ہمارے ہاں پولیٹکل پولرائزیشن کی اصطلاح زیادہ رائج ہے، اس سے ہم سیاسی انتشار اور معاشی عدمِ استحکام مراد لیتے ہیں، لیکن امریکا سماجی شکست وریخت سے دوچار ہے۔ سماج کی داخلی تہوں میں یہ ارتعاش پہلے سے موجود تھا لیکن ٹرمپ کا عہدِ صدارت اور گزشتہ دو صدارتی انتخابی مہمات اسے بالائی سطح پر لے آئیں۔ ریپبلکن اور ڈیمو کریٹس محض دو سیاسی جماعتیں نہیں ہیں بلکہ ان میں نظریاتی تفاوت ہے۔ ریپبلکن قدامت پسند ہیں، کسی حد تک نسلی اور مذہبی تعصب بھی ان میں موجود ہے، اسقاطِ حمل اور LGBT گروپوں کو نوازنے کے خلاف ہیں جبکہ ڈیموکریٹس سوشل الٹرا لبرل سیکولر ہیں۔ ٹرمپ نے ریپبلکن کے باغیانہ جذبات کو زبان دی، ان میں سفید فام نسلی عصبیت کو ابھارا اور 2020ء کے صدارتی انتخاب میں شکست کے باوجود سات کروڑ بیالیس لاکھ ووٹ لیے؛ چنانچہ بائیڈن کی صدارتی فتح پر ٹرمپ کے ایک شیدائی نے ٹویٹ کیا: ''تمہیں 75 ملین لوگوں نے ردّ کیا ہے‘‘۔
عام طور پر نومنتخب صدر حلف اٹھانے کے بعد کانگریس اور اس کے توسط سے پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی معاشی پالیسی واضح کرتا ہے، داخلی اور خارجہ پالیسی کے اہم نکات پر روشنی ڈالتا ہے، اپنی ترجیحات کی بابت قوم کو بتاتا ہے لیکن حلف اٹھانے کے بعد کانگریس اور پوری قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پہلے سٹیٹ آف دا یونین ایڈریس میں بائیڈن کو سارا زور قومی وحدت، جمہوریت کی تقدیس، داخلی انتشار اور آئین کی بالا دستی پر لگانا پڑا۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر شدت پسندی، انتہا پسندی، دہشت گردی اورنفرت انگیزی کے فتوے لگتے رہے۔ ہمیں تحمل وبرداشت، رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی اور تکثیریت کے درس دیے جاتے رہے۔ تکثیریت سے مراد معاشرے میں لسانی، نسلی، مذہبی اور قومی تنوّع کو قبول کرنا اور اس کی گنجائش نکالنا ہے۔ اپنی اقدار کے فروغ کے لیے اپنی پروردہ این جی اوز پر کروڑہا ڈالروں کی نوازشات کی جاتی رہیں، پاکستان کے دینی مدارس وجامعات ان کا مرکزی ہدف تھے، مگر ذرا غورکیجیے! بائیڈن نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''جن دشمنوں کا ہمیں سامنا ہے اور ان سے متحد ہوکر لڑنا ہے، وہ یہ ہیں ''غیظ وغضب، ناراضی، نفرت، انتہا پسندی، لاقانونیت، تشدد، بیماری، بیروزگاری اور مایوسی ومحرومی‘‘۔ اتحاد کے ذریعے ہم بڑے بڑے اور اہم کام کرسکتے ہیں، ہم بھٹکے ہوئوں کو راہِ راست پر لا سکتے ہیں، ہم لوگوں کو بہتر روزگار دے سکتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو محفوظ سکولوں میں تعلیم دے سکتے ہیں، ہم مہلک وائرس پر قابو پا سکتے ہیں، ہم محنت کا اچھا پھل دے سکتے ہیں، ہم مڈل کلاس کی تعمیرِ نو کرسکتے ہیں اور سب کو بہتر صحت کی ضمانت دے سکتے ہیں، ہم مختلف النوع نسلوں کو انصاف دے سکتے ہیں اور ہم ایک بار پھر خیر کے فروغ کے لیے امریکا کو دنیا کا قائد بنا سکتے ہیں‘‘۔
غور فرمائیں! جو فتوے ہم پر لگتے تھے‘ جو خرابیاں اور ناکردہ گناہ ہمارے سر تھوپ دیے جاتے تھے، اب امریکی معاشرہ خود ان کی آگ میں جل رہا ہے۔ حالانکہ امریکیوں نے اپنے آپ کو پوِتر سمجھ رکھا تھا اور خود کو حق وباطل کا معیار قرار دیتے تھے۔
بائیڈن نے داخلی تضادات اور تصادم کے بارے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ''میں جانتا ہوں موجودہ ماحول میں قومی وحدت کی بات کرنا بعض لوگوں کے نزدیک ایک احمقانہ اور تخیلاتی بات ہو گی، مجھے اعتراف ہے کہ ہمیں تقسیم کرنے والی قوتیں نہایت گہری ہیں اور وہ ایک حقیقت ہیں، مگر میں یہ بھی جانتا ہوں وہ نئی نہیں ہیں۔ ہماری تاریخ امریکی آئیڈیل کے لیے مسلسل جدوجہد کا نام ہے کہ ہم سب برابر پیدا کیے گئے ہیں، سب سے ناپسندیدہ اور بدنما حقیقت نسل پرستی، قوم پرستی، خوف اورشیطنت ہے، جنہوں نے ہماری وحدت میں شگاف ڈالا ہے، یہ جنگ دائمی ہے اور فتح یقینی نہیں ہے‘‘۔
گویا بائیڈن یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امریکی سماج میں داخلی شکست وریخت اس حد تک نفوذ کر گئی ہے کہ بعض انتہا پسند لوگوں کے نزدیک قومی وحدت کی بات کرنا حماقت اور دیوانے کا خواب ہو گا، محض تخیل ہوگا، حقیقت نہیں۔ بائیڈن تسلیم کرتے ہیں کہ امریکا نسل پرستی، قوم پرستی، خوف اور ابلیس کی پیدا کردہ منافرت میں مبتلا ہے، امریکی وحدت میں شگاف پڑگیا ہے اور وہ اُسے پاٹنے اور پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بائیڈن نے مزید کہا: ''آئیے! آج ہم اس وقت اسی مقام سے نئی شروعات کریں، آئیے! ہم ایک دوسرے کو سنیں، ایک دوسرے کو عزت دیں، ایک دوسرے سے ملیں، سیاست کامعنی یہ نہیں ہے کہ ہم نفرت کے شعلے بھڑکائیں، اس کی خاطر سب کچھ تباہ کر ڈالیں، کسی بھی اختلافِ رائے کا مطلب مکمل جنگ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ایسی تہذیب کو ردّ کر دینا چاہیے جس میں حقائق میں ہیرا پھیری کی جائے یا ناحق کو ملمع کاری سے حقیقت بنا کر پیش کیا جائے‘‘۔ ان کلمات میں بھی یہ اعتراف ہے کہ امریکا میں نفرت اور نسلی عصبیت اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سننے اور ایک دوسرے کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اختلافِ رائے کو جنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، ہیرا پھیری کر کے حقائق کو بدل دیا گیا ہے۔
بائیڈن نے امریکی قوم کی مایوسی اور مورال کے گرنے کے متعلق کہا: ''میں جانتا ہوں کہ بہت سارے امریکی ہم وطن مستقبل کو خوف اور شک وشبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مجھے پتا ہے وہ اپنی ملازمتوں کے حوالے سے اندیشوں کا شکار ہیں، وہ میرے والد کی طرح رات کو بستر پر لیٹ کر چھت کو تکتے ہیں اور سوچتے ہیں: ''کیا میں اپنی صحت کا خیال رکھ سکوں گا، کیا میں اپنے گھر کی قسط ادا کر سکوں گا‘‘، وہ اپنے خاندانوں کے بارے میں فکرمند ہیں اور سوچتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے‘‘۔ بائیڈن اپنی قوم کو مستقبل کی نوید سناتے ہیں، لیکن ان الفاظ سے امریکی قوم کے گرے ہوئے مورال اور ان پر مستقبل کے حوالے سے طاری خوف کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا: ''صدیوں پہلے میرے چرچ کے سینٹ آگسٹائن نے کہا: لوگ ایک ہجوم ہوتے ہیں، مشترکہ مقصد اور اس سے محبت انہیں جوڑتی ہے، ہمارے مشترکہ اہداف جن سے ہم امریکیوں کو محبت ہے، میرے نزدیک یہ ہیں: ''مواقع کا حصول، سلامتی، آزادی، وقار، باہمی اکرام واحترام اور صداقت‘‘۔ انہوں نے کہا: ''برادرانِ وطن! یہ آزمائش کا وقت ہے، ہماری جمہوریت اور صداقت پر حملہ کیا گیا ہے، یہ ایک نفرت انگیز وائرس ہے جو عدم مساوات پھیلا رہا ہے، ایک منظّم نسل پرستی ہمیں ڈس رہی ہے، بحرانی ماحول ہے، دنیا میں امریکی کردار کو خطرہ ہے، ان خرابیوں میں سے ہر ایک ہمارے لیے ایک بھرپور چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں بیک وقت ان ساری خرابیوں کا سامنا ہے، ان مشکل حالات میں ہمیں اپنی قوم کوذمہ دار اورمرکزیت پسند بنانا ہے، اب ہماری آزمائش ہونے جارہی ہے، کیا ہم سب مل کر بلندیوں کی جانب قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں، یہ جرأت دکھانے کا وقت ہے، ہمیں بہت کچھ کرنا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے، میں وعدہ کرتا ہوں: مجھے اور آپ کو جانچا جائے گا کہ ہم مل کر اپنے عہد کے اس ابھرتے ہوئے بحران کو کیسے حل کرتے ہیں‘‘۔
امریکا کے نومنتخب صدر بائیڈن نے کانگریس اور قوم سے یہ خطاب 20 جنوری 2021ء کو اپنا صدارتی حلف اٹھانے کے فوراً بعد ایک ایسے وقت میں کیا جب وائٹ ہائوس، اوول آفس، کیپٹل ہل، الغرض پورا دارالحکومت واشنگٹن سکیورٹی فورسز کے حصار میں تھا، حتیٰ کہ کانگریس کے اراکین کو کئی مراحل کی سکیورٹی سے گزرکر ایوان میں جانا پڑا، سکیورٹی کو نادیدہ اور دیدہ خطرات لاحق تھے اور یہ امریکا کی تاریخ میں ایک منفرد تجربہ تھا۔ امریکی مسلّح افواج اور نیشنل گارڈز کے بیس ہزار جوان سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور تھے، کیپٹل ہل پر 6 جنوری2021ء کے حملے نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ امریکا‘ جس نے اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی سلامتی کو لاحق موہوم خطرات سے نمٹنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر دور افغانستان، شرقِ اوسط، یورپ، کوریا، سمندروں اور دور دراز مقامات پر اپنی افواج کو متعین کر رکھا ہے‘ اب اپنے دارالحکومت کے قلب میں ایوانِ صدر اور کانگریس کے ایوان اور دفاتر کو غیر محفوظ سمجھ رہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ توسیع پسندی کی خواہش نے امریکا کو داخلی حقائق سے بے خبر کر رکھا تھا۔ 6 جنوری کو ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں نے انہیں آئینہ دکھایا۔ اب معلوم ہوا کہ جن خرابیوں کا الزام واتّہام اور بہتان وہ دوسروں پر لگارہے تھے‘ وہ خود اُن کی صفوں میں پنپ رہی تھیں۔ بائیڈن نے تسلیم کیا کہ وہ ایک حقیقت ہیں، ان کی جڑیں گہری ہیں، وہ پوری قوم کے لیے ایک حقیقی چیلنج ہیں اور ان میں سے ایک ایک خرابی ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے، مگر بائیڈن کے بقول لمحۂ موجود میں یہ تمام چیلنج یکجا ہو چکے ہیں۔
ماضی میں امریکی سی آئی اے مختلف ممالک میں مذہب، زبان اور رنگ ونسل کی بنیاد پر قوموں کی عصبیتوں کو ابھار کر انتشار پیدا کرتی رہی ہے، حکومتوں کو گراتی رہی ہے، من پسند لوگوں کو مسندِ اقتدار پر فائز کرنے کے لیے سازشوں کا جال بچھاتی رہی ہے، ایسٹ تیمور اور سوڈان میں یہی کچھ کیا گیا، جو آگ وہ دوسروں کے گھروں کو بھسم کرنے کے لیے بھڑکاتے تھے، اب اس کے شعلے ان کے اپنے گھر میں بلند ہونے لگے ہیں، یہ مکافاتِ عمل ہے، قانونِ فطرت ہے، ایک صورتِ تعزیر ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کہا ہے:
تمیز بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ گزشتہ منگل کو امریکی سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک منظور ہو چکی ہے اور اب یہ کارروائی آگے چلے گی۔ اس تحریک کے حق میں 56 اور مخالفت میں 44 ووٹ آئے، یعنی 6 ریپبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا ہے، لیکن کیپٹل ہل پر باغیانہ حملے کے باوجود 44 ریپبلکن سینیٹرز نے اپنی جماعتی وابستگی کو قائم رکھا اور ٹرمپ کے مواخذے کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب امریکیوں کی ایک معتَدبہ تعداد کے نزدیک گروہی عصبیت آئین و قانون کی بالادستی پر فوقیت رکھتی ہے۔