پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے اعلان سے لگتا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک میں نئی جان پڑ سکتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ اپوزیشن، اب کی بار اس معاملے میں مکمل سنجیدگی اور ہوم ورک کے ساتھ اترے۔ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اجلاس میں 26 مارچ کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے اور سینیٹ الیکشن میں مشترکہ امیدوار لانے سمیت اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ استعفوں اور تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ مؤخر کردیا گیا، اوپن بیلٹ سے سینیٹ انتخابات کی 26ویں آئینی ترمیم اور براڈ شیٹ تحقیقات کیلئے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی تقرری مسترد کردی گئی۔ 10 فروری کو سرکاری ملازمین کے احتجاج میں شرکت کا اعلان بھی کیا گیا۔ ان فیصلوں سے لگتا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کو سیاسی اور پارلیمانی میدان میں زچ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اجلاس کے بعد مریم نواز اور بلاول بھٹو کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دی تو ان کی باڈی لینگویج سے لگ رہا تھا کہ اپوزیشن کافی حد تک ایک پیج پر ہے۔ صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہیں بھی لوز بال دینے سے گریز کیا۔ اس سلسلے میں مریم نواز اور بلاول بھٹو بھی مولانا کی معاونت کرتے رہے۔ ایک رپورٹر نے جب ان سے سوال کیا کہ وہ یہ جدوجہد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کر رہے ہیں یا عمران خان کے خلاف؟ تو مولانا نے اپنے خاص سیاسی انداز میں جواب دیا کہ ہماری لڑائی غیر جمہوری عمل کے خلاف ہے۔ اس سے یہ بات کافی حد تک واضح ہو گئی ہے کہ اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی طرح بھی معاملات کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتی، جوکہ حکومت کے لئے پریشانی کا سبب ہو سکتا ہے۔
حکومت کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو قریب آنے سے روکے۔ اس اجلاس کے بعد اپوزیشن کے اہداف بھی کافی حد تک واضح ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن نے دونوں ایوانوں کے اندر سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی ایک جھلک جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران دیکھنے میں آئی۔ اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے جو رویہ اختیار کیا گیا‘ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو چور، لٹیرے، نااہل حتیٰ کہ نشئی تک کہتے رہے۔ پھر بات بڑھ کر گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی رقابت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو 10 منٹ بھی برداشت کرنے کے روادار نہیں۔ اپوزیشن ارکان نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا او مائیک نکال لیا۔ یہ مناظر دنیا بھر میں دیکھے گئے۔ حکومت اور اپوزیشن کی مخاصمت اپنی جگہ لیکن ایوان کا تقدس اور پاکستان کی عزت زیادہ اہم ہے۔ ان مناظر سے ارکان پارلیمان میں غیر سنجیدگی اور قومی امور میں عدم دلچسپی کا تاثر ابھرتا ہے۔ ایک اجلاس کے انعقاد پر ملکی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں تاکہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے قانون سازی کی جا سکے۔ ایوان میں ہلڑبازی، شور شرابے اور پرچیاں پھاڑنے کا عمل قابل مذمت ہے۔ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑنا اور پرچیاں ہوا میں اڑانا دراصل عوام کے ٹیکسز سے جمع کئے گئے کروڑوں روپے ہوا میں اڑانے کے مترادف ہے۔ بہرحال اپوزیشن کو ایوان میں احتجاج کے دوران احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ دوسری طرف حکومت کو بھی بڑے بھائی کا کردار نبھاتے ہوئے اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس بار سڑکوں پر اپوزیشن کی سٹریٹیجی بڑی اٹیکنک لگ رہی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خورونوش کی مہنگائی نے پاکستانیوں کی زندگی مشکل بنادی ہے۔ پی ڈی ایم نے نظریاتی سیاست کے بجائے عوامی سیاست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ڈی ایم رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام کو اس مشکل سے نکالنے کیلئے وہ ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اپوزیشن اگر درست حکمت عملی اختیار کرے تو مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کی بڑی تعداد اسلام آباد کا رخ کر سکتی ہے۔ پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی کے اس سوال پر کہ لانگ مارچ کتنے دن کا ہوگا مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے مسکرا کر کہاکہ لانگ مارچ کتنے دن کا ہوگا یہ جاننے کیلئے انتظار فرمائیں۔ پی ڈی ایم کا سینیٹ الیکشن پر فیصلہ یقینی طور پر حکومتی حلقوں میں بے چینی کا سبب ہوگا۔ یہ وہ ترپ کا پتہ ہے جس سے حکومتی صفوں میں اضطراب بڑھ گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے میڈیا کو بتایا کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت پی ڈی ایم کی جماعتیں سینیٹ انتخابات میں ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کریں گی، بلکہ الیکشن مل کر لڑیں گی اور امیدوار مشترکہ ہوں گے۔ اس پر اپوزیشن اتحاد کی تمام جماعتیں متفق ہو چکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس بار کافی پُراعتماد تھے کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے سربراہوں اور نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اور طویل بحث کے نتیجے میں تمام فیصلے ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہماری لڑائی غیرجمہوری افراد سے ہے اور جو بھی اس حرکت میں ملوث ہے ہم اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد مؤخر کرنے کی وجہ بھی کافی معقول معلوم ہوتی ہے۔ اپوزیشن سوچ سمجھ کر استعفے اور عدم اعتماد کی تحریک سے پیچھے ہٹی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات تک اور جب تک اپوزیشن کے ارکان اسمبلی اپنے ووٹ کا حق استعمال کررہے ہیں اس وقت تک استعفے دینے سے کنفیوژن پیدا ہوسکتی تھی‘ لہٰذا ترتیب کے مطابق پہلے سینیٹ کے میدان میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس دوران اپوزیشن کو لانگ مارچ کی تیاری کا وقت بھی مل جائے گا۔ جہاں تک عدم اعتماد کی تحریک کا تعلق ہے اس حوالے سے پی ڈی ایم کے اگلے اجلاس میں بحث ہوگی اور فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ 26 مارچ کو پورے ملک سے لانگ مارچ کے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے لیکن اس سے قبل 10 فروری کو سرکاری ملازمین بھی اپنا احتجاج لے کر اسلام آباد کی طرف آرہے ہیں۔ پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری ملازمین اور ہر شعبہ زندگی سے وابستہ متاثرین کے احتجاج میں پی ڈی ایم ان کے ساتھ رہے گی اور ہر احتجاج میں ان کی مکمل حمایت اور تائید کرے گی۔ پی ڈی ایم کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ عوام کی شمولیت کے بغیر کسی تحریک کو کامیاب نہیں کرایا جا سکتا۔ اپوزیشن کے ان تمام تر دعووں کے باوجود پی ڈی ایم کو عوام میں اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے پچھلے دعووں، نعروں اور اعلانات سے فرار کی وضاحت دینا ہو گی۔ پی ڈی ایم والوں کو یہ بات ثابت کرنا ہو گی کہ وہ مستقبل میں کسی ڈیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مریم نواز کسی صورت ملک چھوڑ کر لندن نہیں جائیں گی۔ پیپلز پارٹی وقت آنے پر سندھ حکومت کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرے گی۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کے مطابق پی ڈی ایم کا لانگ مارچ این آر او کی خاطر کیا جارہا ہے۔ اب اپوزیشن کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کا کسی این آر او سے کوئی تعلق نہیں۔ اپوزیشن کو یہ نعرہ بھی بلند کرنا ہوگا کہ ''مائی وے از ہائی وے‘‘۔ ایک ایسا لانگ مارچ جو ووٹ چوری کے ہر دروازے کو ہمیشہ کے لئے بند کردے۔ اگر پی ڈی ایم اپنے وعدے کے مطابق قوم کی امانت قوم کو واپس دلانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس ملک سے حقیقی جمہوریت کا سورج کبھی غروب نہیں ہو گا!!