تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     07-02-2021

ٹیکس بڑھانے کے بجائے ٹیکس ریفارمز کی ضرورت

تحریک انصاف کی حکومت اپنی آئینی مدت کا نصف وقت مکمل کر چکی ہے لیکن جو اہداف الیکشن مہم کے دوران طے کیے گئے تھے وہ شاید دس فیصد بھی مکمل نہیں ہو پائے بلکہ کچھ معاملات میں سفر پیچھے کی جانب ہوا ہے۔ لاکھوں گھر، کروڑوں نوکریوں اور مدینے کی ریاست کا سفر تو ابھی تک شروع بھی نہیں ہو سکا ہے۔ عوام ان معاملوں پر زیادہ سنجیدہ بھی نہیں ہیں کیونکہ انہیں اس وقت بھی ادراک تھا کہ یہ سب کچھ ناممکن سا ہے۔ اگر عوام کسی مسئلے سے دو چار ہیں تو وہ مہنگائی ہے۔ حکومت کا فوکس بجلی اور گیس پر ٹیکس بڑھانے پر ہے لیکن ٹیکس ریفارمز پر کوئی توجہ نہیں ہے۔پاکستانی عوام سوئی سے لے کر جہاز کی خریداری تک ہر چیز پر ٹیکس ادا کرتے ہیں پھر بھی حکومت ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس وقت جن پالیسیز پر حکومت کام کر رہی ہے مستقبل میں ان سے لگ بھگ ٹیکس ہدف حاصل کرنا شاید ممکن ہو لیکن ٹیکس اکٹھا کرنے اور اسے سرکاری خزانے میں بحفاظت جمع کروانے کے لیے ایک شفاف نظام بنانا ہو گا جیسے اس وقت بھارت میں ایک ایسا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔
بھارت میں 14-2013ء کی ٹیکس آمدنی چھ لاکھ کروڑ تھی جو 19-2018ء میں بڑھ کر بارہ لاکھ کروڑ ہوگئی۔ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والوں کی تعداد پونے چار کروڑ سے بڑھ کر سات کروڑ ہو چکی ہے۔ جب میں نے یہ خبر پڑھی تو تحقیق کا فیصلہ کیا کہ ایسا کون سا کام کیا ہے کہ بھارت میں ہدف سے زیادہ اور چند سال میں دو گنا ٹیکس اکٹھا ہو گیاکیونکہ بھارت کے حالت بھی لگ بھگ پاکستان جیسے ہیں جہاں کرپشن کرنا اور ٹیکس چھپانا فرضِ اولین تصور کیا جاتا ہے۔ عوامی سطح پر ذمہ داری کا احساس تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور سرکاری سطح کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ جتنے نئے ٹیکس قوانین بنتے ہیں‘ ان کا اصل فائدہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹس کے ملازمین اور افسران کو ہوتا ہے نہ کہ سرکار کو۔ یوں کہیے کہ سخت قانون لاگو ہونے سے افسران کی چاندی ہو جاتی ہے۔ جتنا سخت قانون ہو گا‘ کمیشن اور کرپشن کا ریٹ بھی اتنا ہی بڑھے گا کیونکہ قوانین تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن ان کو صحیح معنوں میں لاگو کرنے اور مانیٹرنگ کرنے کا نظام بہت کمزور ہے۔ ان حالات میں ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو جانا یقینا اچنبھے کی بات ہے لیکن بھارت میں یہ ہونی ہو کر رہی۔
دراصل بھارتی حکومت نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا سہارا لیا اور ایک قانون بنایا کہ دکانوں، سپر سٹورز حتیٰ کہ یڑھی والوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ پہلے اپنا بینک اکاونٹ کھلوائیں اور نیشنل ٹیکس نمبر حاصل کریں۔ ان دو شرائط کو پورا کیے بغیر کوئی بھی کاروبار شروع نہیں کر سکے گا۔ اس کے بعد یونیفائیڈ پیمنٹ انٹرفیس کے ذریعے تمام دکانوں، سپر سٹورز اور موبائل اکاونٹس کو بینکوں کے ساتھ ملا دیا۔ نظام یہ بنایا گیا کہ جب بھی کوئی فرد خریداری کرے گا تو وہ ڈیجیٹل نظام کے ذریعے ادائیگی کرے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک دکان پر جا کر کچھ خریدنا چاہتے ہیں تو چیزیں پسند کریں اور ان پر لگے ہوئے کیو آر کوڈ کو موبائل کے ذریعے سکین کریں۔ آپ کے سامنے چیز کی قیمت اور ٹیکس کی رقم آ جائے گی۔ آپ موبائل سے اسی وقت ادائیگی کریں‘ چیز کی قیمت دکاندار کے اکائونٹ میں چلی جائے گی اور ٹیکس کی رقم براہِ راست حکومت کے اکائونٹ میں منتقل ہو جائے گی یعنی کہ وِد ہولڈنگ ایجنٹ کا کردار ختم ہو جائے گا۔
