پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے 2018ء کے عام انتخابات سے قبل سو دنوں میں تبدیلی کی بات سوچ سمجھ کر اورخلوصِ نیت سے کی تھی‘ کپتان کاارادہ بھی ٹھیک تھا‘کوشش بھی کی گئی‘ اگر حسبِ توقع نتائج نہ مل سکے تو اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں کیونکہ ابھی انہیں نظامِ حکومت کوبہتر انداز میں چلانے کیلئے تجربہ چاہئے جو سو ایام میں تو ممکن ہی نہیں۔ پھر چھ ماہ کا وقت لیاگیا لیکن اس عرصے میں بھی کیاہوسکتا ہے‘ اسی لئے سبز باغ لگانے‘ دودھ کی نہریں بہانے‘ ایک کروڑ نوکریاں بانٹنے ‘ پچاس لاکھ مفت گھروں کی تقسیم ‘ کرپشن کوجڑ سے اکھاڑنے‘ ہرطرف انصاف کابول بالا کرنے اور وزیراعظم ہائوس اورایوان صدر سمیت تمام اہم عمارتوں میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کیلئے ایک سال کی مہلت لی گئی‘وزیراعظم عمران خان صاحب نے وزرا اور دیگر حکومتی ٹیموں کو کارکردگی دکھانے کیلئے وارننگ دی کہ اب تیسری ڈیڈلائن بھی گزر چکی ہے لیکن عوام سے کیاگیا ایک وعدہ بھی پورا ہونا تو دور کی بات‘ شروع ہی نہ ہوسکا جس پر حکومت کوعوامی ردعمل کاسامنا کرنا پڑ سکتاہے۔وزیراعظم کے ساتھ عوامی ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے وزرا اورارکان ِاسمبلی بھی پریشان ہوئے لیکن اس موقع پر حکومتی مشیروں اورمعاونین خصوصی نے اپنی خدمات پیش کیں اوراپنے قائد کوبتایاکہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان سے پوچھا گیاکہ اگر عوام گھبرا گئے توکیاہوگا؟ مشیروں نے کون سا عوام سے ووٹ لیے تھے‘ انہوں نے نہ تو کسی قسم کے وعدے کئے تھے اورنہ ہی ان کاکوئی منشورتھا‘ وہ تو غیرمنتخب اورغیر سیاسی لوگ ہیں‘ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب اقتدار ختم ہوگا یا سورج غروب ہونے کا وقت آئے گاتوبیرون ملک جانے کیلئے ٹکٹ توپہلے ہی ان کی پاکٹ میں موجود ہے لہٰذا ٹینشن والی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے مشورہ دیاکہ بس وزیر اعظم قوم سے خطاب کریں اوربتائیں کہ گھبرانا نہیں ۔ وہ دن اورآج کادن وزیر اعظم صاحب سمجھ گئے کہ ان کی ٹیم میں یہی غیر سیاسی مشیر اصلی کام والے ہیں اس لئے اب انہی کی مرضی کے فیصلے ہورہے ہیں اور انہی کی پالیسیاں رائج ہیں۔
اقتدار کے اڑھائی برس اسی گردان میں گزر گئے‘ اس دوران حکومتی ترجمان عوام کو سابق حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں سناتے رہے اور یہی بتاتے رہے کہ موجودہ حکومت کی تمام تر ناکامیوں کے پیچھے سابقہ حکومتوں کی کرپشن اورکارستانیاں ہیں‘ پی ٹی آئی نے تو ایک کروڑ نوکریاں دینا تھیں لیکن کیاکریں ماضی میں ملک کواتنا لوٹا گیاکہ اب نئی ملازمتیں دینے کی بجائے لاکھوں برسرروزگار لوگوں کوگھر بھیجنا پڑ رہاہے‘ اس حکومت نے پچاس لاکھ گھر مفت تقسیم کرنے تھے لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ ویسے بھی جو حالات ہیں ان میں پچاس لاکھ گھر بنانے کا موقع کہاں مل سکتاہے‘ یہاں بھی قصور اپوزیشن کا ہی نکالا گیاہے کہ اگر وہ کسی بات پربھی تنقید نہ کرتے تو پھر حکومت کیلئے اپنی پالیسیوں اورمنشور پر عمل کر نا آسان ہوجاتا۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ماضی کی لوٹ مار کی وجہ سے ہورہی ہے‘ گیس کابحران بھی سابق دور کی بدعنوانیوں کانتیجہ ہے‘ مہنگائی جو کسی طرح قابو میں نہیں آرہی اور تین سالوں میں گرانفروشی کاگراف اوپر ہی اوپر جارہاہے تو اس کی وجہ بھی سابق ادوار کی منی لانڈرنگ ہے‘ بیروزگاری کا سبب بھی ماضی کی حکومتیں ہی ہیں‘ حتیٰ کہ موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے پیچھے بھی ماضی میں ملک پر حکومت کرنے والی سیاسی جماعتوں کاہی ہاتھ بتایا جاتا ہے حالانکہ موجودہ حکومت بھی زیادہ تر انہی پارٹیوں کے سابق ارکان پر مشتمل ہے اوران کی سیاسی تربیت پی ٹی آئی منشور کے برعکس ہوئی ہے۔ اب اگر وہ پارٹی بدل کر موجودہ حکمران جماعت میں آگئے ہیں اور ان میں سے بعض کو کابینہ کاحصہ بنالیا گیا ہے تو یہ صرف نظریۂ ضرورت کے تحت کیاگیاکیونکہ اپنی بیس سالہ سیاسی جدوجہد میں عمران خان صاحب کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ ایک تو انہیں فرشتہ صفت ارکان مل نہیں سکتے اوردوسرا روایتی سیاستدانوں کے بغیر وہ اکثریت حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ خیر جیسا تیسا کرکے اقتدار کے اڑھائی برس توگزر گئے ‘ حکومت کانصف عرصہ بیت جانے اورالٹی گنتی شروع ہونے پر وزیراعظم صاحب کوخیال آیاتو انہوں نے ایک بار پھر وزرا اورمشیروں کو وارننگ دے دی اورکہاکہ اب ہم کوئی بات ماضی کے حکمرانوں پر نہیں ڈال سکتے‘ اب ہمیں ڈیلیور کرناہوگا‘ جو وزرا کارکردگی نہیں دکھا سکتے وہ مستعفی ہوجائیں۔چند اہم وزارتوں کے قلم دان بھی تبدیل ہوئے‘ مگر بات نہ بنی۔ وزیراعظم عمران خان نے دیکھا کہ قوم گھبرا چکی ہے پھر ان غیرعوامی مشیروں نے ثابت کیاکہ ان کے مشوروں پر عمل کرکے قوم کو مزید بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے‘ اس بار انہوں نے وزیراعظم صاحب کومشورہ دیاکہ اب وہ قوم سے کہیں کہ تھوڑا مزید صبر کریں اس وقت تقریباً اقتدار کے تین برس ہونے والے ہیں مزید دو سال رہ گئے ہیں اس طرح قوم تھوڑا سا صبر کر لے گی تو کم ازکم ایک سال مزید گزر جائے گا‘ پھر اس کے بعد دیکھیں گے کہ کیا حالات ہوں گے۔ ویسے بھی آخری سال تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاری میں لگ جاتی ہیں‘ اپوزیشن بھی ایسے موقع پر حکومت کو گھر بھیجنے کی سیاست کے قابل نہیں ر ہے گی جبکہ عوام بھی اگلے الیکشن پر نظریں جمالیں گے‘ تب موقع اورحالات کے مطابق کوئی نئی امید دے دی جائے گی۔ حکومت کے معاونین کا یہ مشورہ پسند کیا گیا اوروزیر اعظم نے قوم کو مزید صبر کرنے کی تلقین کردی‘ اورساتھ ہی اپنے مشیروں اورترجمانوں کو بلا کر ہدایت کی کہ عوام میں اپوزیشن جماعتوں کی کرپشن کے حوالے سے مہم تیز کردیں لیکن اس بار یہ فیصلہ کیاگیاکہ تین برسوں سے ایک جیسے افسانے سنتے سنتے عوام اُکتا چکے ہیں اس لیے کچھ نہ کچھ کام بھی ہونا چاہئے‘ حکومت کی کارکردگی بھی بتائی جائے‘ لیکن پھر ایک مسئلہ پیش آیا کہ موجودہ دور میں نہ تو کوئی ایسا میگا پراجیکٹ شروع کرکے مکمل کیاگیا جسے مثالی بنا کر پیش کیا جاتا اور نہ ہی کوئی ایسا معجزہ رونما ہوا جسے موجودہ حکمران اپنے کھاتے میں ڈال سکتے۔ کورونا وائرس کی آڑ میں بھی جتنا چھپا جاسکتا تھا چھپ لیا اور اس سے جتنا نقصان ہوا تھا اس سے کچھ زیادہ ہی کیش کرایا جاچکاتھا‘ لہٰذا ترجمانوں کوہدایت کی گئی کہ لوگوں کو بتائیں کہ معاشی اعشاریے بہت اچھے مل رہے ہیں‘ معیشت روز بروز ترقی کر رہی ہے‘برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے‘ ملک میں خوشحالی آرہی ہے اور عوام کو بہت جلد اچھی خبریں ملیں گی۔ پھر یہی ہوا‘ وزیراعظم صاحب نے قوم کو مزید صبر کادرس دیا اور ان کے مشیروں اورترجمانوں نے اپوزیشن کی کرپشن کے ساتھ معاشی ترقی کے خواب بھی عوام کو دکھانا شروع کردیے۔مگر ایک عام آدمی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ دو وقت کی روٹی کمانے کی بجائے حکومت کے دعوئوں کی تصدیق کرتا پھرے۔ ایک مزدور کیاجانے کہ معاشی اعشاریے کیا ہوتے ہیں اورکس طرف سے مثبت آرہے ہیں‘ کس کی معیشت بہتر ہورہی ہے اورکون سی برآمدات میں اضافہ ہورہاہے؟
موجودہ حکومت اپنا چوتھا سال تو عوام کو مزید صبر کادرس دیتے گزار لے گی لیکن ایک بار پھر مسئلہ درپیش ہو گا کہ الیکشن سے پہلے اقتدار کے آخری سال عوام کو کیاامید دلائی دیاجائے کہ پی ٹی آئی اپنی مدت آسانی سے پوری کر لے اورعوام مزید پریشان نہ ہوں۔ یقینامعاونین خصوصی اورمشیروں کی فوج ایسے مواقع کیلئے ہی تو ہے‘ لیکن مہنگائی اوربیروزگاری سے گھبرائی ہوئی قوم سے صبر کی توقع بھی ایک حد تک ہی کی جاسکتی ہے اس لئے آئندہ برس وزیراعظم صاحب کوان کے مشیر یہ مشورہ دیں گے کہ اب پاکستانی عوام سے کہیں کہ جہاں گھبراہٹ کے باوجود اتنا صبر کرلیا تو اب ایک سال رہ گیاہے ‘ اب ایک سال اوربرداشت کریں۔ اس طرح حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی اور پھر عام انتخابات کیلئے بھی حکمران جماعت نے تبدیلی کے اپنے ہی نعرے کاتوڑ سوچ رکھاہے کہ ستر برس کی خرابیاں پانچ سال میں ٹھیک نہیں ہوسکتیں اس لئے عوام انہیں ایک موقع اور دیں کیونکہ پہلے پانچ سالوں میں تو صرف انہیں حکومت کرنے کاتجربہ حاصل ہوا ہے اور حقیقی تبدیلی کیلئے ان کادوبارہ اقتدار میں آنا ضروری ہے۔