ہرے بھرے لان میں سبز تر ہوتی گھاس پر آرام کرتا، لمبا لیٹا دھوپ کا ایک بڑا مستطیل ٹکڑا روز صبح مجھے اپنی طرف بلاتا ہے۔ میں صبح عجلت میں ناشتہ کرکے دفتر جانے کے لیے نکلتا ہوں تو گھاس دھوپ سینک رہی ہوتی ہے۔ پہلے مجھے بلایا کرتی تھی کہ یہ لمحے بار بار نہیں آتے۔ آؤ! کچھ دیر ہمارے ساتھ سانس لو اور ہماری طرح معطر ہوجاؤ۔ میں اسے جواب دئیے بغیر نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتا تھا۔ پھر میرے کٹھور اور بے مروت رویے کو دیکھ کر اس نے مجھے بلانا چھوڑ دیا۔ خو دبے حجاب دھوپ میں جسم گرم کرتی، زلفیں لہراتے پودوں سے باتیں کرتی، ہوا سے ہنستی کھیلتی ہے اور وقت گزرنے کا ایک ایک پل محسوس کرتی مزے کا دن گزار دیتی ہے۔ میری بھی بہت دن سے خواہش ہے کہ خنک فضا میں ہلکا ہلکا جسم سینکتی سنہری، خوشگوار دھوپ میں کرسی ڈال کر یا گھاس پر لیٹ کر سورج کو آسمان پر ہولے ہولے سفر کرتے دیکھوں‘ لیکن سارا دن کاغذوں سے سر ٹکرا کر میں لوٹتا ہوں تو سورج سیاہ لحاف اوڑھ چکا ہوتا ہے، پودے گہری نیند میں جاچکے ہوتے ہیں اور گھاس غنودگی میں ہوتی ہے۔ یہ ارادے باندھ کر کہ مجھے بھی ایسامزے کا دن جلد ملے گا، جلتا کڑھتا میں بھی سوجاتا ہوں لیکن پھر اگلا دن ایسا ہی طلوع ہوتا ہے اور اس سے اگلا دن پھر ویسا ہی۔ جس چھٹی کے دن اس عیاشی کے لیے میں نے یہ منصوبے طے کیے ہوتے ہیں، اس دن نے مجھے مصروف کرنے کے منصوبے پہلے ہی طے کرلیے ہوتے ہیں۔ ہفتے بھرکی گھریلو خریداری، گاڑی کے ریڈی ایٹر کی مرمت، یو پی ایس کی بیٹریاں بدلنے کی ضرورت اور قریبی رشتے دار کے یہاں تعزیت کے لیے حاضری۔ چھٹی کا دن اس شان سے صرف کرکے جب میں فارغ ہوتا ہوں تو سونے کا بڑا سا تھال افق کے نیچے جاچکا ہوتا ہے۔ میں سوئے ہوئے سبزے اور پودوں کے درمیان سے گزرتا ہوں، نئے ارادے باندھتا ہوں اور جلتا کڑھتا سوجاتا ہوں۔
کل رات میں تہیہ کرکے سویا تھاکہ بس بہت ہوگئی رقیبوں نے بہت عیش کرلیے۔ کل میں یہ عیاشی کروں گا۔ صبح جلدی جلدی سودا سلف لے آؤں گا‘ الیکٹریشن سے کہوں گا جلد آکر وہ لائٹیں ٹھیک کردے جو کافی دن سے خراب پڑی ہیں‘ اور ہاں !فریج کی کولنگ کم ہے، چیزیں خراب ہورہی ہیں۔ ابھی یہ حال ہے تو گرمیوں میں کیا ہوگا جو ایک دو ماہ میں شروع ہورہی ہیں۔ فریج ٹھیک کروانا بہت ضروری ہے۔ چلو یہ بھی کروا لوں گا۔ اور بس پھر فارغ۔ سٹور کی وہ سیٹنگ جو خواتین کے بس کی نہیں، رات کو کرلوں گا۔ کون سا دن میں ہونا لازمی ہے۔
آپ جانتے ہیں ،چھٹی کے دن جلدی اٹھنا بھی بھلا کوئی انسانیت ہے اور اس دن بھلے مانس ناشتہ نہیں برنچ کرتے ہیں۔ سو شریف آدمیوں کی طرح یہ دونوں کام کیے اور پھرجب سودا سلف لے کر گھر پہنچا تو ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔ سودا سلف لانا بھی دہری مصیبت ہوتی ہے۔ ایک تو کام، پھر ہر شے کی مہنگائی دیکھ کر ویسے ہی انسان کی طبیعت ایسی نڈھال ہوتی ہے کہ شام تک بحال نہیں ہوسکتی۔ میں نے گھاس کی طرف دیکھا وہ مزے سے لان میں براجمان مجھ پر مسکرا رہی تھی۔ الیکٹریشن ہے تو پرانا لیکن پورا جھکی ہے بھئی۔ پہلے تو اس نے موجودہ ایک مسئلے کو چار سے ضرب دی اور حاصل برآمد کیا تو خرچہ بھی چار گنا ہوچکا تھا۔ اس حاصل پر بحث کرنا لاحاصل تھا اس لیے حل یہ کہ دو مسئلے حل کرلیے جائیں اور باقی دو اگلے چھٹی کے دن کے لیے ملتوی کردئیے جائیں۔ اس کام میں دو گھنٹے لگ گئے۔ میں نے دیکھا کہ دھوپ کا ٹکڑا آہستہ آہستہ اپنے پاؤں سمیٹ رہا ہے۔ گھاس اب کھل کر کھلکھلا رہی تھی۔ ابھی فریج کا کام باقی تھا۔ اللہ جانے یہ نئی کمپنیاں کس طرح کے ریفریجریٹر بناتی ہیں۔ ابھی لیے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور مسئلے شروع۔ ایک زمانے میں جب یورپی کمپنیاں اپنے فریج بیچتی تھیں تو کیا پائیداری ہوا کرتی تھی۔ بیس پچیس سال تو کہیں گئے ہی نہیں۔ دادا لے اور پوتا برتے‘ اور اب یہ اپنے یہاں تیار ہورہے ہیں۔ ایک جیسے سب کے سب۔ آج لیجیے اگلے سال خراب اور کوئی شنوائی نہیں۔ شنوائی سے خیال آیاکہ ابھی تو شاید اس کی وارنٹی کی مدت بھی باقی ہو۔ الماری میں گھسا اور وارنٹی کارڈ تلاش کیا۔ ایک تو کمبخت یہ بڑی مصیبت ہے۔ تلاش کرنے سے اصل چیز فوری نہیں ملتی۔ ویسے وقت بے وقت سامنے آجائے گی لیکن وقت پر کیا مجال کہ مل جائے۔ آخر وہ لفافہ گیا کہاں جس میں سارے وارنٹی کارڈز رکھے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تلاش کرنے کے بعد پھولتی سانسوں کے ساتھ جب میں کچھ دیر کے لیے بیٹھا تو مختلف کاغذات میرے ہاتھ میں تھے لیکن وارنٹی کارڈ ہرگز نہیں۔ گھر والے میری جھنجھلاہٹ دیکھتے ہوئے حالات کا اندازہ کرچکے تھے اس لیے قریب کوئی نہیں آرہا تھا، سب دور دور سے گزر رہے تھے۔ ساری متعلقہ جگہیں تو چھان ماری تھیں اب تھوڑی ہی چیزیں بچی تھیں۔ آخر گاڑی کے کاغذات کے لفافے میں سے وارنٹی کارڈ والا لفافہ برآمد ہوا۔ آخر یہ چھوٹا لفافہ کس نے اس بڑے لفافے میں رکھا؟ کوئی بہت ہی بڑا بے وقوف اور پھوہڑ شخص ہے بھئی۔ معاً یاد آیاکہ دو مہینے پہلے جب گاڑی کی ٹیوننگ کروانے گیا تھا تو یہ لفافہ میں نے ہی ساتھ رکھ لیا تھاکہ واپسی پر گیزر کی شکایت کرنی ہے کہ اس کا برنر اور پائلٹ بار بار بجھ جاتا ہے۔ بے وقوف اور پھوہڑ شخص کا تعین ہوتے ہی غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا لیکن جھنجھلاہٹ بہرحال تھی۔ فریج کمپنی کو فون کیا۔ معلوم ہوا کہ وارنٹی موجود ہے وہ آدمی تو بھیج دیں گے لیکن آج نہیں کل۔ چھٹی کے دن ان کا عملہ کم ہوتا ہے۔ یہ بڑا مسئلہ تھا اس لیے کہ کل تو میں دفتر میں مصروف ہوں گا اور بازار سے پتہ نہیں کیا منگوانا پڑے۔ ان سے درخواست کی کہ بھائی! میرا یہ مسئلہ ہے۔ آج بھیج دیں توبہت مہربانی ہوگی۔ کل ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اور آج بھی ابھی بھیج دیں، مجھے بعد میں ایک بہت ضروری کام کرنا ہے۔ میرے لہجے میں جو لجاجت تھی۔ پتہ نہیں اس سے بات کرنے والے کا دل پسیج گیا یا ان کے کسی آدمی کومیرے گھر کی طرف آنا ہی تھا،اس نے اپنا آدمی بھیجنے کا وعدہ کرلیا۔ اب مجھے اس کا انتظار کرنا تھا۔
اب دھوپ کا ٹکڑا ایک چوتھائی رہ گیا تھا اوردور سے اس میں وہ تمازت بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ میں نے حساب لگایاکہ وہ آدمی کتنی دیر میں پہنچے گا۔ میں اتنی دیر میں دھوپ سینکنے کی عیاشی کرلوں یا اس کے جانے کے بعد؟ پتہ نہیں اسے کتنی دیر لگ جائے۔ پھر دھوپ رہے نہ رہے۔ میں نے دھوپ میں کرسی میز ڈالی۔ سردیوں کی دھوپ ہو اور کینو نہ کھائے جائیں۔ کینو کھائے جائیں اور بغیر کالے نمک، سفید نمک اور چاٹ مصالحے کے؟ کوئی دانشمندی کی بات تو ہرگز ہرگز نہیں۔ میں عقل و دانش کے ان لوازمات کی طرف لپکا ہی تھاکہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ فریج کمپنی کا آدمی آگیا تھا۔ چلو! اچھا ہوا، یہ کام جلدی نمٹ جائے گا۔ اس نے ماہر ڈاکٹر کی طرح فریج کو ٹھوک بجا کر دیکھا اور تشخیص کی کہ ایک تو گیس بھرنی ہوگی۔ وہ تو خیر میرے پاس ہے لیکن ایک پرزہ بھی بدلنا پڑے گا جو نہ میرے پاس ہے اور نہ کمپنی اس خرابی کی ذمے دار ہے۔ پرزہ بازار سے لینا پڑے گا۔ گیس اور مزدوری کے پیسے تو نہیں ہوں گے لیکن آپ خوشی سے میرے آنے کا خرچہ کچھ بھی دے دیں گے تو قبول کرلوں گا۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج چھٹی کا دن ہے۔ مارکیٹیں بند ہوں گی، ہاں البتہ ایک دکان یہاں سے دور ہے۔ وہ کھلی ہوگی۔ آنا جانا ایک گھنٹہ، وہ بھی آپ کی گاڑی پر۔
ہم پرزہ لے کر لوٹے تو چراغ روشن ہونے شروع ہوچکے تھے۔ فریج والا کام مکمل کرکے گیا تو نیم تاریکی میں سوئی ہوئی گھاس سیہ مست نظر آرہی تھی اور پودے دیوار پر ہلتے سائے بنا رہے تھے۔ میں نے لان میں پڑی کرسی میز کی طرف دیکھا جو دو ہیولوں کی طرح نظر آرہی تھیں۔ میں کچھ دیر دورکھڑا رہا، سوئے ہوئے سبزے اور پودوں کے درمیان سے گزرا اور تیسرے ہیولے کی طرح کرسی پر بیٹھ گیا۔ رات کے سات بجے اب میں دھوپ سینکنے کے لیے فارغ تھا۔