تحریر : اقتدار جاوید تاریخ اشاعت     08-02-2021

افغانستان

وہاں تین نسلیں موجود تھیں‘ دادی‘ باپ اور بیٹی۔یہ تینوں افغان تھے اور افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے جرمنی منتقل ہو کر وہاں کی شہریت حاصل کر چکے تھے ۔ اب وہ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے ۔ ان کے ساتھ ایک چوبیس سالہ ہنس مکھ نوجوان بھی تھا جو کوزیما کا منگیتر تھا۔کوزیما ایک خوش شکل اور دراز قد لڑکی تھی۔ اس کا رنگ قندھار کے سیبوں کی طرح سرخ تھا جو ہمایوں کے مقبرے کے چبوترے پر پڑتی دھوپ میں اور بھی چمک رہا تھا۔وہ قندھار کے ضلع ارغنداب کی رہنے والی تھی اور اس کی دادی ایک ساتھ والے گاؤں سبزی میں پلی بڑھی تھی۔ یہ خاندان ہمایوں کے مقبرے کے گمنام مکینوں کی طرح بدحال رہا تھا۔ہمایوں کی قبر کے احاطے میں اندھیرا‘ دبیز خاموشی اور فرش کی ناگفتہ بہ حالت سیاح کو وہاں زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیتی تھی سو اسی لیے وہ چبوترے کی سیڑھیوں پر آ بیٹھے تھے ۔یہ تین نسلیں دادی باپ اور کوزیما 1989ء میں افغانستان سے کسمپرسی کی حالت میں کوئٹہ آگئے‘ تب کوزیما ایک سال کی تھی۔ وہاں باپ نے کئی سال قیام کیا اور آخرکار کسی طرح اپنی ماں اور بیٹی کے ساتھ یہ زمین ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا اور ایک پرسکون اور ترقی یافتہ ملک میں آباد ہو گیا۔ زندگی رواں دواں ہو گئی اور اب وہ سارے پہلی دفعہ جرمنی سے چند ہفتے گزارنے کے لیے دہلی آئے ہوئے تھے ۔ وہ پورا خاندان وہاں سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس ہمایوں کی کہانی سننا چاہتا تھا جو شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر افغانستان نکل گیا تھا جہاں اس کا ایک بھائی ایک علاقے کا حاکم تھا۔ہمایوں کے باپ نے لمبی لڑائیوں کے بعد ازبکستان سے آ کر پہلے دلی کو فتح کیا اور پھر آگرہ کو اپنا مسکن بنایا تھا۔شاید وہ یہ اس بادشاہ کی کہانی سن کر خوش ہونا چاہتے ہوں کہ اس کو بھی یہاں سے دیس نکالا دیا گیا تھا بالکل اسی طرح جس طرح کوزیما کی دادی اور باپ کو افغانستان سے نکالا گیا تھا۔جب وہ افغانستان سے نکلے تب وہاں نجیب اللہ کی حکمرانی تھی اور ملک میں کشت و خون کا بازار گرم تھا۔ماں بیٹا اور ایک ماہ کی بیٹی کس طرح کوئٹہ پہنچیں وہ خود ایک الگ داستان تھی۔کوزیما کے باپ نے بتایا کہ ہمیں کہا گیا کہ آپ اپنے ملک میں رہیں یا پاکستان چلے جائیں کوئی فکر والی بات نہیں‘لیکن میرے ساتھ میری ماں اور میری بیٹی تھی اگر اپنی فکر نہ بھی کرتا تو ان دونوں کے بارے میں پھیلتے تفکرات سے کیسے بچ پاتا؟ بس یہی میری زندگی تھی ‘یہی میری کل کائنات تھی۔اس کی ماں یہ باتیں سن رہی تھی اور خوش ہو رہی تھیں ‘اس کی خوشی دیدنی تھی۔ماں نے مجھ سے پوچھا کہ تم پاکستانی ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہنے لگی: پاکستانی بہت اچھے لوگ ہیں ‘بہت پیار کرنے والے ‘ دوسروں کا خیال کرنے والے ‘ ہمارے پیدل سفر کے دوران انہوں نے رات کو سونے کے لیے ہمیں جگہ دی‘ کھانا کھلایا اور وہاں سے نکلتے ہوئے ہمیں ساتھ لے جانے کے لیے رنگین رومالوں میں روٹیاں باندھ کر دیں۔تب یہ کوزیما ایک سال کی تھی‘مجھے پاکستانی کبھی نہیں بھولیں گے ۔ کوزیما کو وہ باتیں یاد نہیں تھیں لیکن اسے یہ یاد تھا کہ دادی نے بچپن میں اسے بتایا تھا کہ نور حکمال جنوب سے آیا تھا ‘وہ طالبان کا کمانڈر تھا جس نے نجیب اللہ اور اس کے بھائی شاہ پور احمدزی کو مار دیا تھا۔ تب کوزیما نے کہا کہ اُس وقت میری عمر چھ سال تھی‘ اب میں اکیس برس کی ہوں۔
میں نے اپنے پروگرام کے تحت سیدھا خواجہ نظام الدین اولیأ کے دربار حاضر ہونا تھا۔ چونکہ ہمایوں کا مقبرہ مقررہ اوقات کے تحت کھلتا ہے‘ سوچا پہلے مقبرے سے ہو لوں کہ درگاہ تو رات دیر تک زائرین اور عاشقان سے بھری رہتی ہے ۔ وہاں ہمایوں کے مقبرے میں داخل ہوا اور عیسٰی نیازی کے مقبرے پر رکا تو دیکھا کہ سامنے چبوترے پر یہ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میرے گلے میں مندوب کا کارڈ دیکھ کر کوزیما کا باپ پرتپاک انداز میں بانہیں پھیلاتا ہوا میری جانب بڑھا اور پوچھا: پاکستانی؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ سارا کنبہ جیسے کِھل اُٹھا۔ تینوں میرے آس پاس ایسی اپنایت سے جمع ہو گے کہ مجھے وہاں کافی دیر ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اپنی اپنی طویل کہانی سنائی ‘مگر اس کا لب ِلباب یہی تھا کہ پاکستانی بہت پیار کرنے والے لوگ ہیں۔یہ تین نسلیں اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائے پھر رہی تھیں ۔ کوئی ایسا درد تھا جس کا وہ اظہار کرنا چاہتے تھے مگر الفاظ ان کی دسترس سے جیسے دور ہوتے جا رہے تھے ۔ ماں اور بیٹا دونوں خاموش ہو گئے مگر کوزیما اور اس کا منگیتر اپنی دنیا میں مگن تھے ۔ یہ دونوں کسی اور دنیا میں پھر رہے تھے ۔ پہاڑی راستوں پر بندوقوں سے نکلنے والی گولیوں کی آوازوں میں‘ بموں کے دھماکوں میں اور شاید لاشوں کے انبار کے مناظر میں گم تھے ۔ ایک دوسرے سے جیسے ایک اُنس کا رشتہ قائم ہوتا جا رہا تھا۔میں نے اور کوزیما کے باپ نے ایک دوسرے کی ای میل آئی ڈیز کا تبادلہ کیا مگر اس وقت سوچا کس نے کیا ایک دوسرے سے رابطہ رکھنا ہے ‘بات آئی گئی ہو گئی۔ ہم بھارت سے ایک دو دن بعد واپس آ گئے ۔ دفتر میں ایک دن ای میل موصول ہوئی جس میں کوزیما کے باپ کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے پر بنائی تصویریں منسلک تھیں۔ بس اس کے بعد ہم دونوں کا ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ ہے۔ کل بھی ہم نے ایک دوسرے سے مکالمہ کیا‘ وہ مجھے افغانستان کے حالات بتاتا ہے اور آزردہ رہتا ہے ‘ابھی اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ دوحہ میں مذکرات ہوئے ہیں کہ اس ملک میں امریکی فوجوں کا جلد از جلد انخلا ممکن ہو۔
میں نے اسے بتایا کہ ابھی نومبر میں سوئٹزرلینڈ میں بڑی بڑی طاقتیں اکٹھی ہوئی تھیں تا کہ افغانستان کو چار ارب ڈالر کی امداد دی جائے جو امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد معاشرے کو مستحکم اور حکومت سازی کے معاملات کے لیے بہت معاون ہو گی۔تب اس نے پوچھا چار ارب ڈالر؟ اور اس قوم کو مارنے پر مامور فوج پر اب تک کتنے ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں؟تب میں نے کہا :اب تو دوحہ میں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں ۔وہ بولا: پہلے دس بارہ برس روس کی فوجوں کے انخلا پر مذاکرات ہوتے رہے ۔اب جوبائیڈن کے دور میں معطل بھی ہو گئے ہیں۔یہ نہیں کہ جوبائیڈن‘ ٹرمپ یا اس سے پہلے صدور عام مخلوق کی بپتا سے بے خبر ہوں۔ جانتے ہو اس دوران ہماری پانچ نسلیں موت کے گھاٹ اُتر چکیں ‘کوئی ایسا گھر ‘کوئی ایسا کنبہ نہیں جس میں ایک دو انسانی جانیں بیدردی سے نہ ضائع ہوئی ہوں۔میں نے کوزیما کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا: وہ لگسمبرگ میں ہوتی ہے اور دو بچوں کی ماں ہے ۔چند ماہ قبل وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک ماہ رہ کر گئی ہے مگر وہ بہت محتاط ہو گئی ہے‘ اپنے پیارے افغانستان کی بات کریں تو اُسے چپ چپ سی لگ جاتی ہے۔جب بھی افغانستان کی بات ہوتی ہے وہ بچوں کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے ۔ اور آپ کی امی‘ میں نے پوچھا۔ وہ اپنے ملک کو یاد کرتے کرتے انتقال کر گئیں۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ پاکستانیوں سے بہت پیار کرتی تھیں‘ مجھے یاد ہے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی لوگ بہت اچھے ہیں ۔آج اگر میری ماں زندہ ہوتیں تو میں انہیں کیسے بتاتا کہ خود اس ملک کے لوگوں نے صرف ان کے علاقے قندھار نہیں خود ان کے شہر ارغنداب کے نواحی گاؤں سبزی میں تیرہ افراد کو ہلاک کر دیا ہے ۔ یہ سارے ایک ہی خاندان کے لوگ تھے۔ ممکن ہے اس میں بھی میری ماں کا کوئی نزدیکی یا دور کا رشتہ دار بھی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سارے بدنصیب ان کے خاندان ہی کے لوگ ہوں‘ میری ماں جو سبزی کی تھیں۔آج اگر ہم وہاں ہوتے تو ہماری پانچویں نسل نے ہلاک ہونے کے لیے جنم لے لیا ہونا تھا۔افغانستان کی مقتول فرشتہ کوہستانی کوزیما کی ہم عمر تھی‘ اس نے سچ کہا تھا کہ اپنے کفن کا ماپ اپنے درزی کو بتا دو تا کہ آپ کا کفن بر وقت تیار ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved