امیر لوگوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔ سکول‘ کالج اور جامعات عام لوگوں سے مختلف۔ رہائشی علاقے مخصوص‘ پُرسکون اور جنگلوں میں بند۔ بیمار ہوں تو علاج معالجہ کیلئے بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں‘ اور ملک میں بھی بہترین معالج دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ ہے ہمارا حکمران طبقہ۔ یہ لوگ اب قافلوں کی صورت شہر بہ شہر گشت کرتے ہیں کہ ان کے دن پھر جائیں‘ مسندِ اقتدار پر دوبارہ قابض ہو سکیں‘ مگر ان میں سے بہت سے موجودہ حکومت میں بھی مناصب سنبھالے ہوئے ہیں۔ جب حکمرانوں کی بات کرتے ہیں تو اس تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں میں فرق صرف کپتان کا ہے۔ ان کو اور کچھ دوسرے گنے چنے سرپھروں کو تحریک سے نکال دیں تو باقی سب وہی ہیں جو حزبِ اختلاف کی گیارہ جماعتوں کی صفوں میں ہم دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کپتان کا فلسفۂ سیاست بہت سادہ اور کافی حد تک قدامت پسندانہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر مرکزی قیادت‘ خصوصاً سربراہِ حکومت دیانتدار‘ مخلص اور سنجیدہ ہو تو وہ معاشرے اور ریاست کے اداروں کو بدل سکتا ہے۔ وہ مہاتیر محمد اور رجب طیب اردوان کی مثالیں سینکڑوں بار ہمیں سنا چکے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ وژن درست ہو‘ سمت متعین ہو جائے‘ تو راستے کے سب بھاری پتھر خزاں کے پتوں کی طرح طاقت کی ہوا کی توانائی سے اڑ جاتے ہیں۔ مثالیں بالکل صحیح اور حقیقی ہیں‘ کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں اکیلے رہنمائوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ ابراہام لنکن بھی یکسو تھے‘ غلامی کے بھاری پتھر کو توڑنا چاہتے تھے۔ انہیں کوئی پروا نہ تھی کہ بعد میں کیا ہو گا۔ ظلم اور ناانصافی کے ساتھ سمجھوتے کی ان کے نظریۂ حیات میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ سیاست کے میدان میں وہ اترے ہی اس مقصد سے تھے۔ یہ نہیں کہ انیسویں صدی کے دوران امریکہ کی سیاسی اور سماجی زمین اتنی بڑی تبدیلی کیلئے تیار نہ تھی۔ اس کو تبدیل کرنے کا بیڑا خود اٹھایا۔ سول وار ہوئی‘ خوفناک داخلی جنگ‘ پچاس لاکھ امریکی مارے گئے۔ کسی بھی داخلی جنگ میں اتنا جانی نقصان ایک سو ساٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی ایک ریکارڈ ہے۔ الزام تو لگتے رہے کہ سیاہ فام غلاموں کی آزادی کیلئے اتنے لوگ مروا دیئے‘ مگر یہ صرف عظیم لوگ ہی ہوتے ہیں‘ جو اپنے اصولوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ کامیابی یہ نہیں کہ آپ نے عوام اور ملک کو لوٹ کر کتنے محل‘ کتنے کارخانے اور کتنے ہزار ایکڑ زمین خرید لی ہے۔ یہ تو ہر چور‘ ڈاکو اور ڈرگ مافیا دنیا کے کونے کونے میں کرتا ہے۔ اصل کامیابی‘ سیاست ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ‘ اعلیٰ انسانی اقدار اور اصولوں سے ہم آہنگ زندگی گزارنا ہے۔ اسے آپ فطرت کے قریب رہنے کا سلیقہ‘ توفیق اور فیض بھی کہہ سکتے ہیں۔
کئی اور مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘ جو عمران خان صاحب کے سیاسی رجحان کی نشاندہی کرتی ہیں۔ لی کوان نے سنگاپور کو مچھیروں کی بستی سے جدید شہری ریاست میں تبدیل کردیا۔ ان کے نزدیک مغربی جمہوریت ایشیائی ذہن اور سماج کیلئے موزوں نہ تھی۔ آمریت اور شخصی حکمرانی اور سختی سے‘ جو اپنے ملک کو سنوارنے کے لئے ضروری خیال کیا‘ کر دکھایا۔ ان کی سخت گیری کا میں بالکل قائل نہیں‘ اور نہ ہی آمریت کا‘ مگر ان کی مثال صرف ایک ایسے سیاسی اور حکومتی رہنما کے طور پر پیش کرنا مقصود ہے‘ جس نے ایک راہ متعین کر لی اور بغیر آنکھ جھپکائے اس پر گامزن رہا‘ کبھی مخالفین اور ناقدین کو خاطر میں نہ لایا۔ چین کی حیران کن ترقی بھی ہمارے سامنے ہے مگر ان تمام مثالوں میں ایک قدر مشترک ہے‘ وہ ہے شخصی حکمرانی اور یک جماعتی نظام؛ تاہم وہ جماعت شخصی حکمرانی کا فقط سیاسی فرنٹ تھا۔ ترقی اور خوشحالی کیلئے دو‘ صرف دو‘ اس سے زیادہ نہیں‘ حالتوں کا قائم کرنا ضروری ہے۔ اول‘ قانون کی حکمرانی اور دوم‘ سیاسی استحکام۔ عمران خان اور پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم تقلید تو مغربی جمہوریت کی کرتے ہیں‘ مگر ویسے ہم بن نہیں سکتے۔ ہماری سماجی ساخت ہی مختلف ہے۔ عوام کی بات چھوڑیں‘ ان کی حکمرانوں کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟ حکمرانوں کا مزاج جمہوری نہیں‘ پرلے درجے کا جاگیردارانہ ہے‘ دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ جائز اور جماعتوں پر چند خاندانوں کا قبضہ۔ وہ کیسے بھلا قانون کی حکمرانی کو کوئی مضبوط اساس فراہم کر سکتے تھے۔ ان کا تو مقصد ہی لوٹ کھسوٹ ہے‘ اسی لئے انہوں نے انصاف و قانون کے اداروں کو بدحال کرکے رکھ دیا۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ ان کے اشارۂ ابرو پر سب کچھ ان کے حق میں ہو جاتا ہے۔ یہ ہم ہیں جو دفتروں کے چکر لگاتے اور حکمرانوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں‘ انصاف کی امید میں زندگیاں برباد کر ڈالتے ہیں۔
دوسری شرط سیاسی استحکام ہے۔ اس کیلئے آمریت کی ضرورت نہیں‘ مگر پھر جمہوریت میں قانون کی حکمرانی نہ ہو تو فساد پھیلانے والوں کو کون لگام ڈال سکتا ہے۔ صبح شام ہزاروں زبانیں چلتی ہیں‘ ان میں ہر نوع کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور سب کا مقصد ایک بہتر پاکستان بنانا ہے۔ چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا بلکہ نصف صدی‘ اس شوروغل میں‘ نہ رہبر‘ نہ راستہ اور نہ ہی منزل کا کوئی نشان‘ بس ہر طاقتور اپنے محدود مفادات‘ جن کا تعلق اقتدار‘ طاقت اور مالداری سے ہے‘ کے حصول میں ہمہ تن مصروف نظر آتا ہے۔ جمہوریت‘ اصول‘ استحکام اور معاشرتی ترقی‘ وہ سمجھتے ہیں‘ یہاں دیوانوں کے خواب ہیں‘ بلکہ سب کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ کس کام میں پڑے ہیں‘ اپنا کام نکالو‘ مال بنائو‘ آگے بڑھو‘ اور پھر کسی کونے میں بیٹھ کر عیش کرو۔ یہ تو جناب افراتفری ہے‘ انتشار ہے‘ حقیقی معنوں میں فساد‘ فساد فی الارض‘ کہ یہ سب کچھ ظلم کی علامات ہیں۔ کپتان صحیح کہتا ہے کہ یہاں ہر طاقتور‘ ظالم اور وہ جو مخصوص خطابات کچھ لوگوں کو عنایت کرتے ہیں‘ مظلوم بنے پھرتے ہیں۔ ہم تو کمزور ہیں‘ کپتان کے سہارے صرف اشارہ ہی کر سکتے ہیں۔
خان صاحب! آپ اب اقتدار میں ہیں‘ جو جدوجہد کی وہ رنگ لائی‘ آپ کی پارٹی کو دوسری بار خیبر پختونخوا میں کامیابی ملی‘ اس کے بعد وہاں کی کارکردگی کا پنجاب‘ اور سندھ کی شہری سیاست پر بھی رنگ چڑھا‘ امیدیں بڑھیں۔ امیدیں بڑھنا ہمارے جیسے ملکوں میں بحران بھی پیدا کر سکتا ہے کہ وسائل محدود ہوں اور ساختی مسائل کا انبار ہو تو آپ کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔ اس لئے کچھ شعبوں کا تعین کرکے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں کپتان کے دو پروگراموں کی میں زبردست تائید کرتا ہوں‘ صحت اور احساس پروگرام‘ اور ہاں درختوں والی بات کو آپ معمولی خیال نہ کریں۔ میرے نزدیک درختوں اور جنگلات کی اہمیت ایسے ہے جیسے ہمارے پھیپھڑے‘ اور پھر روزگار‘ ماحولیات اور موسموں میں ہمواری کا دارومدار جنگلات پر ہوتا ہے۔ یہ طویل المدت منصوبہ ہے‘ اثرات دس سال کے بعد سامنے آئیں گے۔ یہ پڑھ کر دل خوش ہواکہ صحت کی سہولت سے خیبر پختونخوا کی ساری آبادی مستفید ہو سکے گی۔ یہ انقلاب سے کم نہیں۔ پانچ سال پہلے تین فیصد سے شروع ہو کر اتنے کم عرصے میں ساری آبادی کو شامل کرنا معمولی بات نہیں۔ اب غریب خاندان دس لاکھ تک کا علاج سرکاری یا پرائیویٹ شفاخانوں میں ہر سال کرا سکتے ہیں۔ اب یہ پروگرام پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ دوسرے‘ احساس پروگرام غریبوں‘ ناداروں کی مالی امداد‘ اور غریب طلبا کیلئے وظائف مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہر غریب طالب علم کو وظیفہ مل سکتا ہے‘ بشرطیکہ ہمارے ٹیکس کا نظام بہتر ہو جائے‘ کرپشن ختم ہو‘ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے‘ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں‘ لیکن وسائل پر طاقتور طبقات نے قبضہ جما رکھا ہے۔ بڑی تبدیلی کا انحصار چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں پہ ہوتا ہے۔ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘ قدم تیز اور حرکت میں توانائی پیدا کرنا ہوگی۔ یقین کریں جمہوریت میں عوام صبر نہیں کرتے۔