تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     08-02-2021

حقیقی ترتیبِ نو کی کوئی امید نہیں!

یو ایس انسٹیٹیوٹ فار پیس کے ایک جائزہ مضمون میں پاکستان میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے لئے جوش کے بغیر پاکستان کے ساتھ تعمیری تعلقات بنانا اصل چیلنج ہو گا۔ اولسن کے مطابق انڈیا، چین اور افغانستان وہ دوسرے عوامل ہیں جو پاک امریکہ تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہوں گے۔
دوسری طرف حقیقت میں یہ معاملہ جغرافیائی سیاست کا حصہ ہے اور زیادہ تر انحصار اس بات پر ہو گا کہ بائیڈن انتظامیہ ان عوامل کو کیسے ڈیل کرتی ہے جن سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ عوامل درج ذیل ہیں:
1) کیا بائیڈن سابق صدر ٹرمپ کی ہند بحرالکاہل پالیسی جاری رکھیں گے؟ اگر اس سوال کا جواب 'ہاں‘ ہے تو جیسے کہ امریکہ چین پر نظر رکھے ہوئے ہے؛ چنانچہ اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ اس پالیسی کے تحت امریکہ اور چین کے تعلقات خراب ہوں گے۔
2) بھارتی حکومت‘ جو مکمل طور پر بنیاد پرست آر ایس ایس اور بی جے پی کے تحت قائم ہوئی اور جس کا مقصد بھارت کو ہندو ریاست بنانا ہے، کے بارے میں کیا بائیڈن انتظامیہ ایک جامع تنقیدی جائزہ پیش کر کے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کرے گی؟
3) کیا بائیڈن انتظامیہ اب بھی پاکستان کو افغانستان کی ہی عینک سے دیکھے گی؟ غالب امکان ہے کہ ہاں، کیونکہ انڈین کرونیکلز کے مطابق بھارت نے پاکستان کے خلاف دوسرے ممالک کے لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھرنے کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے؛ چنانچہ ان حالات میں دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے ہونے کے کچھ خاص امکانات نہیں ہیں۔
4) بھارت میں ہونے والا کسانوں کا احتجاج، اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں سے امریکہ کس حد تک آنکھیں چرائے گا؟ مائیک پومپیو نے گزشتہ سال اکتوبر میں بھارتی جمہوریت کی ایک ایسے موقع پر تعریف کی جب پورے مقبوضہ کشمیر میں ڈیجیٹل اور جسمانی لاک ڈائون تھا۔ پھر اس کے بعد مشترکہ اعلامیہ میں گزشتہ پانچ سالوں میں مقبوضہ کشمیر پر آر ایس ایس کے غنڈوں کے کسی بھی چڑھائی کا ذکر تک نہیں تھا۔ مائیک پومپیو کے جانشین انتونی بلنکن کے یکے بعد دیگرے ٹویٹوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ نئی انتظامیہ پاکستان اور بھارت کو کہاں رکھے گی۔ اس کی مثال ان کے دو ٹویٹس کے ذریعے دی جا سکتی ہے۔ ایک ٹویٹ میں وہ پاکستان کے بارے میں بات کر رہے ہیں:
'وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات کی، ڈینیل پرل کے قتل کے مجرم دہشت گرد احمد عمر سعید شیخ اور دیگر ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بارے میں۔ وزیر خارجہ اور میں نے علاقائی استحکام کی حمایت میں امریکہ پاکستان کے تعاون کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا‘۔
دوسری طرف ان کا ہی ایک ٹویٹ‘ جو انڈیا کے بارے میں ہے‘ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے:
'آج میں نے اپنے اچھے دوست آر جے شنکر سے بات کی‘ ہم نے امریکہ اور بھارت کی ترجیحات پر گفتگو کی، ہم نے بھارت اور امریکی تعلقات کی اہمیت کا اعادہ کیا جن میں ہم نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘۔
