تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     10-02-2021

کوئی صورت نظر نہیں آتی

سادہ الفاظ میں انتہائی اذیت ناک، دل دکھا دینے والی اور ہر آن جھوٹ کا پردہ فاش کر دینے والی صورت حال ہے۔ اب یہی کسر باقی رہ گئی ہے کہ کسی طرح غیر قانونی کاموں کو قانونی شکل دے دی جائے ورنہ اِن قباحتوں کے خاتمے کی بظاہر تو کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سرکاری محکموں میں عوام کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اب اصلاح کی جانب بھی کسی کی کوئی توجہ نہیں‘ جب تھوڑی بہت سختی کی جاتی ہے‘ زیادہ سے زیادہ یہ فرق پڑتا ہے کہ ''نذرانوں‘‘ کا ریٹ کچھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ معاملہ رشوت کا ہو‘ کرپشن کا ہو یا تجاوزات کا‘سارا معاملہ عوام کے سامنے ہے کہ کس طرح خرابیاں خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح اُگتی چلی جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے ہوئے اپنے بینک اکاؤنٹس میں اضافے کا سلسلہ بھی زورو شور سے جاری ہے۔ یوں بھی تو زور و شور سے جاری احتسابی کارروائیوں کے کون سے نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ 74 سالوں کے دوران احتساب کے گھوڑے نے اُنہی پر اپنے ٹاپوں رکھے جن کی شکلیں اسے پسند نہیں تھیں یا پھر جو مخالفین کی صف میں موجود تھے۔ جب سب کچھ کرنے کے باوجود بہتری کی صورت دکھائی نہیں دے رہی تو پھر کیوں نہ اِن قباحتوں کو قانونی حیثیت دے کر سبھی کا بھلا کردیا جائے۔ ایسا قانون متعارف کرا دیا جائے کہ جس کے پاس لاٹھی ہو گی، سرکاری طور پر بھینس بھی اُسی کی ہو گی۔ ویسے بھی تو چوہتر سالوں سے غیر سرکاری طور پر یہی قانون چلا آ رہا ہے۔ ملکی تاریخ کے زیادہ نہیں تو چنیدہ واقعات پر ہی نظر دوڑا لی جائے تو قانون کی حکمرانی کے تمام دعوے بکھر جاتے ہیں۔ جنہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں سویلین حکومتوں کو گھر بھیجا یا جنہوں نے سول ڈکٹیٹرشپ متعارف کرائی‘ اُنہی کی دیکھا دیکھی سب نے اپنی اپنی ترجیحات کا تعین کیا۔ اِن ترجیحات میں طاقت اور دولت کا حصول سرفہرست ٹھہرا۔ سب نے اپنے اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے اپنے اپنے حامیوں کو کھل کھیلنے کی اجازت دی۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ قریب 35، 36 سال پہلے کی بات ہے جب پچھلے دروازے سے آنے والے ایک ڈکٹیٹر نے غیر جماعتی اسمبلیوں کا تصور متعارف کرایا تھا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ شکرگزاروں کی ایسی کھیپ تیار کی جائے جو ہمیشہ اس کی قوت بنی رہے۔ یہی وہ موقع بھی تھا جب پہلی مرتبہ اراکین قومی اسمبلی کو پانچ، پانچ اور اراکین صوبائی اسمبلی کو تین، تین کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر تقسیم کیے گئے تھے۔ اِس سے پہلے رواج یہ تھا کہ اراکین اسمبلی صرف ترقیاتی سکیموں کی نشاندہی کر سکتے تھے جبکہ منصوبے مکمل کرنے کی ذمہ داری بیورو کریسی انجام دیا کرتی تھی۔ آج یہ رقم پچاس پچاس کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ حسب روایت اِس مرتبہ بھی اِس مہربانی کے مزے حکومتی اراکین ہی اُٹھائیں گے۔ مضبوطیٔ اقتدار کے لیے قرضے معاف کرانے والوں کی بھی دل کھول کر سرپرستی کی گئی اور آج بھی یہ کھیل پورے زور و شور سے جاری ہے۔ جب کرپشن اور بدعنوانی کو اربابِ بست و کشاد کی سرپرستی حاصل ہو جائے تو پھر اِس کے اثرات کو نیچے تک آنے سے کیونکر روکا جا سکتا ہے۔ پسند اور ناپسند کے اِس کھیل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اعتبار جیسی نعمت ہم سے روٹھ گئی۔ کیا بیوروکریٹ، کیا سیاستدان اور کیا عام آدمی، آج سب کے سب ایک ہی حمام میں نظرآ رہے ہیں۔ عالم تو یہ ہے کہ اب انتہائی غریب افراد کی مدد کے لیے متعارف کرائے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بھی گریڈ بیس تک کے افسران اور متعدد دیگر امیر افراد استفادہ کرتے رہے۔ یہ تعداد دو چار افراد تک محدود نہیں تھی بلکہ 8 لاکھ 50 ہزار کے قریب غیر مستحق افراد اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ اندازہ لگائیے کہ ان ساڑھے آٹھ لاکھ افراد میں متعدد امیر ترین افراد بھی شامل تھے۔ یہ سب کے سب دھڑلے سے غریبوں کو حق ڈکارتے رہے اور کسی کو شرم نہ آئی کہ آخر وہ کر کیا رہے ہیں۔ اِس حوالے سے تحقیقات کرنے والے ایک دیرینہ دوست کے ساتھ اِس بارے بات ہوئی تو جو کچھ اُس کی طرف سے بتایا گیا، وہ سن کر ''چودہ سو‘‘ طبق روشن ہو گئے کہ ہم کن گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔
بتانے والے نے بتایا کہ بعض ایسے نام سامنے آئے کہ خود تحقیق کرنے والوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہو گیا کہ کیا صاحبِ ثروت لوگ بھی اتنی گھٹیا حرکت کر سکتے ہیں لیکن سچ یہی تھا کہ وہ سب انتہائی غریب افراد کا حق مارتے رہے تھے۔ آج اگرچہ مضبوطیٔ اقتدار کے مختلف حربے آزمانے والے متعدد حکمران تو موجود نہیں رہے لیکن جو کلچر وہ متعارف کرا گئے ہیں، اُس نے ملک کو‘ یوں لگتا ہے کہ ناقابل واپسی مقام تک پہنچا دیا ہے۔ اِس تمام کھیل میں اَن دیکھی قوتیں بھی اپنا کردار بخوبی ادا کرتی رہیں، کبھی بلاواسطہ تو کبھی بالواسطہ طور پر۔ اِس کھیل میں ایک وقت کے کرپٹ دوسرے وقت میں ایماندار ٹھہرے اور ایک وقت کے ایماندار دوسرے وقت میں بے ایمان ٹھہرائے گئے۔ کیا یہ کھیل اِس وقت بھی جاری نہیں ہے؟ اِسی کھیل میں ہم آدھا وطن گنوا بیٹھے تھے اور باقی کا جو حال کر دیا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ طاقت کی اِس مارا ماری میں آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ کچھ بھی تبدیل ہوتا نظرنہیں آرہا‘ کوئی امید بر نہیں آ رہی‘ کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ آج بھی صرف وہی کیسز چل رہے ہیں جن کا چلنا اہلِ حَکم کے مفاد میں ہے، اُن کیسز کا کہیں نام و نشان بھی دکھائی دنہیں دیتا جو ان کے مفادات کے خلاف ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے 1990ء کی دہائی میں اصغر خان کیس کو طویل عرصے تک سرد خانے میں ڈالا گیا تھا۔ اصغر خان صاحب نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ تب بینظیر کی حکومت کو گرانے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں۔ اِس درخواست پر غالباً دو چار سماعتیں ہی ہو سکی تھیں اور پھر اِس میں طویل تعطل آ گیا۔ 19 اکتوبر 2012ء کو ایک مختصر سا فیصلہ آیا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ سیاستدانوں میں رقوم تو تقسیم ہوئیں لیکن یہ بعض شخصیات کا انفرادی فعل تھا۔ فیصلے میں یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ ان رقوم سے مستفید ہونے والے سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں۔ پھر حسبِ روایت بات آئی گئی ہو گئی۔ آج تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی بھی یہی صورت حال ہے۔ یہ کیس خود تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014ء میں دائر کیا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ ہماری تاریخ ایسے دو‘ چار نہیں بلکہ اَن گنت واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن مجال ہے جو ہم ذرا بھی شرمندگی محسوس کرتے ہوں۔ آنے والے وقتوں میں بھی صورت حال میں واضح تبدیلی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا چلن اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی روش اِسی طرح سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہیں گے۔ جب یہ تمام قباحتیں انتہائی نچلی سطح پر بھی بدرجہ اُتم اپنے پنجے گاڑ لیں تو بہتری کی زیادہ اُمید رکھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کرپشن معاشرے کے ٹاپ سے نیچے کی طرف جائے تو اردگرد بھی اپنی الائشیں بکھیرتی جاتی ہے، آج یہی کچھ ہو رہا ہے۔ الا ماشاء اللہ جس کے پاس جتنا اختیار ہے‘ وہ اس کا اتنا ہی استحصال کر رہا ہے۔ جوجتنی طاقت رکھتا ہے‘ وہ اسی قدر مزید طاقت کا بھی خواہشمند ہے‘ مقصد صرف ایک ہے کہ اپنے سے نچلے طبقات کو دبا کر رکھا جائے اور قانون کو موم کی ناک کی مانند استعمال کیا جائے اور جب معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد بڑھنے لگے تو ساری بجلی غریبوں اور بے نوائوں پر گرتی ہے، افسوس کہ جنہوں نے معاشرے میں سدھار لانا تھا وہ خود دولت اور طاقت کے حصول کی اس دوڑ میں شریک ہیں۔ ان حالات میں کسی مثبت تبدیلی آنے کے کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved