فرید کی قسمت ہی ایسی تھی۔ گھر میں سوتیلی ماں اور باہر ٹھوکریں ! کبھی جونپور میں قسمت آزماتا کبھی بہار میں !کشاکش کے اسی پُر آشوب دور میں زمانے کی گردش نے اسے بابر کے دربار میں پہنچا دیا! ایک دن دسترخوان بچھا تھا۔ جیسا کہ اس عہد میں بادشاہوں کے ہاں دستور تھا‘ دسترخوان پر بہت لوگ ہوتے‘ درجنوں‘ بیسیوں اور بعض اوقات سینکڑوں!! مہمان بھی‘ عمائدین و امرا بھی اور عام درباری بھی۔ قاب میں گوشت تھا۔ کچھ مؤرخ کہتے ہیں مچھلی تھی ‘ کچھ کی روایت ہے کہ گوسفند یا گائے کا گوشت تھا جو سخت تھا۔فرید نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر خنجر نکالا اور گوشت کے اس بڑے ٹکڑے کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تبدیل کردیا۔ بابر‘ ظاہر ہے اونچی مسند پر تشریف فرما تھا۔ نظریں اس کی عقابی تھیں اور فکر‘ دوررس!اس نے یہ غیر معمولی منظر دیکھا‘ پھر فرید کی شخصیت کا جائزہ لیا ‘ پھر ایک نتیجے پر پہنچا اور اپنے وزیر کو سرگوشی میں حکم دیا کہ اس افغان کی نگرانی کی جائے کہ یہ خطرناک ہے! یہی وہ لمحہ تھا جب فرید نے بھی بابر کو دیکھا اور دو جمع دو چار کی طرح جان گیا کہ یہ سرگوشی اُسی کے بارے میں ہے۔موقع پاتے ہی فرید وہاں سے کھِسکااور بھاگ کھڑا ہوا۔ بابر کو جب اس کی عدم موجودگی کا احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔بابر کا فرید کو خطرناک قرار دینا سو فیصد درست ثابت ہوا۔ یہ فرید ہی تھا جو بعد میں شیر شاہ سوری کے نام سے معروف ہوا۔
آپ کا کیا خیال ہے بابر سے غلطی کہاں ہوئی ؟ ایسی غلطی جو اس کے بہت ہی پیارے بیٹے کو پورے پندرہ سال دھول چٹاتی رہی! غلطی یہ ہوئی کہ بابر نے دو بنیادی حقیقتوں کو نظر انداز کر دیا۔ اول یہ کہ کوئی سرگوشی چھپی نہیں رہتی‘ دوم یہ کہ ہم دوسروں کی صلاحیتوں کوunder estimateکرتے ہیں۔ بابر نے جب فرید کو خنجر سے گوشت کاٹتے دیکھا تو عین اُسی وقت وزیر سے بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ اس نے سمجھا کہ فرید کو کیا معلوم ‘ میں کیا حکم دے رہا ہوں ؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں جو ہماری سمجھ میں نہ آسکے۔ خود آپ کو کئی بار محسوس ہوا ہو گا کہ جب دو افراد بات کر رہے تھے تو صاف معلوم ہو رہا تھا کہ موضوعِ گفتگو آپ تھے۔ انسان کو خدا نے بے پناہ صلاحیتیں عطا کی ہیں اور یہ صلاحیتیں دیتے وقت خدا نے خاندان دیکھا نہ مرتبہ ‘ رنگ دیکھا نہ نسل نہ دولت! جس حقیر ملازم کو اس کا باس کیڑا مکوڑا سمجھتا ہے‘ وہ ڈرائیور جو اس کے سامنے بات ہی نہیں کر سکتا‘ وہ خادم جو اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتا ہے‘ طاقتور مالک کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ اسے بھی قدرت نے دماغ دیا ہے۔ یہ اور بات کہ سسٹم نے یا قسمت نے اسے نوکر بنا دیا۔ اسے معلوم ہے کہ اس کا مالک فراخ دل ہے یا کنجوس‘ نجیب ہے یا بد جنس ‘ دیانت دار ہے یا خائن۔اسے اس کے خاندانی پس منظر کا بھی پتا ہے‘ اس کی ذہانت کا بھی اندازہ ہے اور اس کی کارکردگی سے بھی واقف ہے۔ یہ اور بات کہ وہ پاسِ ادب سے یا ڈر کے مارے بولتا نہیں۔اسے بیگم صاحبہ کے خاندانی پس منظر کا بھی اندازہ ہے۔ فردوسی نے عہد شکن بادشاہ کے بارے میں کہا تھا:
اگر شاہ را شاہ بودی پدر / بہ سر برنہادی مرا تاج زر
اگر مادر شاہ بانو بدی/ مرا سیم و زر تا بہ زانو بدی
بادشاہ اگر بادشاہ کی اولاد ہوتا تو مجھے سونے کا تاج پہناتا۔ بادشاہ کی ماں خاندانی عورت ہوتی تو میں گھٹنوں تک سونے چاندی میں ہوتا۔
