مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت اور غیر قانونی گرفتاریاں عام ہو چکی ہیں۔ بازار‘ دفتر یا تعلیم کے حصول کے لئے جانے والوں کو دہشت قرار کہہ کر عقوبت خانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ اطلاعات جھوٹی ہوتی ہیں اور ان کا مقصد کشمیریوں کو ہراساں کرنے اور انہیں جسمانی و ذہنی اذیت دینے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ محمد اشرف کھٹانہ ریٹائرڈ فوجی کا بیٹا اور بیس سال کا عام نوجوان تھا۔ گزشتہ برس گیارہ نومبر کو اس کی شادی طے تھی۔ پانچ نومبر کو وہ شادی کی تیاریوں کے سلسلے میں کچھ سامان خریدنے نکلا اور شام تک واپس نہیں آیا تو اس کے گھروالوں کو فکر لاحق ہوئی، وہ اسے تلاش کرنے لگے۔ اس کا موبائل فون آف جا رہا تھا، مقامی پولیس سٹیشن میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کرائی گئی، اسی اثنا میں اس کی شادی کی تاریخ بھی گزر گئی۔ چند روز بعد گھر والوں کو پتا چلا کہ دہلی پولیس نے اشرف کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اشرف کے والد کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا تو سرینگر سے غائب ہوا تھا، اس کے اہلِ خانہ نے پولیس کو بہت سمجھایا کہ اشرف کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں، وہ تو شادی کے سلسلے میں سرینگر میں تھا مگر دہلی پولیس نہیں مانی، اب اشرف دہلی میں قید دہشت گردی کا مقدمہ بھگت رہا ہے اور اس کا باپ انصاف کی دہائیاں دے رہا ہے۔ تیرہ سالہ ثنا زبیر اور سترہ سالہ لائبہ زبیر کی بھی یہی کہانی ہے۔پونچھ سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فوجی ان پر یوں جھپٹے جیسے یہ دو معصوم بچیاں نہیں بلکہ کوئی ماہر کمانڈو ہیں جن سے بھارتی فوج کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ دونوں بچیاں ڈرتے ہوئے سڑک پار کر رہی تھیں کہ ان پر بندوقیں تان لی گئیں۔ بھارتی فوج کی درندگی سے کشمیر میں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ شوکت احمد جو مقامی بجلی کی ٹرانسمیشن کمپنی میں ملازم ہے‘ معمول کے مطابق ٹرانسمیشن لائن کی مرمت کر رہا تھا کہ بھارتی فوج نے اس پر سیدھا فائر کھول دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ درجنوں گولیاں اس کی ٹانگ میں پیوست ہو گئیں۔بعد ازاں پولیس نے تسلیم کیا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے، شوکت دہشت گرد نہیں بلکہ عام ملازم ہے جسے شک کی بنا پر نشانہ بنایا گیا۔
مختلف رپورٹس اور اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ہر دس کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ اب تک مقبوضہ وادی میں ہزاروں نامعلوم قبریں یا اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی قبریں ہیں جنہیں بھارتی فورسز نے اٹھایاتھا۔ اس کے علاوہ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ مسلسل ظلم و ستم اور تناؤ کے باعث 49 فیصد بالغ کشمیری پی ایس ٹی ڈی نامی دماغی مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن متنازع علاقوں میں سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں جنسی تشدد کی شرح سب سے زیادہ ہے ان میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے۔ گرفتار کیے گئے زیادہ تر افراد کو غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فورسز تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں زیر حراست ہلاکتوں کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کی سربراہ حریت رہنما اور معروف حریت پسند لیڈر یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک کے مطابق‘ مقبوضہ کشمیر میں زیرِ زمین ایسے ٹارچر سیلز ہیں جہاں لوگوں کو ذبح کیا جارہا ہے جبکہ قیدیوں کو ان ٹارچر سیلز میں پانی اور کھانوں میں شیشہ ڈال کر دیا جاتا ہے۔ سلام ہے کشمیری قوم کو کہ اس قدر بھیانک اور بہیمانہ تشدد کے باوجود بھی وہ غاصب فوج کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ ہر زخم اور ہر مشکل کے بعد بھی وہ ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور ''ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔
پانچ فروری کے دن پوری پاکستانی قوم نے کشمیریوں کو ان کی دلیرانہ جدوجہد پر سلام پیش کیا جو بھارتی فوج کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بہادری اور جرأت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لاک ڈائون کا مقابلہ کر رہے ہیں۔اسی روز وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے اصولی مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف استصوابِ رائے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں دی گئی ہے،ایک بار جب یہ رائے شماری ہوجاتی ہے اور کشمیری پاکستان میں شامل ہوجاتے ہیں تو ان کا رشتہ پاکستان اور کشمیریوں کے مابین ہوگا۔وزیراعظم نے ایک سال قبل جنرل اسمبلی میں بھی یہ یاددہانی پوری دنیا کے سامنے کرائی تھی کہ کشمیریوں کو جب بھی حقِ خودارادیت ملے گا اوروہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے تو وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ کریں گے۔ پاکستانی قوم پانچ فروری کو یک زبان ہو کر کشمیریوں کے حق کے لئے آواز اٹھاتی ہے اور آپس کے اختلافات بھلا کر یکجان ہو جاتی ہے اس سے بھارت کو یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں پائی جاتیں اور سبھی پاکستانی اس مسئلے پر متحد ہیں کہ بھارتی فوج کے وادی سے انخلا تک احتجاج جاری رہے گا۔
کشمیریوں کو ان کا حق آج نہیں تو کل مل ہی جائے گا لیکن بھارت کو یہ خیال اپنے دماغ سے نکال دینا چاہیے کہ وہ جبر اور ظلم سے جنگ جیت لے گا۔ آخر کون سا ظلم ایسا باقی رہ گیا ہے جو کشمیریوں پر اب تک کیا نہیں گیا؟ کون سی ایسی قیامت ہے جو ان پر ڈھائی نہیں جا چکی؟ کون سا ایسا زخم ہے جس سے کشمیری بچوں‘ بڑوں اور بزرگوں کے سینوں کو چھلنی نہیں کیا گیا؟ کون سا ایسا ہتھیار ہے جو کشمیر کی جنت نظیر وادی میں نہتے معصوم کشمیریوں پر آزمایا نہیں جا چکا؟ اور کون سا ایسا جھوٹ ہے جو کشمیر کے بارے میں بھارت نے آج تک نہیں بولا؟ لیکن ان سارے جھوٹوں‘ ان سارے ٹارچرز اورڈھائی جانے والی تمام قیامتوں کے باوجود کشمیریوں کا جذبۂ آزادی بدستور قائم و دائم ہے ۔ جب تک بھارت اپنے ناپاک قدم جنت نظیر وادی سے نکال نہیں لے جاتا‘ یہ جذبہ ایسے ہی بھارتی شر پسندی اور بھیانک مظالم کا مقابلہ کرتا رہے گا۔ دنیا میں بڑی بڑی تحریکیں گزشتہ چند دہائیوں میں دم توڑ گئیں لیکن کشمیر کی تحریک میں پہلے سے زیادہ تیزی آ چکی ہے اور یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر رہے گی جس میں بالآخر شکست بھارت کا مقدر ہو گی، ان شاء اللہ!
اس بات میں سو فیصد حقیقت ہے کہ آج انصاف پسند غیرمسلم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق ملنا چاہئے۔ امریکا سپر پاور ہونے کے باوجود ویتنام میں نہیں جیت سکا۔ تیس لاکھ قربانیاں دے کر ویتنام آزاد ہوا، افغانستان میں بھی سپرپاور کامیاب نہیں ہوسکی۔ الجیریا میں فرانس ظلم کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوا۔ بھارت کشمیر میں مزید فوج بھی لے آئے‘ وہ ناکام ہی رہے گا۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے راہِ آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے‘ بھارت ان شہیدوں کے وارثوں سے کبھی نہیں جیت سکتا۔
پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ رہے گا۔ اس حقِ خود ارادیت کی عالمی برادری نے یو این سلامتی کونسل کی قراردادوں میں توثیق کی ہے۔ بھارت سات دہائیوں سے کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ اب کشمیریوں کی جوان نسل زیادہ عزم کے ساتھ جدوجہد ِ آزادی کو آگے بڑھا رہی ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں، ادارے، فوج اور سول سوسائٹی کشمیر کے مسئلہ پر ایک جیسا موقف رکھتے ہیں۔یہ ایک بنیادی اور مرکزی مسئلہ ہے جسے بہرحال حل کرنا دونوں ممالک اور خطے کے مفاد میں ہے اور اس سلسلے میں بنیادی ذمہ داری بھارت ہی کی ہے کیونکہ رکاوٹ بھی وہ خود ہی ہے ۔ بھارت نے ہمیشہ اس مسئلے کو پسِ پشت ڈالنے کی روش اپنائے رکھی ہے اور اس مسئلے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے مگر نہ اُسے پہلے کامیابی ملی ہے اور نہ ہی آئندہ مل سکتی ہے ۔ پاکستانی قوم کی کشمیریوں کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے اور وہ لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں اور اس عظیم جدوجہد کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گی۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ شہ رگ کے بغیر زندہ رہنا کسی طور ممکن نہیں جبکہ گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیری اور پاکستانی قوم نے اس عزم کو اپنایا ہوا ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ بھارت ریفرنڈم سے ڈرتاہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس دن ریفرنڈم ہوا‘ کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل کر پاکستان کی آغوش میں چلا جائے گا ، اسی لیے وہ کشمیر کی مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے کے مذموم منصوبے پر کارفرما ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ کشمیریوں نے غلامی قبول نہ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے‘ ایک دن یہی عزم کشمیریوں کی جیت اورتاریخ ساز فتح میں تبدیل ہو جائے گا۔