تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     08-02-2021

کشمیر کا استغاثہ

5 فروری 2021ء کے دن مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری مکمل لاک ڈائون اور کرفیو کو 1سال‘ 5مہینے اور 28 دن مکمل ہوگئے۔ اِسی روز دنیا کی سب سے اہم ریاست سے کشمیر کے مقدمے کو ایک نیا سنگِ میل ملا۔ اسے آپ کشمیر کی آزادی کے سفر میں بڑا لینڈ مارک بھی کہہ سکتے ہیں۔
گزشتہ 8 سالوں سے کشمیر کا مقدمہ وکالت نامہ میں بھی لڑا جارہا ہے۔ ریاستِ جموں و کشمیر کا مقدمہ 26اکتوبر 1947 کے روز شروع ہوا تھا۔ تب‘ جب ہندو ریاست بھارت کے فرنگی سربراہ لارڈ مائونٹ بیٹَن نے سری نگر پر قبضہ کرنے کے لئے بھارت کے فوجی دستے دَر اَندازی کرکے ریاست جموں و کشمیر میں بھجوا دیئے تھے۔ بھارت کی اسی فوجی جارحیت کے نتیجے میں وادیِ جموں و کشمیر میں آزادی کی پہلی تحریک شروع ہوئی‘ جو ابتدائی فیز میں 1949 تک جاری رہی۔ اسی کے نتیجے میں کشمیر کے تنازع پر یو این اوکی سکیورٹی کونسل کا غیر معمولی اجلاس ہوا۔ اسی کے تسلسل میں 21اپریل 1948 کو مسئلہ کشمیر پر پہلی قرارداد منظور کی گئی۔ اسی یو این ریزولوشن کے نتیجے میں دو اہم قدم اٹھائے گئے۔
پہلا قدم یہ تھاکہ 1949 میں ریاست جموں و کشمیر کا وہ وَن تھرڈ حصہ جو ڈوگرا راج اور بھارتی فوج سے لڑ کر کشمیری عوام نے آزاد کروا لیا تھا اور وہ باقی حصہ‘ جس پر ہندو فوج نے کنٹرول قائم کر لیا تھا‘ ان دونوں کے درمیان عارضی حد بندی سمجھ کر ایک بارڈر کی صورت قائم ہوئی جس کو ''سیز فائر لائن‘‘ کا نام دیا گیا۔ دوسرا اہم قدم یہ تجویز کیا گیا کہ انڈیا فوری طور پر اقوام متحدہ کا نامزد کردہ رائے شماری کمشنر تعینات کرے گا جس کی موجودگی اور نگرانی میں ریاست جموں و کشمیر میں غیر جانب دارانہ رائے شماری کروائی جائے گی‘ جس کے نتیجے میں کشمیری عوام اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ آزادانہ الحاق اور اس میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے۔ اسی سال اقوام متحدہ نے ''Plebiscite Commission‘‘ قائم کردیا۔ اس اہم کمیشن میں کولمبیا‘ چیکو سلوواکیہ‘ برما‘ ارجنٹینا اور بیلجیم کے سفیروں کو شامل کیا گیاتھا۔ بھارت نے اس کمیشن پر اعتراض کردیا‘ جس کے بعد اس یو این کمیشن میں نئے ممبرز شامل کر دیئے گئے۔
آئیے آج ہم کشمیر کا مقدمہ ایک نئے انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مقدمۂ کشمیر کا پہلا استغاثہ: 1947 میں کشمیر کی پہلی جنگ آزادی کے نتیجے میں کشمیر کا راجواڑہ ہڑپ کرنے کے لئے بھارت نے انڈین کانسٹیٹیوشن مجریہ سال 1950 میں دو نئے آرٹیکل شامل کئے تھے۔ یہ تھے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35-A۔
مقدمۂ کشمیر کا دوسرا استغاثہ: 1948 میں انڈیا میں ایک فرضی کاغذ اَمرتسر میں تیار ہوا‘ جس میں لکھا گیاکہ مہاراجہ گلاب سنگھ ڈوگرا نے صرف 75 لاکھ انڈین روپے لے کر جموں و کشمیر کی پوری ریاست ایشیا کے سب سے بڑے بدمعاش ملک کے آگے لوٹ سیل میں بیچ ڈالی ہے۔
مقدمۂ کشمیر کا تیسرا استغاثہ: 1948 میں ہی بھارت نے اس فرضی سیل کی رسید کو بنیاد بنا کر یکم جنوری کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا دَر کھٹکھٹایا جس کے ذریعے پنڈِت جواہر لعل نہرو نے‘ جو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم تھے‘ پاکستان کے خلاف یو این میں شکایت درج کروائی۔ اس طرح کی شکایات کے بعد سکیورٹی کونسل میں قرارداد نمبر 47 منظور کرلی گئی جو 1948 کے بعد مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ساری انٹرنیشنل تجاویز اور کوششوں کے لئے سنٹرل ریفرنس کے طور پر آج تک استعمال ہوتی آ رہی ہے۔
مقدمۂ کشمیر کاچوتھا استغاثہ: سال 1950 کے بعد بھارت کی ہندو اسٹیبلشمنٹ نے مرحلہ وار کشمیر پر قبضہ کرنے کا پروگرام بنالیا؛ چنانچہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو دلّی نے‘ بغیر کسی عوامی ووٹ اور الیکشن کے خود ہی نامزد کیا اور پھر سال 1952 میں دلّی کی نامزد کردہ کٹھ پُتلی کشمیری حکومت اور دلّی حکومت کے درمیان دلّی معاہدے پر دستخط کردیئے گئے۔
مقدمۂ کشمیر کا پانچواں استغاثہ: کشمیر کے ڈوگرا راجواڑے کو ہضم کرنے کے لئے‘ جو اَب تک مسلم شناخت کا مینار بن چکا تھا‘ 1997 میں 1939 کے پرانے کشمیری آئین کو ختم کرکے‘ وہاں نیا آئین نافذ کر دیا گیا۔ آئین کے نام پر اِن غیر آئینی اقدامات کو ہم آئین سازی کی دنیا کی زبان میں ''Legislative Fraud On Public At Large‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بھارت کے لئے چونکہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر کے مقدمے پر ڈیڈ لاک تھا‘اس لئے بھارت نے آئینی فراڈ کے منصوبے پر عمل کیا۔
مقدمۂ کشمیر کا چھٹا استغاثہ: 1975 میں ایک مشہور مگرخود پرست‘ کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ کو استعمال کیا گیا۔ ظاہری طور پر شیخ عبداللہ 1947 سے خود مختار کشمیر کی حمایت میں تقریریں کرتے تھے لیکن 1949 میں گاندھی پارک کے جلسے سے جس خود مختار جموں و کشمیر مہم کی وکالت شیخ عبداللہ نے کی‘ اسے انہوں نے 1975 میں اندرا شیخ معاہدے پہ دستخط کرکے اپنے ہاتھوں سے دفنا دیا۔ اس سے پہلے بھی شیخ عبداللہ کی جماعت آل جموں اینڈ کشمیر نیشنل فرنٹ کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو آئینی طور پر بھارت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کا اعلامیہ بھی جاری ہوا‘ لیکن نمائشی خود مختاری کے اس این آر او‘ کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر122 کے ذریعے مسترد کر دیا گیا۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ‘ آر ایس ایس اور سپریم کورٹ آف انڈیا‘ دونوں بری طرح سے بے نقاب ہوئے۔ آر ایس ایس‘ نازی اِزم پر مبنی ہٹلر کی پالیسی کی پیروی کرنے پر جبکہ سپریم کورٹ آف انڈیا اس لئے کہ اس نے 5 اگست 2019 کے اقدام کے خلاف دائر ہونے والی آئینی درخواستوں کو ابھی تک اپنے پائوں کے نیچے دبا رکھا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقدمے میں پچھلے دو سالوں میں دو سب سے بڑے گلوبل ایونٹ ہوئے۔ پہلا‘ اقوامِ متحدہ میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر جبکہ دوسرا ایونٹ امریکہ کی ریاست نیو یارک کی سٹیٹ اسمبلی میں پاس ہونے والی وہ قرارداد ہے‘ جس میں 5 فروری کا دن ''کشمیر امریکن ڈے‘‘ کے طور پر منایا گیا۔ سٹیٹ اسمبلی آف نیو یارک میں کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کے ساتھ یہ قرارداد اکثریتی ووٹ سے پاس کی گئی جس کے بعد اس قرارداد کا آفیشل نوٹیفکیشن نیو یارک کے گورنر مسٹر اینڈریو کیومو کے دستخط سے جاری ہوا۔ اس قرارداد کے تحت نیو یارک کی ریاست وہ اوّلین امریکی ریاست ہے‘ جس نے کشمیر امریکن ڈے کو منا کر ساری دنیا کے لئے ایک متحدہ پیغام بھیجا۔ نیو یارک سٹیٹ اسمبلی کی قرارداد کا پیغام یہ ہے کہ ہم متحد ہو کر دنیا کے سامنے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں‘ جن پر ایسے بہیمانہ مظالم ہو رہے ہیں ‘جن کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
قیام پاکستان سے پہلے آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد کا آغاز 13 جولائی 1931کو ڈوگرا راج کے خلاف شروع ہوا۔ اس کی حمایت حضرت علامہ اقبال نے بھی کھل کرکی۔ یہ سری نگر کی سنٹرل جیل کے باہر کشمیری مظاہرین پر ڈوگرا پولیس کی اَندھا دُھند فائرنگ تھی جس کے نتیجے میں 17 بے گناہ کشمیری شہید ہوئے۔ کشمیری عوام نے دَر حقیقت تحریکِ پاکستان میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔
میرے کشمیر‘ اے وادیٔ محتشم
تجھ پہ جب سے پڑے غاصبوں کے قدم
تیری تاریخ قصہ جور و ستم

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved