60 سالہ محنت اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔ آڑی ترچھی لکیروں کی صورت میں شاید ساٹھ کا ہندسہ ہی لکھا ہوا تھا لیکن کچھ اور عبارتیں اس سے بھی واضح لکھی ہوئی تھیں۔ مایوسی اور بے بسی ایسی تحریریں ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے لیے خواندہ ہونے کی شرط بھی نہیں ہوتی۔ اور یہ دونوں تحریریں سجاد احمد ولد ریاض احمد کے چہرے پر لکھی ہوئی نہیں، کھدی ہوئی تھیں۔ ساری عمر محکمہ صحت کی نذر کرنے اور زندگی کے قیمتی ترین 33 سال معمولی درجے کی ملازمت کرنے کے بعد اب وہ مایوسی اور بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ آدمی کسی کم حیثیت گھرانے سے اٹھ کر آئے، تعلیم واجبی سی ہو، اثر رسوخ کچھ نہ ہو، ذہن میں چالاکی اور عیاری کی رمق بھی نہ ہو، طبعاً بھولا ہو اور ساری ملازمت شدید محنت مشقت کرتے، افسرانِ بالا کا حکم مانتے اور دیانت داری کے کتابی اصولوں پر عمل کرتے گزری ہو تو ساٹھ سال کی ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچ کر مایوسی اور بے بسی کی تصویر بننا تو مقدر ہے۔ اس میں بھلا محکمے کے کلرک بابوئوں کا کیا قصور؟
چند ماہ پہلے سجاد احمد کی ریٹائر منٹ ہو چکی ہے۔ تنخواہ ملنی بند ہو چکی ہے اور پنشن ہنوز شروع نہیں ہوئی۔ ریٹائرمنٹ پر جو اکٹھی رقم ملازم کا حق ہوتی ہے، وہ ملنے کی کوئی فوری صورت نظر نہیں آ رہی۔ اور پیٹ اتنا پاپی ہے کہ دو وقت روٹی کے لیے بلبلا اٹھتا ہے۔ بنیادی پے سکیل 1 سے 4اور کچھ اوپر تک کے ملازمین کی تنخواہ ہوتی ہی کتنی ہے کہ وہ پس انداز کر سکیں اور مشکل وقتوں کے لیے بچا سکیں۔ سجاد کے پاس بھی کچھ نہیں تھا۔ تنخواہ ملنی بند ہوئی تو کیا کرتا کہ چولھے کا ایندھن تھی ہی وہ معمولی رقم۔ پنشن کے حصول اور واجبات کی وصولی کے لیے دفتروں کے چکر اور کلرک بابوئوں کی میزوں کے طواف شروع کیے۔ دیواروں سے سر مار کر واپس آنا اورادھر ادھر سے قرض لینا۔ اب یہی اس کی زندگی کا معمول ہے۔ وہ اکٹھی رقم جس کے سنہرے خواب پورے گھرانے نے تیس پینتیس سال دیکھے ہوتے ہیں اور جس کی بنیاد پر سجاد احمد ریٹائرمنٹ کے بعد چھوٹی سی کریانے کی دکان شروع کرنے کا سب کو آسرا دیتا رہا ہے، اس وقت مایوسی اور بے بسی کے بحر قلزم میں ڈوبی ہوئی رقم ہے۔ اور اس طرح کے مسائل کسی ایک کے نہیں، ہزاروں لوگوں کے ہیں۔ سو بات ایک سجاد احمد کی نہیں ہے۔