یہاں میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ وِد ہولڈنگ ایجنٹ کیا ہوتا ہے اور یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ وِد ہولڈنگ ایجنٹ ایک ایسا کردار ہوتا ہے جسے حکومت اجازت دیتی ہے کہ وہ عوام سے ٹیکس اکٹھا کرے اور سرکار کے خزانے میں جمع کروائے۔ یہ کوئی کمپنی بھی ہو سکتی ہے، دکان بھی اور سٹور بھی۔ ہوتا یوں ہے کہ جب صارفین خریداری کرتے ہیں تو دکاندار ان سے شے کی قیمت کے ساتھ ٹیکس کی رقم بھی وصول کرتے ہیں۔ یہ رقم ان کے پاس سرکار کی امانت ہوتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نظام خراب ہو نا شروع ہوتا ہے۔ وِد ہولڈنگ ایجنٹ نے عوام سے کتنا ٹیکس اکٹھا کیا اور کتنا جمع کروایا‘ اس کی تصدیق اور جانچ پڑتال کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایجنٹ عوام سے تو ٹیکس اکٹھا کر لیتا ہے لیکن یہ تمام حکومت کے خزانے میں جمع نہیں کروایا جاتا۔ عوام کی جیب سے تو ٹیکس نکل گیا لیکن حکومت رو رہی ہوتی ہے کہ ٹیکس اکٹھا نہیں ہو رہا کیونکہ ٹیکس کے پیسے تو ایجنٹ کھا جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ تھوڑے بہت پیسے جمع کروائے جاتے ہیں اور باقی جیب میں ڈال لیے جاتے ہیں۔
معاملے کو مزید سمجھانے کے لیے میں ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پچھلے دنوں ایک بڑے سٹورکی ایک برانچ پر چھاپا مارا گیا تو انکشاف ہوا کہ ان کی ایک دن کی سیل بیس لاکھ روپے ہے یعنی مہینے کی تقریباً چھ کروڑ روپے کی سیل۔ وِد ہولڈنگ ایجنٹ ہونے کی وجہ سے وہ سیل پر 16 فیصد سیلز ٹیکس عوام سے وصول کر رہے تھے۔ جب ٹیکس ریکارڈ چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ چھ کروڑ کی سیل پر صرف بیس ہزار روپے سیلز ٹیکس حکومت کو جمع کروا رہے تھے اوربقیہ رقم جیب میں جا رہی تھی۔ اس انکشاف کے بعد اس سٹور کے تفصیلی آڈٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ جب اکائونٹس کھلنا شروع ہوئے تو ٹیکس چوری کے ثبوتوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ سٹور مالکان نے جب حالات ہاتھ سے نکلتے دیکھے تو افسران سے رابطہ کیا گیا اور مبینہ طور پر دے دلا کر معاملے کو ختم کرنے کی درخواست کی گئی۔گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے افسران نے چھوٹی موٹی بے ضابطگیاں شامل کر کے تھوڑا بہت جرمانہ عائد کیا تا کہ فیس سیونگ ہو جائے۔ معاملہ ختم اور پیسہ ہضم ہوا اور عوام کو لوٹنے کے لیے پھر سے سٹور کھول دیے گئے۔
اس حوالے سے ایک لطیفہ بڑا مشہور ہے کہ حکومت نے ٹیکس بڑھایا تو سیٹھ کا ملازم پریشان ہو کر کہنے لگا کہ پہلے ہی صرف پانچ روپے منافع رکھ کر سامان بیچ رہے ہیں‘ حکومت کا برا ہو کہ اس نے ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ سیٹھ نے کہا: ارے بیوقوف شکر ادا کرو کہ حکومت نے ٹیکس بڑھایا ہے، یہ ٹیکس حکومت کے لیے نہیں بڑھا بلکہ یوں سمجھو کہ حکومت نے ہمارے منافع کی شرح بڑھا دی ہے۔ ملازم نے پوچھا: وہ کیسے؟ سیٹھ کہنے لگا کہ ہم عوام سے یہ ٹیکس وصول کریں گے۔ اس پر ملازم بولا کہ وہ تو سرکار کو چلا جائے گا، ہمیں کیا بچے گا۔ سیٹھ مکار ہنسی کے ساتھ کہنے لگا کہ حکومت کو کیا پتا کہ میں نے کتنا ٹیکس اکٹھا کیا ہے؟ وہ کون سا میرے سرپر کھاتا کھول کر بیٹھی ہے کہ جس میں سیل ریکارڈ رکھا جا رہا ہے؟ اس نے مجھ سے ہی پوچھنا ہے، میرے ہی اکائونٹ ریکارڈ سے پتا چلانا ہے کہ میری سیل کیا ہے‘ میں ٹیکس والوں کے لیے علیحدہ کھاتا بناؤں گا اور اصل کھاتا علیحدہ رکھوں گا، حکومت کے پاس میرے ریکارڈ پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ عوام ٹیکس کی رسید مانگتے ہیں اور نہ ہی اس ٹیکس کو ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کرتے ہیں، اس لیے بے فکر ہو جاؤ اور خوش ہو جائو کہ ٹیکس نہیں بڑھا بلکہ ہمارا منافع بڑھ گیا ہے۔
بھارت کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا جس کا خاتمہ اس نے یونیفائیڈ پیمنٹ انٹرفیس نظام کو متعارف کروا کر کیا ہے۔ گو کہ یہ نظام ابھی پوری طرح نافذ نہیں ہوا ہے لیکن تمام بڑے کاروباری معاملات اس نظام کے تابع ہو چکے ہیں۔ کیش لیس اکانومی کا تصور سب سے پہلے یورپ میں متعارف کروایا گیا تھا۔ عام طور پر ترقی یافتہ ممالک کی پالیسیاں تیسرے درجے کے ملکوں تک پہنچنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔بھارت کا ان پر عمل پیرا ہونا ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان میں یہ نظام کس طرح لاگو کیا جا سکتا ہے اور چین اس حوالے سے ہماری کس طرح مدد کر سکتا ہے‘ اس کا ذکر میں اگلے کالم میں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved