تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-02-2021

سرخیاں، متن، ’ہنزہ کے رات دن‘ اور شکیلہ جبیں

اپوزیشن نے اوپن بیلٹ مخالفت کر کے ثابت کر دیا وہ پیسے کی سیاست ختم کرنا نہیں چاہتی: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کر کے ثابت کر دیا کہ وہ پیسے کی سیاست ختم کرنا نہیں چاہتی‘‘ حالانکہ اوپن بیلٹ سسٹم ان کے لئے زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے صاف پتا چل جائے گا کہ کس نے پیسوں کا حق ادا کیا ہے کس نے نہیں، جبکہ حق ادا کرنے اور نہ کرنے کا فرق اپوزیشن کے لئے بھی مستقل ہونا چاہیے کیونکہ یہاں تو ہر پارٹی علیحدہ علیحدہ یہ کام سرانجام دے رہی ہے جبکہ پیسے لے کر ان کا حق ادا نہ کرنا اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی ثبوت ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نواز شریف مرضی سے آئیں گے، حکومت
میں ان کو لانے کی طاقت نہیں: رانا ثنا
سابق وزیر قانون پنجاب اور نواز لیگ پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اپنی مرضی سے واپس آئیں گے، حکومت میں ان کو لانے کی طاقت نہیں‘‘ اور یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ اُن کی مرضی بھی کبھی واپس آنے کی نہیں ہے کیونکہ انہیں یہاں جو بے پناہ رزق ملا ہے وہ لندن میں اُسی کی حفاظت میں مصروف ہیں اور وہ خود کو میسر اس نعمت کا کفران کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے حالانکہ وہ ہمیشہ سوچ بچار میں مگن رہتے ہیں اور پیٹ بھر جانے کے بعد ان کا دماغ مزید تیز ہو جاتا ہے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان کرائے کے ترجمانوں کا اجلاس
بلائیں اور جھوٹ بولیں: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران خان کرائے کے ترجمانوں کا اجلاس بلائیں اور جھوٹ بولیں‘‘ جبکہ نواز لیگ کے ترجمان کرایہ دار نہیں بلکہ مستقل طور پر تنخواہ دار ہیں اور اس تنگ دستی کے عالم میں بھی انہیں پوری پوری اور وقت پر تنخواہ مل رہی ہے۔ علاوہ ازیں ہماری قیادت جھوٹ بولنے کے لئے ترجمانوں کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ خود ہی اس فن میں اس قدر طاق ہے کہ یہ کام خود کرتی ہے۔ البتہ ترجمان اپنی جگہ پر اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور ان دونوں کے کاموں کا معیارکافی مختلف ہوتا ہے کیونکہ قائدین کا کام ترجمانوں کے کام کے مقابلے میں اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے اور صاف پہچانا بھی جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے معمول کا ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
فضل الرحمن نے اربوں کی جائیدادیں
بنائیں، یوم حساب قریب آ گیا: پرویز خٹک
وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''مولانا فضل الرحمن نے اربوں کی جائیدادیں بنائیں، یوم حساب قریب آ گیا‘‘ اگرچہ وہ کچھ اتنا قریب بھی نہیں ہے کیونکہ کافی عرصہ پہلے جہاں تھا‘ وہیں پر رکا ہوا ہے اور آگے نہیں بڑھ رہا اور ایسا لگتا ہے کہ جلسوں، دھرنوں اور لانگ مارچ کے اعلانات کے باعث وہ بھی سست روی کا شکار ہو گیا ہے؛ تاہم ایک دن سب کا یومِ حساب آنا ہے اور اصل حساب تو دوسرے جہان میں ہونا ہے البتہ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ تیز رفتاری اور سست روی کا شکار ہوتا رہتا ہے اور اکثر حکومت کے لیے سست ہو جاتا ہے اور اپوزیشن کے لیے تیز۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کوئی میرا احتساب نہیں کر سکتا: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''کوئی میرا احتساب نہیں کر سکتا، کیونکہ جب میں احتساب کو تسلیم ہی نہیں کرتا تو میرا احتساب کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اگر میرا احتساب کر بھی لیا گیا تو میں اسے تسلیم ہی نہیں کروں گا تو پھرکیا ہو گا؟ اس لئے اگر احتساب کرنے والوں کو اپنا وقار مطلوب ہے تو امید ہے کہ وہ میرے احتساب کی غلطی نہیں کریں گے ۔آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
ہنزہ کے رات دن
یہ عمران الحق چوہان کی تصنیف ہے جسے بک ہوم لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب محمد طاہر کے نام ہے اس شعر کے ساتھ ؎
مہرِ ترا دلِ حزیں بافتہ بر قماشِ جاں
رشتہ بہ رشتہ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پُو بہ پُو
پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر، مطبوعہ کتابوں کی فہرست اور کتاب کا مختصر تعارف ہے۔ خالد ہمایوں ایڈیٹر ماہنامہ 'قومی ڈائجسٹ‘ کے مطابق: ہنزہ پر اس سے زیادہ خوبصورت اور جامع سفرنامہ اب تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ جبکہ شاعراور کالم نگار علی اصغر عباس کی رائے میں: ہنزہ کے رات دن پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ ہنزہ سے پہلی بار مل رہے ہیں۔ دلچسپ، حیران کن اور معلومات افزا، تصاویر سے اسے مزید دلچسپ بنایا گیا ہے، صفحات 316۔
اور‘ اب آخر میں شکیلہ جبیں کے مجموعہ کلام ''رب کھیڈاں کھیڈ دا‘‘ میں سے یہ نظم:
اَج مکی کالک ساری
چڑھیا چت نوں جنڈری چِھکا
چکھیا پھکا نہ کوئی مِٹھا
رہ گیا سبھناں کولوں نِکا
سڑ سڑ ہویا پکلُو سِکہ
کیہڑا اُنگلاں دے وچ جُوڑے
لکھاں حرف پریت دے گوڑھے
پئی اِک اِک ساہ تے چَٹی
گِھس گِھس ہوئی جنڈری پھٹی
لکُ جان ریکھاں کھٹ لاں کھٹی
گاچی لبھن کھلو گئی ہٹی
پا، پا پانی لاہواں دُھوڑے
لکھاں حرف پریت دے گوڑھے
ہوئی پانی دے وچ گِلی
میری پھٹی ہو گئی سلھی
نئیں اگانہہ پچھانہہ میں ہلی
پوچا دتا گاچی ڈِھلی
نئیں کیتے کم سنجوڑے
لکھاں حرف پریت دے گوڑھے
میری پھٹی کر اناری
پائی حرفاں دی پُھلکاری
اَج مکی کالک ساری
پکلُو سِکّے رَتّ کھلاری
آ گئے ویکھن نڈھے بوڑھے
لکھاں حرف پریت دے گوڑھے
آج کا مقطع
سنپولیے کچھ اور بھی حق دار تھے‘ ظفرؔ
میں اپنے آپ اٹھ کے خزانے سے آ گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved