جارہی ہیں جس کے نتیجے میں گلوکاری آسان سے آسان تر ہوتی جارہی ہے۔ سمارٹ فون پر ایپ ڈاؤن لوڈ کیجیے، انٹرنیٹ کی مدد سے گانے تک پہنچئے، آن کیجیے اور ہینڈ فری میں موجود مائیکروفون کی مدد سے گانا شروع کیجیے۔ آپ کو صرف تال کے ساتھ سُر ملاکر اپنی آواز متعلقہ ایپ کی نذر کرنی ہے۔ باقی کام ایپ خود کرے گی یعنی گیت کی اصل موسیقی ایپ شامل کرے گی۔ لیجیے، پلک جھپکتے میں کسی بھی پسندیدہ گیت کا آپ والا ورژن تیار ہے! اب آپ کی مرضی کہ خود حِظ اٹھائیے یا دوسروں پر بھی قیامت ڈھائیے۔ فی زمانہ دوسروں پر قیامت ڈھانے سے کون مجتنب رہتا ہے جبکہ سوشل میڈیا پورٹلز کی صورت میں ایک جہاں کو وقفِ اضطراب کرنے کا سامان موجود ہے۔
سوشل میڈیا نے موسیقی کے میدان میں بڑی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ جو خالص بے سُرے ہیں وہ جم کر گارہے ہیں اور جنہیں سُروں کی برائے نام بھی پہچان نہیں وہ مبصر بن بیٹھے ہیں۔ موسیقی کے بارے میں وہ لوگ بھی بے دھڑک رائے زنی کر رہے ہیں جو تین چار سے زیادہ راگوں کے نام بھی نہیں جانتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی روک بھی تو نہیں سکتا۔ کسی بھی عظیم فنکار کے بارے میں کچھ بھی کہیے اور لکھئے، کس میں دم ہے جو روک کر دکھائے۔ موسیقی کے مقدر میں بعض ایسے مہربان بھی لکھے گئے ہیں جو موازنے کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کوئی محمد رفیع اور مہدی حسن کا موازنہ کرکے دونوں کے محاسن گنوانے کی مشقت میں مصروف ہے۔ اس کوشش میں عموماً بنیادی نوعیت کی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور عظیم فنکاروں کے چاہنے والوں کے دل دُکھتے ہیں۔ ملکۂ ترنم نور جہاں اور لتا منگیشکر کا موازنہ بھی بہت سے سنگیت پریمیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کم و بیش آٹھ عشروں سے برصغیر کی فضاؤں میں عظیم فنکاروں کے فن پارے گونج رہے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک گانے والے ہی میدان میں نہیں آئے، نابغوں کا درجہ رکھنے والے موسیقار اور سازندے بھی میدان میں رہے ہیں۔ آر سی بورال، پنکج ملک، کھیم چند پرکاش، نوشاد علی، ماسٹر غلام حیدر، انیل بسواس، ماسٹر فیروز نظامی، ہیمنت کمار، شنکر جے کشن، لکشمی کانت پیارے لعل، خیام، روی، کلیان جی آنند جی، روشن، سی رام چندر، او پی نیّر، ایس ڈی برمن اور آر ڈی برمن جیسے عظیم موسیقاروں نے بہت کچھ دیا ہے مگر عظیم فنکاروں کا موازنہ کرنے کی حماقت اُن سے کبھی سرزد نہیں ہوئی۔ ہر عظیم فنکار کا فن سلطنت کے مانند ہوتا ہے جس کا وہ شہنشاہ ہوتا ہے۔ جس میں قدرت کے بخشے ہوئے گُن ہوتے ہیں اُس کا موازنہ کسی سے نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اپنے آپ میں ایک دنیا ہوتا ہے۔ یہ بات پست درجے کی عقل رکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ کندن لعل سہگل، پنکج ملک، محمد رفیع، مہدی حسن، مکیش، کشور کمار، ہیمنت کمار، کانن دیوی، پارل گھوش، زہرہ بائی انبالے والی، امیر بائی کرناٹکی، نور جہاں، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، گیتا دت اور دوسری بہت سی عظیم فلمی گلوکاراؤں کا یہ حق ہے کہ اُن کا باہم موازنہ کرکے کسی کی نیچا دکھانے اور کسی کو برتر ثابت کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہر فن کار کو ایک دنیا کی حیثیت دی جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنی دنیا پر حکومت کرتا یا کرتی ہے۔
سوشل میڈیا پورٹلز پر زیادہ سے زیادہ متنازع باتیں کہنے اور لکھنے کا چلن عام ہے کیونکہ ریٹنگ تو منفی بات ہی سے آتی ہے۔ بڑوں کے بارے میں کوئی بھی ایسی ویسی بات کیجیے تو لوگ بہت تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں بڑوں کو متنازع نکات کے چنگل میں پھنساکر دنیا کے سامنے لانے کا چلن عام کیوں نہ ہو؟ حد یہ ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ آوازوں کے بھی قبیلے ہوتے ہیں۔ ایک قبیلے کی آواز دوسرے قبیلے کی آواز سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ دونوں کی جولاں گاہ بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موازنہ ممکن ہی نہیں! مثلاً طلعت محمود اور کشور کمار کا موازنہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اِسی طور محمد رفیع اور مکیش کا مواز بھی لاحاصل مشق ہے۔ محمد رفیع اور مہدی حسن دو مختلف دنیاؤں کے نام ہیں۔ اِن کا موازنہ بھی حماقت ہی کا مظہر کہلائے گا۔ مادام نور جہاں اور لتا منگیشکر کے میدان بھی بالکل الگ ہیں۔ اُنہیں آمنے سامنے لایا اور تولا نہیں جاسکتا۔ سُر اور تال کی دنیا کے بڑوں نے ہمیں جو کچھ دیا ہے وہ ہمارا مذاق بلند کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ عظیم گلوکاروں کے گائے ہوئے گیت ہمارے ذہن کو تازہ دم کرتے ہیں۔ ساز بجانے والوں کی مہارت بھی سماں باندھ دیتی ہے اور ہم کچھ دیر کے لیے اِس دنیا سے نکل کر کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہر شعبے میں آسانی کا دور چل رہا ہے۔ جسم و جاں کو نچوڑ لینے والی مشقت مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں گئے وقتوں کا جو خزانہ عظیم فنکاروں نے ہمارے لیے چھوڑا ہے اُس سے بھرپور حظ کشید کرنے کے ساتھ ساتھ اُن بڑوں کی عظمت کا معترف ہونا بھی لازم ہے۔ بڑوں کو ماننے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنی بے بضاعتی کے پیشِ نظر اُنہیں پرکھنے سے گریز کیا جائے۔ چھوٹے منہ رکھنے والے بڑی بات کہتے ہیں تو دل پکار اٹھتا ہے کہ بڑوں پر یہ وقت بھی آنا تھا!