میرے سامنے گہرے پانیوں میں ڈوبا ہوا سجاد احمد سمجھتا ہے کہ میرے قلم میں بڑی طاقت ہے۔ ایک کالم لکھتے ہی بڑے افسران فوری حکم صادر کر دیتے ہیں، متعلقہ عملہ گھبرا جاتا ہے اور چٹکی بجاتے ضرورت مندوں کے کام ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ سب جی جان سے سمجھتا ہے اس لیے میں نے اسے بھولا کہا تو غلط تو نہیں کہا؟ میں نے کوشش کی کہ پہلے تو اس کی بات سمجھوں کہ مسئلہ ہے کیا؟ ہو سکتا ہے کہ اس کی کوئی غلطی، کوئی گڑبڑ ہو جسے وہ بتا نہ رہا ہو اور جس کی وجہ سے اس کی پنشن اور واجبات رکے ہوئے ہوں۔ وہ بہتر اظہار پر قادر نہیں لیکن اس کی بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور ایک بار پھر مجھے یقین ہو گیا کہ اس ملک میں کمزور شخص کا کوئی حال ہی نہیں، مستقبل تو خیر کیا ہوتا۔ کلرک شاہی (جو اسی عذاب سے خود بھی گزرتی ہے) کو اس سے غرض نہیں، نہ اس نظام کو کہ اس درجے کے ریٹائرڈ ملازم پر ایک ایک دن اور ایک ایک رات کتنی بے رحمی سے دل کاٹ کر گزرتے ہیں۔
27 سالہ کم پڑھا لکھا سجاد احمد جب 7 اکتوبر 1987ء کو بھرتی ہوا تو اس کا شناختی کارڈ بنا ہوا نہیں تھا؛ چنانچہ زبانی شہادت کی بنیاد پر اس کی تاریخ پیدائش کا اندراج 11-10-1960 کیا گیا۔ وہ بنیادی پے سکیل نمبر 1 میں بھرتی ہوا جس کی تنخواہ ان دنوں چند سو روپے ہوا کرتی تھی۔ آپ سب اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس درجے کے سرکاری ملازم کی ڈیوٹی کیسی اور کتنی پُرمشقت ہوتی ہے۔ اس نے دورانِ نوکری سڑکوں، پارکوں اور گھروں میں سپرے کیے۔ کبھی کتا مار مہم، کبھی ملیریا، کبھی خسرہ، کبھی دیگر وبائی بیماریوں کی روک تھام کے لیے نچلے ملازمین کی ٹیموں کے ساتھ کام کرتا رہا۔ ہر وہ ڈیوٹی جو افسران بالا اور محکمے نے اسے سونپی‘ پوری تن دہی سے انجام دیتا رہا اور محنتانے میں معمولی رقم کا حق دار رہا۔ یہ سلسہ چلتا رہا۔ پھر شناختی کارڈ ناگزیر ہونے کے دن آئے، اس نے شناختی کارڈ بنوایا جس پر اس کی تاریخ پیدائش 17-03-1960 درج ہے۔ اس کے شناختی کارڈ کے ساتھ یہ تاریخ بھی اس کی ملازمت کے کاغذات میں درج ہو گئی۔ جو اس کی پہلی مندرجہ تاریخ پیدائش سے تقریباً سات ماہ پہلے کی تھی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ چلچلاتی دھوپ کی دوپہروں اور یخ بستہ صبحوں میں اس کی ڈیوٹیاں جاری رہیں اور پوری محنت اور دیانت سے یہ کام انجام دیتا رہا۔ ڈینگی کے دن آئے تو اسے ٹیموں کے ساتھ مچھر مار سپرے اور چیکنگ کے کاموں پر لگا دیا گیا۔ 21017ء میں 30سالہ ملازمت پوری ہونے پر اس کی ترقی بنیادی پے سکیل 4 میں ہو گئی لیکن اب اس کی ریٹائرمنٹ میں تین سال ہی رہ گئے تھے۔ پھر 16مارچ 2020ء کا دن آیا جب اس کی عمر شناختی کارڈ پر تاریخ پیدائش کے مطابق 60 سال کو پہنچ گئی تھی۔ ذرا اس تاریخ کو غور سے دیکھیے۔