اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر کے متاثرین میں کمی آرہی ہے‘ لیکن ابھی صورتحال مکمل طور پر قابو میں نہیں آئی۔ پاکستان میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ مجموعی کیسز ساڑھے5 لاکھ سے اوپر ہیں۔ اب تک صحت یاب ہونے والوں کی تعداد بڑی ہی امید افزا ہے۔ تقریباً سوا 5 لاکھ لوگ صحت یاب ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بھی فعال کیسز کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے۔ پاکستان جیسے کم وسائل رکھنے والے ملک میں کورونا کا کم پھیلاؤ، ہر اعتبار سے قدرت کی مہربانی ہے۔ کورونا کے آغاز پر حکومت کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے‘ لیکن آہستہ آہستہ تجربات سے ہم نے کسی حد تک سیکھا کہ کورونا کے ساتھ کیسے زندہ رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وبا نے دنیا کے بڑے ملکوں کی طرح پاکستان کو بہت زیادہ متاثر نہیں کیا۔ یہاں میں حکومت کو بھی اس کا کچھ کریڈٹ دوں گا کہ اس نے عوام میں آگاہی مہم، جزوی اور مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے کوشش کی کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکا جائے۔ عملی طور پر ان ایس او پیز کے سلسلے میں اقدامات صرف بڑے شہروں کے پوش علاقوں تک ہی محدود رہے۔ نیم متوسط اور غریب علاقوں میں کورونا ایس او پیز پر زیادہ عملدرآمد نہ ہو سکا۔ ان علاقوں میں زیادہ تر ملازم پیشہ لوگ تھے یا دیہاڑی دار مزدور طبقہ۔ کورونا مرض کے اعتبار سے اس قدر ہلاکت خیز نہیں تھا جتنا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا‘ لیکن معاشی اعتبار سے ملک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جن طبقات کے پاس وسائل تھے، ٹیکنالوجی تھی ان کے لئے مواقع میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں کورونا کے کم پھیلاؤ کی وجہ سے دنیا بھر سے خریداروں نے انڈیا یا بنگلہ دیش کی نسبت پاکستان سے رابطہ کیا۔ صنعت کا پہیہ چلا ہے۔ طویل عرصے کے بعد پہلی بار ملک میں کپڑے کی صنعت 24 گھنٹے کی شفٹ میں کام کر رہی ہے۔ کاروں کی صنعت بھی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ کمپنیوں کو پورے سال کے آرڈر مل چکے ہیں۔ حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں جو رعایتیں دے رکھی ہیں اس کا فائدہ بھی بڑے انویسٹرز کو ہورہا ہے۔ حکومت نے اب تک جو بھی پالیسی بنائی ہے اس کا زیادہ فائدہ ان طبقات کو ہو رہا ہے جو پہلے سے وسائل یافتہ ہیں۔ حکومت اب تک ان پالیسیوں کے ثمرات نچلی سطح پر منتقل کرنے کی واضح حکمت عملی بنانے سے قاصر نظر آتی ہے۔
دوسری جانب کورونا کی پہلی لہر سے عام غیر سرکاری ملازمین اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لاکھوں خاندان بے روزگاری، غربت اور تباہ کن مہنگائی کا شکار ہوئے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں میں ایک کروڑ سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے نہایت غریب افراد کی احساس پروگرام کے تحت ایک مرتبہ مدد کی‘ ان کے لئے لنگر خانے کھولے‘ لیکن یہ اقدامات زیادہ تر بڑے شہروں تک محدود ہیں۔ سفید پوش طبقے کے لئے کوئی واضح اور جامع پروگرام سامنے نہیں لایا جا سکا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو لنگر خانے سے لائن میں لگ کر روٹی نہیں مانگ سکتا‘ اور نہ ہی احساس پروگرام کے تحت 12 ہزار کی امداد کا مستحق تھا۔ ملک میں درمیانے درجے کا کاروباری اور متوسط طبقہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔ ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اگر ان لوگوں کے حالات صحیح طرح سے معلوم کئے جائیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس وقت کورونا سے متاثرہ مظلوم کوئی ہے تو وہ یہ سفید پوش طبقہ ہے۔ ان میں اکثریتی لوگ بے روزگار ہیں یا ان کے کاروبار بند ہو گئے ہیں ۔ جن کے روزگار بچ گئے ہیں وہ کورونا کی آڑ میں تنخواہوں میں کٹوتیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ کورونا کو لے کر صنعت کار اور بزنس مین طبقے نے حکومتی رعایتوں اور دی گئی سہولیات سے فائدہ تو اٹھایا لیکن اس فائدے کو نچلی سطح تک منتقل نہیں کیا۔ کمزور ریاستی نظام متوسط طبقات کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ متوسط طبقے کے ووٹ سے ہی مسند اقتدار تک پہنچے ہیں۔ ان طبقات کی امیدیں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں۔ انصاف، روزگار، خوش حالی، اپنا گھر، ایک تعلیمی نظام، بہترین صحت کی سہولتیں اور جانے کیا کیا خواب تھے جو کرچی کرچی ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا آدھا وقت گزر چکا ہے‘ تا حال ملکی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے اور درمیانے طبقے کو ریلیف دینے کا واضح میکنزم سامنے نہیں آ سکا۔ ایسا لگتا ہے کہ باقی وقت بھی طفل تسلیوں میں ہی گزر جائے گا؛ البتہ کورونا کی دوسری لہر کو حکومت نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ اپوزیشن کی تحریک کا ناکام بنانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ کورونا ایس او پیز کا سب سے زیادہ اطلاق پی ڈی ایم کے اجتماعات پر ہوا۔ سیاسی قیادت پر مقدمات بنائے گئے یا پھر بعض تعلیمی اداروں پر ان ایس او پیز کا اطلاق رہا۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران جو کہ تاحال جاری ہے عوامی مقامات اور بازاروں وغیرہ پر حکومت نے نرم پالیسی اختیار کئے رکھی ہے۔
بظاہر تو کورونا متاثرین کی تعدادمیں کمی آرہی ہے‘ لیکن یاد رکھیں خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ کورونا کی دوسری لہر پہلی لہر سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس بار وائرس یورپین ہے اور زیادہ طاقت ور ہو چکا ہے۔ اوپر سے موسم کا تغیر و تبدل، دن میں گرمی اور رات کو سردی ہوتی ہے۔ 15 فروری کے بعد چلنے والی ہواؤں کے باعث الرجی سیزن کا آغاز ہو جائے گا۔ اگر احتیاط نہ کی گئی تو یہ موسم سکڑتے ہوئے کورونا کے دوبارہ پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب کورونا میں وہ پہلے والا دم خم نہیں رہا۔ رہنے دیں جی‘ اب کورونا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اوپر سے میڈیا میں ویکسین آنے کی خبروں نے لوگوں کو بالکل بے فکر بنا دیا ہے‘ حالانکہ ابھی صرف 5 لاکھ ویکسین کی امدادی کھیپ پہنچی ہے جو یقینی طور پر اوپر اوپر ہی تقسیم ہو جائے گی۔ 22 کروڑ لوگوں کو ویکسین لگنے میں بہت وقت لگے گا۔ ابھی تو اس ویکسین کے اصل اثرات سامنے آنا باقی ہیں کہ یہ کتنی کارگر ہے۔ یہ بھی طے نہیں ہوا کہ جو لوگ کسی بھی الرجی کے مرض کا شکار ہیں انہیں یہ ویکسین لگ بھی سکتی ہے یا نہیں‘ لہٰذا ابھی کورونا کو ایزی نہ لیں۔ ہمیں اپنا امیون سسٹم یعنی قوت مدافعت مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے زیادہ احتیاط کریں، ہاتھ ملانے، گلے ملنے سے گریز کریں۔ 6 فٹ کا فاصلہ، ماسک، دستانے ضرورت کے مطابق استعمال میں لائیں۔ قہوہ، موسمی پھلوں، یخنی اور بھاپ کو روزانہ کا معمول بنائیں۔ یاد رکھیں کہ یہ موسم سخت احتیاط کا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی آپ کو بیمار کر سکتی ہے۔ جیسے ہی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے کورونا کے حملہ آور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن ان سب احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے لئے وسائل درکار ہیں۔ ایک طرف کورونا کا خطرہ ابھی پوری طرح نہیں ٹلا‘ دوسری جانب حکومت کی کمزور معاشی پالیسیوں نے ملک کے بڑی آبادی کو کورونا کی طرح جکڑ رکھا ہے۔ عام انسان کے آگے کھائی ہے تو پیچھے آگ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طبقے کو کورونا اور معاشی بد حالی سے بچانے کی فکر کرے جس نے اسے ووٹ دے کر مسند اقتدار تک پہنچایا ہے۔