گاڑی بائیں طرف مُڑی۔ اب میں صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ پر تھا۔
دارالحکومت کا آئی ایٹ سیکٹر کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ سرکاری ملازموں کی اچھی خاصی تعداد یہاں رہائش پذیر ہے۔ اس لیے اسے بابو نگر بھی کہا جاتا ہے۔ کبھی اسے وی آئی پی سیکٹر کا نام دیا جاتا ہے۔ محل وقوع پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان ہے۔ یوں بہت سے لوگ یہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ کے ایک طرف پارک ہے۔ دوسری طرف مکانات ہیں۔ گراں بہا اور بڑے بڑے مکانات۔ بہت سے تاجر بھی انہی مکانوں میں رہتے ہیں۔ ویسے تاجر تو سونے کے مکانوں میں بھی رہ سکتے ہیں۔ کسان کے بچے کے لیے گُڑ بہت کشش رکھتا تھا۔ یہی اس کی مٹھائی تھی اور یہی چاکلیٹ! ایک دن باپ کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہا تھا کہ بادشاہ کا قافلہ گزرا۔ کسان نے کہا: بیٹے دیکھو بادشاہ کے گھوڑے پر زین سونے کی ہے۔ بچے کے نزدیک گُڑ سونے کی نسبت زیادہ قیمتی تھا۔ کہنے لگا ابّا! بادشاہ کا کیا ہے وہ تو گُڑ کی زین بھی بنوا سکتا ہے! تو ہمارے تاجر بھائی (سب نہیں) سونے کے مکانوں میں بھی رہ سکتے ہیں۔ ہاں ایف بی آر کے ڈر سے نہ رہیں تو اور بات ہے!
صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ سے بائیں طرف مُڑ گیا۔ اب میں میر چاکر خان روڈ پر تھا۔ چند سیکنڈ بعد میری نظر بائیں طرف پڑی اور میں ٹھٹک گیا۔ یہ آئی ایٹ تھری کا ماڈل کالج فار بوائز تھا۔ یوں لگا جیسے ٹانگیں بے جان ہو گئیں! پاؤں، غیر ارادی طور پر، ایکسیلیٹر سے ہٹ کر بریک پر آ گیا۔ گاڑی بائیں طرف کر کے روک لی۔ اب میں ماڈل کالج کی بغل میں تھا۔
شفیق الرحمان کا ایک کردار بار بار کہتا ہے: ایران! آہ میرے خوابوں کی سرزمین ایران! جہاں پہاڑوں پر قالین بچھا کر قہوہ پیتے ہیں! یہ ماڈل کالج کبھی میرے خوابوں کی سرزمین تھا۔ میری امیدوں کا مرکز! میری تمناؤں کی ارضِ موعود! یعنی Promised land۔
آہ! سیکٹر آئی ایٹ تھری کا ماڈل کالج! وہ دن نہیں بھولتا جب یہ کالج میرے لیے باغِ ارم سے کم نہ تھا۔ وائٹ ہاؤس سے زیادہ اہم! زندگی بھر جن خوابوں کو دیکھا، ان کچے خوابوں کو حسرت کی آنچ پر پکایا اور پھر جھولی میں بھر کر، اس ماڈل کالج میں آ کر بکھیر دیے۔ اس یقین کے ساتھ کہ ان سے بلند و بالا توانا شجر اٹھیں گے جن کی طرف میں فخر سے سر اٹھا کر دیکھا کروں گا۔ ان اشجار کی شاخیں سنہری ہوں گی۔ پھل آسمانی ہوں گے، ان پر رنگ برنگے طائر، زرق برق لباس پہنے، عزت نفس کے گیت گائیں گے۔ میں نے اس کالج کی دیواروں کو چوما۔ اس کی مٹی کو سرمہ جانا۔ یہ میرے لیے تقدیس کا نشان تھا۔ یہ انقلاب کی علامت تھا۔ یہ میرے بچوں کے مستقبل کا ضامن تھا۔
1970 کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد سبق حاصل ہوا کہ اس عدل کُش دیار میں ووٹ ڈالنا ریت پر پانی کا گلاس انڈیلنے والی بات ہے۔ ووٹ ڈالنا ووٹ کی توہین ہے، اپنی توہین ہے۔ اُن چار لفظوں کی توہین ہے جسے تعلیم سمجھ کر حاصل کیا۔ یہ سبق بھی سیکھا کہ جسے بھی ووٹ ڈالیں، کامیاب ہو کر اس نے 'سٹیٹس کو‘ ہی کے پاؤں پکڑنے ہیں، اور نمک کی کان میں نمک ہی ہونا ہے۔ ہاں! میں اڑتالیس سال الیکشن کے دن گھر سے نہیں نکلا۔ آپ سیاسی بے حسی کا الزام لگا سکتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہری کے طور پر میں نے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر سب امیدوار بُرے تھے تو کم بُرے کو ووٹ دے دیتا۔ آپ کے سارے الزامات اپنی جگہ درست! مگر مجھے یقین تھا کہ یہ ایک کارِ لا حاصل ہو گا۔ 'سٹیٹس کو‘ کے غلاموں کو، جدی پشتی جاگیرداروں کو، ٹیکس چور صنعت کاروں کو اور پارٹیاں بدلنے والے ٹوڈیوں کو میں کیوں ووٹ دیتا؟ میں الیکشن کے دن مولی والا پراٹھا لسی کے ساتھ کھاتا، بچوں کے ساتھ کھیلتا، بیوی کے ساتھ واک کرتا، اور جب تک والدین حیات تھے، ان کے ساتھ وقت گزارتا۔
پھر آسمانوں سے آہ و زاری کا جواب آیا۔ ایک نئی جماعت انصاف کے نام سے ابھری اور اس نے ہر وہ بات کہی جو ہم اڑتالیس سالوں سے کہہ رہے تھے۔ اس کے منہ میں ہماری زبان تھی۔ اس کی پلاننگ میں ہماری تمناؤں کا رنگ تھا۔ اس نے کہا: 'سٹیٹس کو‘ دفن ہو جائے گا۔ ہم نے یقین کیا۔ اس نے کہا: میرٹ کو سرفراز کر کے اقربا پروری، دوست نوازی، سفارش، رشوت کا گلا گھونٹ دیں گے، ہم نے تالی بجائی۔ اس نے کہا: کابینہ سترہ ارکان پر مشتمل ہو گی۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اس نے وعدہ کیا: پی ٹی وی کے دس ارب کے سالانہ جگا ٹیکس کی گردن مروڑ دی جائے گی۔ ہم نے بلائیں لیں! اس نے عہد کیا کہ پارلیمنٹ ممبران کو ترقیاتی فنڈز کی رشوت دینے کا مکروہ سلسلہ موت کے گھاٹ اتار دیں گے۔ ہم نے بھنگڑا ڈالا۔ اس نے یقین دلایا کہ پنجاب کا تھانہ کلچر، بدل دیا جائے گا اور یہ کہ پولیس میں سیاسی مداخلت کو زمین کے نیچے دفن کر دیا جائے گا، ہم نے مٹھائیاں بانٹیں۔ اس نے کہا کہ خود کُشی کر لیں گے مگر آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز نہیں کریں گے، ہم نے تعریفوں کے ڈونگرے برسائے۔ اس نے وعدہ کیا کہ اتنے لاکھ مکان بنیں گے اور اتنے کروڑ نوکریاں دی جائیں گی۔ ہم نے اس کی ظفر یابی کے لیے دعائیں مانگیں۔
2018 ء کی پچیس جولائی تھی۔ میرا اور میری اہلیہ کا پولنگ سٹیشن یہی ماڈل کالج تھا۔ ہم ایک بے کنار مسرت کے ساتھ روانہ ہوئے جیسے بچے عید کے دن نئے ملبوس میں خوش ہو کر گلی میں نکلتے ہیں۔ ہم میں اُس دن اتنی توانائی تھی کہ ہم پہاڑوں کو روک سکتے تھے۔ دریاؤں کا رُخ موڑ سکتے تھے۔ بادلوں کو ہاتھ لگا سکتے تھے۔ ہمارے سامنے ایک نیا ملک تھا۔ ایک روشن مستقبل! اب ہمارے ملک نے بھی سنگا پور بننا تھا، جنوبی کوریا کی طرح ترقی کرنا تھی۔ ملائیشیا کی طرح جاپانی کمپنیوں کا دوسرا گھر ہونا تھا۔ ہم نے قطار میں کھڑے ہو کر ووٹ ڈالے۔ اگر ہمیں کئی دن بھی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تو ہم خوشی سے کھڑے رہتے!
مگر آہ! آج میں اس کالج کو دیکھتا ہوں تو شکست خوردگی میرے دل کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیتی ہے۔ ہم ہار گئے۔ 'سٹیٹس کو‘ جیت گیا۔ خواب سراب نکلے۔ امیدوں کے محل مسمار ہوئے۔ ہم آس کی چوٹی سے لڑھکے اور سیدھے کھائی میں گرے۔ ہمارے حکمران آج بھی وہی ہیں جو ستر سال سے ہم پر حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ وہی شیخ رشید صاحب۔ وہی حفیظ شیخ صاحب۔ وہی عمر ایوب صاحب۔ وہی خسرو صاحب۔ وہی فہمیدہ مرزا صاحبہ۔ وہی زبیدہ جلال صاحبہ۔ وہی فروغ نسیم صاحب۔ وہی سومرو صاحب۔ وہی رند صاحب۔ وہی عشرت حسین صاحب۔ بائیس کروڑ میں سے مشیر صحت ملا تو وہ جو اپنے ہسپتال میں ملازم تھا۔ انکوائری کے لیے سربراہ ملا تو وہ جو انہی کے ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کا رکن ہے۔ طاقت کے منابع ہیں تو ان کے ہاتھوں میں جو حکمرانوں کے ذاتی دوست ہیں۔ ہسپتال اب بھی چیف منسٹر کے والد کے نام پر بنا ہے۔ ترقیاتی فنڈز اب بھی بٹ رہے ہیں۔ میں ماڈل کالج کو دیکھتا رہا۔ ایک آہ بھری اور اختر ہوشیار پوری کو یاد کیا:
دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب
عمرِ گریزاں! عمرِ گریزاں ! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو