تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-02-2021

مہرانو… ایک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو!

مہرانو وائلڈ لائف سینکچری ایک حیران کن دنیا ہے۔ سکھر سے خیرپور تیس کلومیٹر، خیرپور سے کوٹ ڈیجی بیس میل اور وہاں سے مہرانو تک بھی بیس بائیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے؛ تاہم کوٹ ڈیجی سے سنگل سڑک ہے اور آخر میں بالکل کچا راستہ ہے۔ سرسوں کے پیلے اور گندم کے سرسبز کھیتوں سے گزرتے ہوئے آہستہ آہستہ یہ منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ریتلا علاقہ اور چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں۔ پھر یہ چھوٹی جھاڑیاں قدآدم جھاڑیوں میں بدل گئیں اور پھر گھنا جنگل۔ پہلے دو تین تیتر سامنے سے اڑے اور پھر دو جنگلی سؤروں نے سڑک کے پار دوڑ لگا دی۔ اگر گائیڈ ساتھ نہ ہوتا تو راستہ کبھی کا کھوچکا ہوتا۔ ہر تھوڑی دیر بعد راستہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا اور اسی طرح درجن بھر موڑ اور آخرکار ہم ایک مٹی سے بنی ہوئی اونچی چاردیواری کے پاس پہنچ گئے۔ چاردیواری کے کونے میں ایک میرون رنگ کا لوہے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ یہ بورڈ انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ تھا: مہرانو، حیات جنگلی کی پناہ گاہ (بنیادی مرکز) مرکز برائے افزائش نسل جو 1990 سے مصروف عمل ہے۔ اس بلندوبالا دیوار کے ساتھ کافی دیر تک چلتے رہے اور پھر سامنے ایک دیوہیکل لکڑی کا دروازہ آگیا۔ کافی دیر تک ہارن بجانے پر ایک محافظ آیا۔ اس نے باہر نکل کر دوبارہ دروازہ بند کردیا اور پوچھا کہ ہم کون ہیں۔ ساتھ آنے والے گائیڈ نے اپنا نام، حوالہ اور متعلقہ شخص کا نام بتایا۔ اطمینان ہونے پر اس نے دروازہ کھول کر ہمیں اندر آنے کی اجازت دی اور ہمارے اندر آنے کے بعد دروازے کو اندر سے تالا لگا کر بند کردیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور اسی طرح کا دروازہ عبور کرکے ہم اس علاقے میں داخل ہو گئے جہاں ہزاروں کالے ہرن بے خوف و خطر گھوم رہے تھے اور ایک محفوظ جنگلے میں چیتل ہرنوں کی افزائش نسل ہو رہی ہے۔ یہ مہرانو وائلڈ لائف سینکچری کا مرکزی حصہ تھا۔
دیوار کے اندر یہ محفوظ جنگل 640 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک طرف سبزہ ہے تو دوسری طرف گھنا جنگل ہے۔ اتنا گھنا کہ اس کے اندر داخل ہونا بھی ایک کارِ مشکل ہے۔ اس کے درمیان ایک چھوٹی سی جھیل ہے اور ایک طرف ریتلا میدان ہے، یعنی ہرطرح کا ماحول میسر ہے۔ ہم نے گاڑی ایک درخت کے نیچے کھڑی کردی۔ سامنے میدان میں بلا مبالغہ سینکڑوں کالے ہرن تھے۔ کچھ بیٹھے ہوئے تھے تو کچھ چل پھر رہے تھے۔ چند شرارتی نو عمر ہرن کلانچیں بھر رہے تھے اور ایک کونے پر دوپختہ عمر کے نَر سینگ لڑا رہے تھے۔ اسد کہنے لگا: یہ سارے کالے ہرن تو نہیں ہیں۔ میں نے بتایا کہ یہ سارے کالے ہرن یعنی Black Buck ہیں‘ یہ جو سیاہ رنگ والے ہرن نظر آرہے ہیں یہ دراصل پختہ عمر والے نَر ہرن ہیں۔ جو نسواری رنگ والے تمہیں نظر آرہے ہیں ان میں مادہ ہرن اور نوجوان نَر ہرن دونوں شامل ہیں۔ جن کے سینگ نہیں وہ مادہ ہرن ہیں اور جن کے سینگ ہیں وہ نَر ہرن ہیں اور عمر کے ساتھ ان کا رنگ بتدریج سیاہ ہو جائے گا۔ سینگوں کی لمبائی اور رنگ کی سیاہی سے ان ہرنوں کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم باتیں کرتے کرتے ہرنوں کی ڈارکے نزدیک پہنچ گئے تو سب سے قریبی ٹولی نے کان کھڑے کئے‘ گردن کواوپر اٹھا کر ہوا میں کچھ سونگھا اور تیز تیز چل پڑے۔ دیکھا دیکھی ساری ڈار چل پڑی۔ درختوں کے نیچے آرام کرتے ہوئے ہرن بھی اٹھے اور ریت کے ٹیلے کی دوسری طرف چل پڑے۔ گائیڈ کے پوچھنے پر وائلڈ لائف ریزرو کے محافظ نے بتایا کہ پانچ ہزارکے لگ بھگ سیاہ ہرن ہیں۔ پورے علاقے میں اسی طرح سینکڑوں ہرنوں پر مشتمل آٹھ دس جتھے موجود ہیں‘ جبکہ اس جنگلے میں چیتل ہیں۔ آج کل انہوں نے بچے دیئے ہوئے ہیں اس لئے آپ ادھر نہیں جا سکتے۔
اس سے پہلے میں نے سب سے زیادہ کالے ہرن کسی ایک جگہ پر دیکھے تھے تووہ لال سوہانرا کی محفوظ پناہ گاہ تھی۔ وہاں بھی جنگلے کے اندر درجنوں ہرنوں پر مشتمل مختلف ٹولیاں تھیں۔ صحرائی میدان میں کئی اونچی برجیاں تھیں جن پر چڑھ کر دور تک ہرنوں کودیکھا جا سکتا تھا۔ وہاں شام کے وقت محافظوں نے لوہے کے تھال بجائے تو جھاڑیوں سے درجنوں ہرن نکلے اور درمیان پڑی ہوئی لوہے کی پراتوں میں موجود چنوں پرٹوٹ پڑے۔ مہرانو میں ہرن تعداد کے حساب سے لال سوہانرا کی نسبت کئی گنا زیادہ تھے۔
میں نے محافظ سے پوچھا کہ وہ جو آپ نے آبی پرندوں کا نظارہ کرنے کیلئے پوشیدہ نظارہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں وہ کدھر ہیں؟ اس نے جواب دینے کے بجائے ڈرائیور کو کہاکہ وہ گاڑی اس طرف موڑ لے۔ وہ ہمیں لے کر پہلے دروازے سے باہر لے آیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک ٹیلے پر پہنچ گئے۔ اوپر کئی کمروں پر مشتمل ایک دو منزلہ عمارت تھی اور دوسری منزل کے اوپر ایک اور دو منزلہ برج تھا۔ یہ حیات جنگلی کا نظارہ کرنے کیلئے ایک بلندوبالا واچ ٹاور تھا۔ میں نے دوسری بار جب پرندوں کی نظارہ گاہ کا کہا تو محافظ کہنے لگا: ہم اسی طرف جا رہے ہیں لیکن آپ کو اس کا بتایا کس نے ہے؟ میں خاموش رہا۔
یہ ساری وائلڈ لائف سینکچری بقول محافظ کے پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے‘ جس میں سے 640 ایکڑکے گرد دیوار ہے جبکہ باقی سارا کھلا جنگل ہے؛ تاہم اس کو شکاریوں کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کیلئے جگہ جگہ محافظ موجود ہیں۔ انہی باتوں کے دوران اس نے ایک جگہ پر ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ ہمیں موبائل فون کی گھنٹی بند کرنے اور خاموش رہنے کا کہہ کر وہ ہمارے آگے چل پڑا۔ راستہ آہستہ آہستہ تنگ ہوتا گیا۔ دونوں طرف جھاڑیوں کی دیوار سی بن گئی۔ حتیٰ کہ ہم جھاڑیوں اور سرکنڈوں کی سرنگ میں داخل ہوگئے۔ پھر ایک سرکنڈوں کی جھونپڑی میں داخل ہوگئے۔ اسی کے اندر دو موڑ مڑے تو سامنے ایک نیچی چھت والا سرکنڈوں اور گھاس پھوس کا بنا ہوا چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی ایک طرف بیٹھنے کیلئے مٹی کا صاف ستھرا تھڑا تھا اور دوسری طرف بھورے رنگ کا کپڑا تھا جس میں آٹھ دس انچ کے چار پانچ سوراخ تھے۔ باہر سے پرندوں کے پھڑپھڑانے کی، قیں قیں کرنے کی اور پانی میں غوطے لگانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اسد نے ایک سوراخ سے باہر جھانکا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں حیرانی سے جیسے پھٹ سی گئیں۔ باہر ہزاروں، جی ہاں! بلامبالغہ ہزاروں پرندے‘ جن میں ٹیل، نیل سر، سیخ پر، ہوکارڈ اور دوسری اقسام کی مرغابیوں کے علاوہ بگلے، کونجیں، جل مرغ، چہے، ککوئے اور دیگر آبی پرندے شامل تھے‘ پانی میں ڈبکیاں لگا رہے تھے، آپس میں چہلیں کررہے تھے اور اتنا شور مچا رہے کہ لگتا تھا پرندے کسی جلسہ گاہ میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔ انسان کو کوسوں دور دیکھ کر اڑ جانے والے یہ پرندے ہم سے چند گزدور اتنے بے فکر اور بے خوف انداز میں موج میلا کر رہے تھے کہ عام حالات میں پاکستان میں اس کا تصور ہی محال ہے۔ میں نے دوبار اٹھنے کا ارادہ کیا مگر اسد اپنے والے سوراخ سے منہ ہی نہیں ہٹا رہا تھا۔ یہ نظارہ گاہ جھیل کے کنارے سارے قدرتی ماحول اور منظر کا ایسا حصہ تھی کہ پرندے اسے منظرنامے کا قدرتی حصہ سمجھتے ہوئے بے خطر اٹھکیلیوں میں مصروف تھے۔ اگر واپسی کی جلدی نہ ہوتی تو میں ابھی مزید کئی گھنٹے یہاں بیٹھا رہتا لیکن بقول منیر نیازی:
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو، کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر، پھر باقی کیا رہ جائے گا
سب باتیں اس کی سن لیں اگر، پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بے کلی رہنے دو، اک رنگین ان بنی دنیا پر
اک کھڑکی اَن کھلی رہنے دو
میں بھی ایک کھڑکی ان کھلی رہنے دینا چاہتا ہوں تاکہ اسے پھر کبھی کھول سکوں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved