تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     10-02-2021

سیاسی خودکشی ؟

کیا یہ ممکن ہے کہ انسان آگ خود کو لگائے اور گمان کرے کہ جلے گاکوئی اور؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ انسان زہر کا پیالہ خود پیے اور چاہے یہ کہ زہر اثر کسی اور پر کرے؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کوئی کنویں میں کودے خود اور خام خیالی یہ کرے کہ لاشہ کسی اور کا برآمد ہو گا؟ یقینا یہ ناممکنات کے کھیل ہیں، حقیقت ان سے کوسوں دور بستی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھرحکومت کو لاپروائی کا بخار کیوں چڑھا ہے؟ وہ ایک غلطی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری غلطی کیوں کرتی ہے؟ حکومت کو سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ اپوزیشن کے ساتھ لڑائی میں نقصان صرف اقتدار میں بیٹھے لوگوں کا ہوتا ہے یا عوام کا۔ ان دنوںوطنِ عزیز میں عجب تماشالگا ہے کہ اپوزیشن حکومت کا قانونی جواز ماننے کو تیار ہے نہ حکومت اپوزیشن کی قانونی حیثیت۔ دونوں کے سیاسی اختلافات رنجشوں کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے ذاتی دشمنی تک پہنچ چکے ہیں۔ اب ہر طرف سیاسی جنگ کا ماحول ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کا کوئی قانون ہوتا ہے نہ آئین، ظرف ہوتا ہے نہ احترام۔ جنگ میں صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہی مقصدِ اول اور حرفِ آخر ہوتا ہے۔ پھر یہ سب کرتے ہوئے قانون راہ میں آئے یا آئین، اخلاقیات کا جنازہ نکلے یا ذاتیات کا، سیاسی اقدار قربان ہوں یا انسانی اصول۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔
کیا کوئی ہے جوبتائے کہ آخر حکومت جلد بازی کا شکار کیوں ہے ؟ کیا حکومت کے ہاں سیاسی دماغوں کی کمی ہے؟ کیا حکومت کے کرتا دھرتا آئین اور قانون کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر‘ حکومت ہمہ وقت لڑائی کے لیے تیار کیوں رہتی ہے؟ کیا کبھی حکومتیں بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہیں؟ کون جانے موجودہ حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے؟ ایک جھگڑا ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع کر دیتی ہے۔ زیادہ نہیں، حکومت اتنا تو بتائے کہ کیا پاکستان کے مسائل ختم ہو چکے؟ کیا حکمرانوں کے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں بچا؟ کیا اب پاکستانی معیشت مستحکم ہو چکی؟ کیا بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی آ گئی؟ کیا گروتھ ریٹ منفی سے نکل کر سات فیصد پر پہنچ چکا؟ کیا پاکستانی مصنوعات یورپ اور امریکا میں فروخت ہونے لگیں؟ کیا ہم نے قرضوں کی دکان کو ہمیشہ کے لیے تالا لگا دیا؟ کیا آٹا، چینی، گندم، ادویات اور پیڑول مافیاز کا قلع قمع ہو چکا؟ کیا بجلی اور گیس عوام کی دسترس میں آچکے ؟کیا گورننس کے مسائل ماضی کا قصہ ہوئے؟ اگر ایسا ہے تو حکومت جی بھر کر اپوزیشن کو آنکھیں دکھائے اور اگر ابھی یہ وقت دہائیوں کی مسافت پر ہے تو پھر حکومت مفت کے جھگڑے کیوں مول لیتی ہے؟ عوام کی داد رسی اس کی ترجیح میں نیچے کیوں ہے؟
پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کی تاریخ دی تو حکومت نے بھی فوری بدلہ لینے کی ٹھانی۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار تبدیل کر دیا، نہلے پر دہلا یہ کہ سینیٹ آف پاکستان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ حکومت کہتی ہے کہ سینیٹ میں ارکان کی خرید و فروخت کا راستہ بند ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ ایک صائب خیال ہے مگر حکومت کا طریقہ کار کسی طور درست نہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کا کاروبار ضرور انجام کو پہنچنا چاہیے مگر آئینِ پاکستان کی پامالی کی قیمت پر ہرگز نہیں۔ اب سوال اُٹھتا ہے کہ حکومت کو اپنے ایم این ایز پر اور ایم پی ایز پر بے اعتباری کیوں ہے؟ بداعتمادی کی یہ فضا کس وجہ سے پیدا ہوئی کہ حکومت کو کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ وہ ایک ایک کرکے کھیل کے سارے اصول کیوں توڑ رہی ہے؟ کوئی تو بتائے کہ حکمرانوں کو کس بات کا ڈر ہے؟ ایک شکار کے لیے چار تیر وں کے استعمال کی کیا منطق ہے؟ فیصلے کا انتظار نہیں کرنا تھا تو اوپن بیلٹ کے لیے صدارتی ریفرنس کیوں بھیجا؟ اگر پارلیمنٹ سے قانون سازی نہیں کروانا تھی تو تین دن تک وہاں معاملات کیوں چلائے گئے؟ اگر آخر ی تان آرڈیننس پر ہی ٹوٹنا تھی توکابینہ، عدلیہ اور قومی اسمبلی کا وقت کس لیے ضائع کیا گیا؟
حکومت کے منصوبے کیا ہیں‘ یہ تو حکومت ہی جانے مگر جو بظاہر نظر آ رہا ہے وہ آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بالکل نیک شگون نہیں ہے۔ جب آئین کے آرٹیکل 226 میں صاف لکھا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوں گے تو پھر اس کے بعد کس فیصلے کی توقع ہے؟ اسی طرح کے کچھ اور سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں منڈلا رہے ہیں مگر جواب دینے میں روایتی ''اگر مگر‘‘ اور لیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ جب حکومت پر پوری طرح عیاں تھا کہ صرف کابینہ کی منظوری سے خفیہ رائے شماری کا طریقہ تبدیل نہیں ہوتا پھر بھی کابینہ سے منظوری کیوں لی گئی؟ جب حکومت کو پتا تھا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں‘ پھر آئینی ترمیم کیوں پیش کی گئی؟ جب حکومت جانتی تھی کہ صدارتی آرڈیننس بھی مسئلے کا حل نہیں ہے تو پھر بھی وہ آرڈیننس کیوں لے کر آئی؟
ذہن کی گتھیاں زیادہ الجھیں تو ''باخبر‘‘ دوستوں سے بات کی تاکہ معاملہ سمجھ میں آ سکے کہ آخر اسلام آباد میں چل کیا رہا ہے۔ شومئی قسمت دیکھیے کہ گتھیاں سلجھتی سلجھتی مزید الجھ گئیں۔ باخبر دوستوں نے بتایا ''سینیٹ الیکشن میں جو کچھ حکومت کی جانب سے دکھایا جا رہا ہے وہ درست ہے نہ حالات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ حکومت پی ڈی ایم کو سیاسی چال میں پھنسا چکی ہے، اب دونوں صورتوں میں جیت حکومت کی ہو گی۔ پی ڈی ایم کی ہار نوشتۂ دیوار بن چکی ہے‘‘۔ مزید کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ حکومت خود چاہتی ہے کہ سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوں کیونکہ سارا ''انتظام‘‘ کیا جا چکا ہے، صادق سنجرانی اورمرحوم حاصل بزنجو والے الیکشن سے بھی زیادہ۔ شطرنج کی بساط پر پیادے اور بادشاہ پہلے بھی ایک تھے اور اب بھی ایک ہیں۔ جو نظر آ رہا ہے وہ سب آنکھوں کا دھوکا ہے۔ صدارتی ریفرنس عدالت بھیجنا، کابینہ سے منظوری، آئینی ترمیم اورآرڈیننس نافذ کرنا سب کھیل کا حصہ ہے تاکہ بعد ازاںکوئی شور نہ مچا سکے۔ کوئی رونا بھی چاہے تو اس کے آنسو نہ نکلیں۔ خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ اور ڈرانے دھمکانے کا الزام بھی اپنی موت آپ مر جائے۔ تادمِ تحریر اپوزیشن کو حکومتی ارکان انقلابی دکھائی دے رہے ہیں اور باغی بھی مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کی عقابی نظریں اپنے ممبرز پر بھی ہیں یا نہیں؟ ایسا نہ ہو کہ گزشتہ الیکشن میں چودہ ارکان کو غائب کرنے والا منتر یہاں بھی کام کر جائے اور اپوزیشن کی ساری امیدیں سراب ثابت ہوں۔
دوسری جنگ عظیم میں جب امریکا اور برطانیہ نے روس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اس وقت چرچل نے کہا تھا کہ جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دشمن کم سے کم ہوں اور دوست زیادہ سے زیادہ۔نجانے کیوںہمارے حکمرانوں کو جنگ کا یہ اصول معلوم نہیں؟وہ کیوںہر وقت اپنے دشمنوں کی تعداد بڑھانے پر لگے رہتے ہیں۔ جب اپوزیشن کو گڑ کھلا کر رام کیا جا سکتا ہے تو حکومت کیوں کڑوی گولیاں دینے پر مصر رہتی ہے؟حکومت ضرور ضمیر فروشی کے آگے بند باندھے، بے ایمانی اور بددیانتی کی سیاست کا ہاتھ روکے مگر یہ سب کرنے کے لیے خدارا اپنا طریقہ کار تو درست رکھے۔ یہ کام کابینہ کر سکتی ہے نہ ریفرنس،صدارتی آرڈیننس سے ہوسکتا ہے نہ کسی ایگزیکٹو آرڈر سے۔یہ کام صرف اور صرف آئینی ترمیم سے ممکن ہے اور اس کے لیے اپوزیشن کا ساتھ ہی آخری حل ہے۔
حکومت اور اپوزیشن جان لیں! اگر انہیں پارلیمنٹ کا دم توڑتا وقار عزیز ہے تو ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا ہو گا، سیاسی رقابت کی آگ کو ٹھنڈاکرنا ہو گا ورنہ جس راہ پر وہ چل نکلے ہیں وہ سیاسی خودکشی کا راستہ ہے، کیا کوئی اس راستے پر چل کر منزل پا سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved