انہیں نیند بھی آتی ہے‘ وہ اونگھ کے مزے بھی لیتے ہیں‘ وہ جی بھر کر پہروں سوئے بھی رہتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کھلی آنکھوں تو کبھی آدھی آنکھ میچ کر سہی‘ ان میں سے کوئی نہ کوئی جاگنے کی کوشش ضرور کرتا ہے کیونکہ جب سب سو جائیں‘ جب دشمن جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کر دے تو پھر کسی ایک کو تو جاگنا ہی ہوتا ہے۔ امریکا میں نومبر 2016ء میں انتخابات ہوئے جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ بیرونی مداخلت کے نام پر روس اور اس کے صدر پیوٹن کا شور مچا۔ سب حیران رہ گئے، امریکا‘ جو آدھی سے زائد دنیا کے انتخابات میں حق سمجھ کر مداخلت کرتا اور کراتا رہا‘ اس نقب پر تلملا اٹھا اور پھر امریکا کا ہر ادارہ اور ہر فرد 2020ء کے انتخابات میں ٹرمپ کی دوسری مدت کے خلاف خم ٹھونک کر اس طرح سامنے آیا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ اس دوران ٹرمپ نے بھی بھرپور مزاحمت کی اور مریکی جمہوریت کا تماشا اس طرح دیکھنے کو ملا کہ کیپٹل ہل دشمن کے کسی قلعے کی طرح حملہ آور لشکر کے پائوں تلے روندا جانے لگا۔ عدالتوں میں پنجہ آزمائی شروع ہو گئی لیکن جیت انہی کی ہوئی جن کی آنکھیں کھلی تھیں اور جو اپنے دفاع سے غافل نہ تھے۔
بھوربن کے ایک بڑے ہوٹل میں انتہائی پُرتکلف کھانوں کا بندو بست کیا جا رہا تھا، چیف شیف کو بلا کر کھانوں کی ایک طویل فہرست تھمائی جا رہی تھی۔ اس وقت کی ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کی جانب سے خصوصی لیکچر دیتے ہوئے چیف شیف کو کھانا پکانے کی چند تراکیب بھی سمجھائی جا رہی تھیں، چیف شیف حیران تھا کہ وہ کون سے مہمان بلائے جا رہے ہیں جن کیلئے اس قسم کے پُرتکلف کھانوں کیلئے خود ہدایات دی جا رہی ہیں۔ جب علیحدہ سے ایک کمرے میں سجائی گئی کھانے کی میز پر مہمان آ کر بیٹھ گئے تو شیف یہ دیکھ کر کچھ حیران رہ گیا کہ وہاں کوئی غیر ملکی نہیں تھا بلکہ 1996ء کے‘ چار انگریزی اور ایک اردو اخبار سے منسلک صحافیوں کو میز پر چنے گئے خصوصی کھانوں سے پنجہ آزمائی کرتے دیکھا جا رہا تھا۔ اس سے آگے کی کہانی یہ چاروں افراد کئی مرتبہ اپنے ٹی وی انٹرویوز اور ٹاک شوز میں سنا چکے ہیں کہ کھانے کی میز پر ان سب سے درخواست کی جا رہی تھی کہ میاں نواز شریف اقتدار میں آ رہے ہیں‘ آپ سے گزارش ہے کہ پہلے120 دن (چار ماہ) آپ میں سے کسی نے بھی ان پر کسی قسم کی کوئی تنقید نہیں کرنی بلکہ حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہے۔
مذکورہ چاروں صحافیوں کا تعلق انتہائی باخبر صحافیوں میں ہوتا تھا، اسلام آباد کے اہم سفارتی حلقوں میں بھی ان کا کثرت سے آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وہ سب حیران تھے کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھے جا رہے تھے۔ اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور ان کی حکومت ٹھیک جا رہی تھی، ایسے کوئی حالات بھی نہیں تھے کہ حکومت رخصت ہوتی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بن جاتے۔ فاروق لغاری اس وقت ملک کے صدر تھے اور محترمہ سے ان کے تعلقات نہایت برادرانہ تھے۔ پھر کس برتے پر تین ماہ بعد ہی اقتدار میں آنے کا کہا جا رہا تھا،اس وقت حکومت کی لگ بھگ نصف مدتِ اقتدار باقی تھی‘ مڈٹرم الیکشن کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا لیکن ہونی ہوکر رہی اور میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل اور بعد کے حالات کے باعث محترمہ کو اس طرح گھر بھیج دیا گیا کہ گھوڑے اور گدھے جام اور مربہ کھاتے دکھائے جانے لگے، ایئر کنڈیشنڈ اصطبل سامنے آ گئے جن کے متعلق بعد میں پتا چلا کہ لندن کے مضافات میں واقع ایک فارم ہائوس کی تصاویر دکھا کر عوام کو گمراہ کیا گیا تھا۔ اس وقت عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کر کے اپنے مہروں کو آگے لانے کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔ صحافیوں سے ہونے والی ملاقات سے قبل ہی مری کی ایک پُرشکوہ رہائش گاہ پر ایک پُرتکلف ظہرانے میں کوئی تین گھنٹے تک انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد اقتدار کے ہما کو کسی کے کاندھے سے اڑا کر کسی اور کے سر پر بٹھائے جانے کی نوید سنائی جا چکی تھی۔ اب اگر پوچھا جائے کہ ایک منتخب حکومت کی مدتِ اقتدار کے نصف النہار پر اس حکومت کو گرا کر کسی دوسرے کے برسر اقتدار کیوں لایا گیا تھا، وہ کون سا ایسا ایجنڈا تھا جس کی تکمیل کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا؟ عالمی کرداروں کو بیساکھیوں کے ذریعے ایک حکومت بنا کر اس سے اپنا کیا کام لینا مقصود تھا؟تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔
یہ بات سچ ہے کہ سیلاب اپنے ساتھ جہاں بہت سی تباہ کاریاں لے کر آتا ہے‘ وہیں کچھ لوگوں کی بنجر زمینوں کو ایسا سیراب کر جاتا ہے کہ ان کی کھیتیوں اور باغات کی دور دور تک دھوم مچ جاتی ہے، ان کی پیداوار دنیا کے کونے کونے میں بکنے لگتی ہے اور پھر وہ اپنی ایسی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں کہ اپنے سوا کسی دوسرے کا وجود بھی ان سے برداشت نہیں ہو پاتا۔ لندن میں کس کس کو نئی اور انتہائی قیمتی گاڑیاں خرید کر دی گئیں، کن افراد کیلئے نئے سٹوڈیوز خریدے گئے، یہ باتیں اب کوئی راز نہیں۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ امریکا میں عوام نے جب دیکھا کہ پانی ان کے سر سے اونچا ہو چلا ہے تو انہوں نے اپنے ''گوربا چوف‘‘ کو ایوانِ حکومت سے بے دخل کرنے کے لیے کسی قسم کی جھجک کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا اور جوکروں سمیت تاش کے باون پتوں کو سنبھالا دینے کیلئے جو کچھ ان کے بس میں تھا‘ وہ سب کیا۔
سیدھی سی بات ہے جب پی ٹی ایم کی لسانیت اور قومیت والی سیاست پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کی جانے لگے تو پھر کسی کو تو نیند سے جاگنا ہی پڑتا ہے، کسی کو تو پوری آنکھ سے نہ سہی‘ ادھ کھلی آنکھوں سے ان کرداروں کو دیکھنا ہی ہو گا۔ جب آپ افغانیہ نامی ریاست بنانے کی باتیں کرنے والوں کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے تو کوئی تو جاگتی آنکھوں سے ان کندھوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرے گا کہ اس وقت تم اپنا بیانیہ خواہ کچھ بھی رکھ لو‘ تمہارا اصل مقصد، تمہارا اصل ارادہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہے گا۔ ''ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسی گولیوں پر شہد کی جتنی چاہے تہیں جما دی جائیں‘ اس کے نیچے چھپا بیانیہ اپنی کڑواہٹ سے اپنا ثبوت دے دیتا ہے۔ پھر وہ جلسہ کراچی کا ہو، کوئٹہ کا یا لاہور کا، متنازع بیانات ابل ابل پڑتے ہیں۔ اگر ایسے حالات میں بھی جاگنے والے اونگھنے لگیں تو پھر لڑائی کے بعد وہ اپنا چہرہ ہی پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ دشمن اپنی جانب سے ہر کوشش کیے جا رہے ہیں کہ تلواروں کو زنگ لگا دیا جائے، نیزوں اور بھالوں کی انیوں کو کمزور کر دیں، تیروں کی کمانوں کو اس قدر کھوکھلا کر دیں کہ وہ نشانے پر جانے کے بجائے راستے میں ہی ڈھیر ہو جائیں۔ دیکھیے کہ وہ کون لوگ ہیں جو مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ کسی صحرائی مورچے یا برفانی چوٹیوں پر قدم جمائے، کسی آبدوز کی کمان سنبھالے ہوئے، کسی جہاز کے کاک پٹ یا کسی اورین یا ایواکس پر نظر آنے والے ریڈار پر نظریں جمائے ہوئوں کو ان کے مقصد سے غافل کر دیں۔ کون ہے جو کہتا ہے کہ یہ ایک لاکھ کشمیر کی بیٹیوں اور بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کی لاشوں کے امین کا ملک نہیں‘ ایک لاکھ عصمتوں کی قربانیوں کا ملک نہیں، 1947ء سے آج تک دشمن سے ہر محاذ پر لڑتے ہوئے اپنے جسموں کی قربانیاں دینے والوں کا ملک نہیں بلکہ یہ تو ایک لکیر کا فرق ہے جس کے دونوں جانب آلو گوشت کھایا جاتا ہے۔ کون ہے جو آزاد کشمیر میں کھڑے ہو کر کہتا تھا کہ ہمارا تو کوئی دشمن ہی نہیں‘ دشمن تو وہ بناتے ہیں جو دہشت گرد بھیجتے ہیں؟ بتائیے کیا یہ سننے کے بعد بھی کوئی اپنی نیند سے ہڑبڑا کر نہ اٹھے؟ ای یو ڈس انفو لیب کی انڈین کرونیکلز کے سری واستو گروپ اور ایف اے ٹی ایف کی اتھاہ گہرائیوں میں ہمیں دھکیلنے والوں سے جب سرگوشیاں کی جا رہی ہوں اور انہیں جپھیاں ڈالی جا رہی ہوں تو پھر جاگنے والوں کو تو جاگنا ہی ہوتا ہے‘ جیسے دنیا کی سپر پاور امریکا کا ہر ادارہ اور ہر شہری اپنا ملک بچانے کیلئے جاگ اٹھا تھا۔