اگرچہ یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ والے روس میں حزب اختلاف کے رہنما نوالنی کے ساتھ ہونے والے سلوک پر شور مچا رہے ہیں لیکن انہوں نے ٹی وی چینلز اور تجزیہ کاروں‘ جو مقدمات کے خوف سے پابند رپورٹنگ کر رہے ہیں‘ کے بارے میں شاید ہی کوئی بات کی ہو گی۔ نیو یارک ٹائمز میں سمیر یاسر لکھتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر تجزیہ کار کسی بھی ناگہانی صورت حال سے بچنے کے لئے بہت ہی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ایک مزاح نگار ایک ایسے لطیفے کی وجہ سے جیل میں ہیں جس کو ابھی تک پولیس ثابت نہیں کر پائی ہے۔ سیاست دانوں اور صحافیوں کو ان ٹویٹس کی وجہ سے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے جو ان کے بقول گمراہ کن ہیں۔ یاد رہے کہ روس اپوزیشن لیڈر نوالنی کے معاملے پر ان دنوں خاصی ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے۔ نوالنی کی گرفتاری اور انہیں جیل میں ڈالے جانے کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
اگر بائیڈن انتظامیہ ماضی میں پھنسی رہتی ہے اور وہ بھارت کی کسی بھی کام کی حمایت کرتی ہے اور بلا وجہ پاکستان پر تنقید کرتی ہے تو پھر تعلقات میں بہتری کا کوئی وعدہ نہیں کیا جا سکے گا۔
جب تک امریکہ پاکستان کے ساتھ اس کے برعکس سلوک شروع نہیں کرتا جو صدر اوبامہ نے اپنا رکھا تھا تو وہ اپنا کام افغانستان اور باقی ایشیا میں مشکل بنا دے گا۔ آنکھیں بند کرکے ایک ملک کی مسلسل حمایت اور دوسرے پر تنقید‘ یہ سلسلہ دونوں ملکوں کے لئے بہتر نہیں ہو گا۔
جہاں تک افغانستان میں قیامِ امن کے معاملات کا تعلق ہے تو پاکستان نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ امن عمل کی نہ صرف مکمل حمایت کی بلکہ ہر طرح سے معاونت بھی کی۔ علاوہ ازیں علاقائی قوتیں جیسا کہ چین، ایران، روس اور ترکی بھی طالبان کو ایک حقیقت سمجھتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں صرف پاکستان شامل نہیں تھا۔ اور یہی سبب ہے کہ افغانستان میں جاری تعطل کو توڑنے کے لئے امریکہ کو پاکستان سے یک طرفہ مطالبات کو روکنا ہو گا۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بھارت ہی طالبان کے کردار کو آگے بڑھانے میں واحد رکاوٹ ہے‘ تو کیا امریکہ بھارت کو علاقے کا امن خراب کرنے کی اجازت دے گا؟
اگر پاکستان اور ایشیا کے لئے امریکی پالیسی میں بنیادی عنصر جغرافیائی سیاست ہی رہی تو اس سے مسائل پیدا ہوں گے اور کوئی بھی دو طرفہ تعلق اتنا سخت ہو جائے گا جتنا امریکی مشینری اور تھنک ٹینکس میں ہندوستانی اثر ہے۔
جیسا کہ انڈین کرونیکلز کے انکشافات سے واضح ہے مذکورہ بالا تمام قوتوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر بھر دیا گیا ہے۔ ان جعلی خبروں اور غیر مصدقہ اطلاعات کی مہم پر بھارتی سرمایہ کاری نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
بد قسمتی سے واشنگٹن میں برسر اقتدار آنے والوں کو یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ دوبارہ آباد کاری کی ذمہ داری واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے نہ کہ پاکستان پر۔ جب تک وہ اپنے آپ کو انڈین کرونیکلز کے اثر سے باہر نہیں نکالتے حالات ممکن ہے اسی ڈگر پر قائم رہیں۔
پاکستان اب مزید چین، افغانستان یا بھارت کی عینک سے دیکھا جانا پسند نہیں کرے گا‘ وہ امریکہ یا کسی بھی ملک کے ساتھ براہ راست تعلقات چاہتا ہے۔ کیا بائیڈن انتظامیہ ایسا کر سکے گی؟ اس سوال کا جواب غالباً 'نہیں‘ ہے۔
چینی توجہ کے تحت میں آہستہ آہستہ پاکستان نے اپنی توجہ جغرافیائی سیاست سے تبدیل کر کے جغرافیائی اقتصادیات کی طرف مبذول کر لی ہے اور شاید اسی لئے پاکستان کو پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر ملک واشنگٹن کی دھنوں پر رقص نہیں کر سکتا۔ جیو سٹریٹیجک حقائق تھوڑے سے بدل چکے ہیں۔ پروفیسر سکاٹ لوکس نے سچ کہا کہ نیٹو جیسے کثیر جہتی اتحاد بہت سالوں کے کام کا نتیجہ ہوتے ہیں اور یہ جلدی ختم نہیں ہو سکتے، یہ وہ فالٹ لائنز ہیں جو دو طرفہ تعلقات کو بڑھاتی رہیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved