پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے بالآخر 26 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اگلے ماہ ہونے والا سینیٹ کا الیکشن مشترکہ پلیٹ فارم سے لڑنے کا فیصلہ کر کے بظاہر اپنی جدوجہد کا اہم مرحلہ سر کر لیا ہے۔ اس پیش دستی کو ہم ایک لحاظ سے مولانا فضل الرحمن کی جزوی کامیابی سے تعبیر کر سکتے ہیں، جنہوں نے ڈھائی سالوں پہ محیط اس پیچیدہ کشمکش کے دوران نہایت مہارت کے ساتھ اِن دونوں بڑی جماعتوں کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں لانگ مارچ کی منزل تک پہنچا دیا، جو تمام تر تحفظات کے باوجود ذہنی طور پہ 2018ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرکے حالات کے دھارے کے رخ پر بہنے کو تیار ہو چکی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کے سوا ملک کی پوری سیاسی قیادت طوعاً وکرہاً جولائی 2018ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم کر کے کسی نہ کسی طور حکومت سے تعاون کا کڑوا گھونٹ پینا قبول کر چکی تھی لیکن یہ مولانا ہی تھے جنہوں نے روزِ اول ہی سے انتخابی نتائج مسترد کر کے حکومت مخالف تحریک برپا کرنے کا تہیہ کیا تھا۔ وہ اپنے پہلے لانگ مارچ کے دوران اگرچہ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کی عملی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے لیکن قومی قیادت کا ہاتھ جھٹک دینے کے بجائے انہوں نے استقلال کے ساتھ دونوں بڑی جماعتوں کو انگیج رکھا اور بالآخر انہیں سویلین بالادستی کے لئے شروع کی گئی سیاسی مزاحمت کی وادیٔ پُرخار تک لانے میں کامیابی پا ہی لی۔ موجودہ سیاسی بندوبست کی سب سے بڑی بینی فشری ہونے کے ناتے پیپلز پارٹی حالات کی موجودہ ترتیب سے پوری طرح ہم آہنگ تھی جبکہ نواز لیگ اپنی قدرتی ساخت کے اعتبار سے محض خاموش مزاحمت پہ اکتفا کو کافی سمجھتی تھی۔ میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سمیت پورے شریف خاندان نے اگرچہ نہایت ثابت قدمی کے ساتھ مقدمات کا سامنا کیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ قومی سیاست میں وہ کوئی بڑا مد و جزر پیدا نہ کر سکے۔ صف اول کی لیگی قیادت نے خوف و ترغیب کے حربوں کے باوجود پارٹی سے سیاسی وابستگی کا رشتہ کمزور نہیں ہونے دیا لیکن وہ بھی اپنے کارکنوں کو سڑکوں پہ لا کر کوئی پاپولر تحریک اٹھانے کا ماحول نہ بنا سکی۔ اس کی وجہ تو لیگی کارکنوں کی ایسی فعال تحریکی سرگرمیوں کے تاریخی شعور سے ناواقفیت تھی، جس سے کسی اعلیٰ ترین مقصد کی خاطر قید و بند کی سختیوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ دوسرا، اقتدار کے ساتھ طویل وابستگی رکھنے کی وجہ سے وہ مزاحمت کے بجائے سیاسی سودے بازیوں کو محفوظ راہِ عمل سمجھتی تھی۔ بلاشبہ سیاست میں جن گروہوں کی نظریاتی اساس موجود نہیں ہوتی، مشکلات میں وہ اپنی اخلاقی پوزیشن کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتے، اس لئے اقتدار چھن جانے کے باعث خود کو کمزور محسوس کرنے والے لوگوں کو سمجھوتوں میں عار محسوس نہیں ہوتی لیکن بعض جماعتوں کے نظام میں کارکنوں کو زندگی کے بلند ترین مقاصد کیلئے تیار کیا جاتا ہے، اس لئے وہ بامقصد جدوجہد کو حصولِ منزل پر بھی ترجیح دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔
اسی جدوجہد کے دوران حالات کے بے رحم جھونکوں نے شاید اس رومانوی تحریک کو اپنے اعلانیہ مقاصد سے ہٹا دیا یا پھر پی ڈی ایم کی لیڈرشپ، اُس شاعر کی مانند‘ راہِ منزل گنوا بیٹھی جو صحیح راستے پر چلنے کے وہم میں بھٹک جاتا ہے۔ فی الوقت پی ڈی ایم کی قیادت کا اصل مخمصہ یہی ہے کہ وہ آئین کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کے حصول کی جدوجہد میں تسلسل قائم نہیں رکھ سکی۔ خاص طور پر نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے جس شدّومدّ کے ساتھ ووٹ کو عزت دو کے نعروں کی گونج کے ساتھ سویلین بالادستی قائم کرنے کی جدوجہدکا آغاز کیا تھا اب ان کے جلسوں میں یہ نعرہ پہلی ترجیح نہیں رہا، ان کی پوری توجہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے پہ مرتکز ہو کے رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی تخلیق کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن نے بھی ایک نئے اور وسیع تر سیاسی میثاق کی نوید سنا کے سویلین بالادستی کے قیام کا ناقوس بجایا تھا لیکن اب انہوں نے بھی اس تصور کو پس پشت ڈال کے اپنی ساری توانائیوں کو ایک نسبتاً کمزور حکومت کا تختہ الٹنے میں جھونک دیا۔ ہمارے خیال میں پی ڈی ایم کی بنیادی الجھن یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سیاسی مفادات اس کی سویلین بالادستی کی تحریک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔
موجودہ حالات میں سویلین بالادستی کی تحریکوں میں سر کھپانا نواز لیگ اور جے یو آئی کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کو ایسی مہم جوئی ہرگز سوٹ نہیں کرتی۔ آصف علی زرداری نے جس طور سندھ کا اقتدار سنبھالا اُسی طرح وہ بلاول بھٹو زرداری کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں؛ چنانچہ وہ پی ڈی ایم کی قیادت کو روایتی سیاسی کشمکش کی طرف دھکیلنے میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں جس میں اصل اختیار طاقت کے مراکز کے پاس رہے لیکن سیاسی جماعتوں کو وقفے وقفے سے حکومت کی باریاں ملتی رہیں۔ ہماری حرماں نصیبی دیکھئے کہ 1985ء تک‘ جب پیپلز پارٹی سمیت سندھ کی تمام قوم پرست تنظیمیں آئین کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کے لئے سرگرم عمل تھیں تو اس وقت پنجاب،خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سیاسی طبقات ایسی خواہشات کو کارِ فضول سمجھ کر ٹھکراتے رہے لیکن آج جب بلوچستان،خیبر پختونخوا اور پنجاب کے عوام میں سویلین بالادستی کی تحریکیں مقبولیت پا رہی ہیں تو عین اُس وقت سندھ کی حکمراں جماعت سمیت اکثر قوم پرست جماعتیں طاقت کے مراکز کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی نظر آتی ہیں۔
مقتدر قوتیں چاہتی تھیں کہ ترکی کی طرز پہ انہیں بھی مملکت کے امور چلانے میں آئینی اختیار ملنا چاہیے لیکن پہلے بنگالی لیڈرشپ ان کی راہ میں حائل ہو گئی، پھر ذوالفقار علی بھٹو جب 1973ء کا آئین بنانے لگے تو اس وقت سقوطِ ڈھاکہ کی وجہ سے مقتدرہ ایسی شراکت داری کا اخلاقی جواز نہیں رکھتی تھی؛ چنانچہ اسی مقصد کے حصول کی خاطر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کو ملک میں تیسری بار مارشل لا لگانا پڑا۔ بعد ازاں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وجود پانے والی پارلیمنٹ سے انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کی شق 58/2B کے ذریعے پارلیمنٹ کی تحلیل کے اختیار سمیت 62/63 جیسی شقوں پہ مشتمل ایسا آئینی پیکیج منظورکرا لیا جس کے ذریعے پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنا آسان ہو گیا۔ 1997ء میں نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے تعاون سے جب 58ٹو بی کو ختم کر دیا تو طاقت کا توازن ایک بار پھر پارلیمنٹ کی طرف جھک گیا، پرویز مشرف نے 17ویں آئینی ترمیم کے پیکیج کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو صدراتی نظام سے قریب کر دیا لیکن مشرف کے جانے کے بعد قومی قیادت نے پھر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کا دائرہ کار بڑھانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ فی الحال پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے وابستگی کا ایک مقصد صوبائی خود مختاری کا تحفظ بھی ہے۔ اس وقت عالمی سطح پہ رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کا ماحول تیزی سے بدل رہا ہے۔ کچھ قوتیں اس ملک میں محض ایسی منتخب حکومت قائم رکھنا چاہتی ہیں جو پارلیمنٹ کی بالادستی پہ اصرار کرنے کے بجائے صرف حکومتی شکوے سے لطف اندوز ہونے پہ اکتفا کر لے۔ دوسرے وہ اٹھارہویں ترمیم میں ایسی اصلاحات کی بھی متمنی ہیں جس سے مرکز کے مالی وسائل میں مناسب اضافہ کرنے کے علاوہ وفاق کی طرف سے صوبائی حکومتوں کو دی جانے والی کھربوں کی رقوم بارے اتنا پوچھا جا سکے کہ وہ کہاں اور کیسے خرچ کی گئیں؟ البتہ سندھ حکومت وفاق کا یہ حق تسلیم نہیں کرتی اور یہی مخمصہ پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کی جماعتوں سے منسلک رکھنے کا ایک اہم سبب بنا ہوا ہے۔ مقتدرہ کے پاس بھی پی ڈی ایم کو مینج کرنے کا لیور صرف پیپلز پارٹی ہی ہے؛ چنانچہ وہ سندھ گورنمنٹ کو اس حد تک ناراض کرنے کی متحمل نہیں جس سے گھبرا کے پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اپنا پورا وزن پی ڈی ایم کے پلڑے میں ڈال دے، اس لئے فی الحال وہ اٹھارہویں ترمیم میں اصلاحات کے منصوبے کو التوا میں رکھے ہوئے ہے۔