یہ مارچ 20ء کا وہ مہینہ ہے جس میں کورونا نے ملک میں پنجے گاڑنے شروع کر دیے تھے۔ اس کا محکمہ کیا، پوری حکومت بوکھلائی ہوئی تھی۔ اگر اس تاریخ پیدائش کو محکمہ درست مانتا تھا تو اس دن سجاد احمد کو گھر بھیج دینا چاہیے تھا کہ آپ کی ملازمت پوری ہو چکی۔ لیکن محکمے نے ایسا نہیں کیا، اس کی وجہ عملے کی قلت تھی یا کلرک کی غلطی؟ کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ہوا یہ کہ سجاد احمد کو شہر کے مضافات میں کورونا کے مریضوں کے لیے بنائے گئے کیمپ کی ڈیوٹی پر بھیج دیا گیا۔ ناکافی لباس، شہر سے طویل فاصلہ اور کورونا مریضوں کا قرب۔ یہ نہایت مشکل ڈیوٹی تھی۔ اپنا پٹرول خرچ کرکے موٹر سائیکل پر روزانہ آنے جانے پر دو سو روپے لگنا معمولی بات تھی۔ پھر کھانے کا اپنا خرچ۔ پھر کورونا کا مستقل ڈر۔ لیکن چوں چرا کی مجال نہیں تھی۔ ملازمت کے اختتام پر یہ مشکل مہینے بھی کسی طرح کاٹ دیے۔ پھر 10 اکتوبر 2020ء کا دن آیا جو پہلی درج کردہ تاریخ پیدائش کے مطابق ملازمت کی عمر پوری کرتا تھا۔ سجاد احمد ریٹائر ہوا ور اپنی پنشن اور واجبات کے انتظار میں گھر بیٹھ گیا۔ اس وقت کسی کلرک بادشاہ نے یہ نکتہ اٹھایا کہ شناختی کارڈ کی عمر کے حساب سے تو ریٹائرمنٹ مارچ کی بنتی تھی اس لیے یہ جو چھ سات مہینے آپ نے تنخواہ لی ہے یہ واپس کریں۔ سجاد احمد نے لاکھ سمجھایا کہ اگر مارچ میں ریٹائرمنٹ بنتی تھی تو محکمہ مجھے ریٹائر کر دیتا، مجھے کیا اعتراض تھا لیکن محکمے نے مجھے ڈیوٹی پر بھیجا، سخت ڈیوٹی لی اور اب یہ کہتا ہے کہ وہ تنخواہ واپس کرو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے لیکن یہ درست بات کلرک بادشاہ کو منظور نہیں۔ اس نے نہ پنشن جاری ہونے دی اور نہ واجبات کی رقم۔ اب سجاد آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ کیسے یہ رقم واپس کرے؟ وہ تو قرض پر اپنا چولھا جلا رہا ہے۔ اور وہ کیوںساری عمر کی مشقت کے بعد اپنی یہ رقم چھوڑ دے جس کی محکمے نے اس سے مکمل ڈیوٹی لی ہے؟ کس وجہ سے؟ غریب کے لیے تو ایک ایک پائی بہت ہے کجا ہزاروں یا لاکھوں کی رقم۔ اگر محکمے نے اسے مارچ میں ریٹائر نہیں کیا جس وقت ایک ایک آدمی کی اس کے محکمے کو سخت ضرورت تھی تو کیا یہ سجاد کی غلطی ہے؟
آپ کے سامنے میں نے یہ ساری بات رکھ دی ہے۔ انصاف کیجیے کہ سجاد احمد کہاں جائے؟ تصور کیجیے کہ اسے کہیں سے مزید قرض نہیں ملتا تو وہ گھر میں آگ کیسے جلائے۔ ایک سرکاری محکمے کا ایک بے بس ریٹائرڈ ملازم توجہ اور شفقت کا حق دار ہے۔ کیا آپ اسے یہ حق دلا دیں گے؟ میں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا۔ کیا محکمہ اپنا فرض ادا کرے گا؟