آپ نے وہ حکایت سنی ہو گی‘ ایک زیرک ملاز م کو بادشاہ نے اپنے پسندیدہ گھوڑے کی دیکھ بھال پر مقرر کیا۔ کچھ دن بعد گھوڑے کے بارے میں رائے لی تو اس نے کہا کہ حضور گھوڑا نسلی نہیں ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کیسے معلوم ہوا ‘ اس نے جواب دیا کہ گھوڑے سر اٹھا کر گھاس چباتے ہیں مگر یہ سر جھکا کر۔ بادشاہ نے پتا کرایا تو معلوم ہوا گھوڑا گائے کا دودھ پی کر بڑا ہوا تھا۔بادشاہ نے ملازم کو ترقی دے کر ملکہ کا سٹاف افسر مقرر کر دیا۔کچھ دن بعد ملکہ کے بارے میں رائے لی تو اس نے بتایا کہ ملکہ شہزادی نہیں ہے۔ پوچھا کیسے معلوم ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ کسی سے خوش ہو تو انعام میں پرانے ملبوسات عطا کرتی ہے۔ شہزادیاں ایسا نہیں کرتیں۔بادشاہ نے اپنی ساس سے پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ ہم بادشاہ کو زبان دے چکے تھے مگر ہماری بیٹی مر گئی۔ ہم نے رشتے کی لالچ میں ایک آیا کی بیٹی گود میں لے لی۔ وہی اب ملکہ ہے۔ بادشاہ مزید خوش ہوا اور اسے اپنا خادمِ خاص مقرر کر دیا۔ کچھ دن بعد اپنے بارے میں بھی رائے مانگی۔ خادمِ خاص نے کہا کہ حضور ! آپ بھی شہزادے نہیں ہیں۔پوچھا کیسے ؟ اس نے جواب دیا کہ خاندانی بادشاہ خوش ہوتے ہیں تو ہیرے جواہرات انعام میں دیتے ہیں۔ آپ جس سے خوش ہوتے ہیں اس کے گھر بھیڑ بکریاں بھیجتے ہیں۔ بادشاہ نے اپنی ماں سے پوچھا تو اس نے راز کھولا کہ ہم بے اولاد تھے۔ولی عہد کی ضرورت تھی۔ مجبوراً ایک بچے کو گود لینا پڑا۔ وہ بچہ چرواہے کا بچہ تھا۔ ضروری نہیں کہ ایسی حکایات حرف بحرف صحیح ہوں مگر ان میں دانش کے اشارے مخفی ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ جنہیں ہم زیر دست سمجھتے ہیں وہ ہماری اصلیت اور ہماری فطرت سے آگاہ ہوتے ہیں۔
ماں باپ کو اپنے تجربے کی بنیاد پر معلوم ہوتا ہے کہ بیٹا یا بیٹی جھوٹ بول رہی ہے‘ مگر کسی مصلحت کی بنا پر خاموش رہتے ہیں۔ بسا اوقات مالک ملازم کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتا ہے مگر ملازم اسے بے خبر یا بے وقوف سمجھتا ہے اور پھر آخر میں نقصان اٹھاتا ہے۔ کہتے تو یہ ہیں کہ دشمن کو حقیر نہ سمجھو مگر عقل مندی اس میں ہے کہ کسی کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے۔
اقتصادیات پڑھاتے وقت اساتذہ بتاتے تھے کہ جس طرح حمل نہیں چھپ سکتا اسی طرح افراطِ زر بھی چھپا نہیں رہ سکتا؛ تاہم یہ ادھورا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ عشق چھپتا ہے نہ مُشک! ناجائز دولت اور ناجائز تعلقات بھی ظاہر ہو کر رہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سازش جو نیّتِ بد سے کی جائے ‘ فاش ہو کر رہتی ہے...جو کوئی سرگوشی تین آدمیوں میں ہوتی ہے تو وہ چوتھا ہوتا ہے اور جو پانچ میں ہوتی ہے تو وہ چھٹا ہوتا ہے اور خواہ اس سے کم کی سرگوشی ہو یا زیادہ کی مگر وہ ہر جگہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک نظر نہ آنے والا نظام ہے جو ہمارے ارد گرد کارفرما ہے۔سازش‘ بد نیتی ‘ منفی جوڑ توڑ‘ کسی کو نقصان پہچانے کے لیے گٹھ جوڑ‘ یہ سب کچھ ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ یہ صرف کہانیوں میں نہیں ہوتا کہ خزانہ لُوٹنے والے آخر میں ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے راز اُگلنے لگتے ہیں‘ حقیقی زندگی میں بھی یہی ہوتا ہے۔ سیاست دانوں سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ کس طرح ایک دوسرے کو برہنہ کرتے ہیں۔ایک دوسرے کے پول سرِبازار کھولتے ہیں۔ کل کے ساتھی آج ایک دوسرے کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ یہ سلطانی گواہ نہیں ‘ آسمانی گواہ ہوتے ہیں جنہیں قدرت ایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کرتی ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے مل کر سازش کی تھی !