تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     11-02-2021

افغان امن معاہدہ ختم ہو جائے گا؟

وائٹ ہاوس کی نئی انتظامیہ سابق صدر ٹرمپ کی مڈل ایسٹ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کے بعد اب طالبان‘ امریکا امن معاہدے پہ نظرثانی کا اختیار استعمال کرنے کی پالیسی اپناتی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اب افغان تنازع کا کوئی ایسا حل نکالنا چاہتے ہیں جس کے ذریعے یہاں طالبان ریاست کے قیا م کو روکا جا سکے لیکن امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ افغانستان میں اب وسیع تر قومی جمہوری ریاست کی تشکیل کا ہدف حاصل نہیں کر پائیں گے۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ افغان تنازع کو زیادہ گنجلک بنا کے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟تاہم طالبان کی امارات کے طلوع کو روکنے کے لئے امریکا کا یہاں قیام غیر معینہ مدت تک بڑھانے کا مطلب افغانوں کو تشدد کے نئے رجحانات کی طرف دھکیلنا ہو سکتا ہے۔ امریکا اور نیٹو کمانڈرز نے انخلا کے لئے مئی 2021ء کی متعین تاریخ کے بعد اگر فوجیں یہاں روکے رکھنے کا فیصلہ کیا‘جیسا کہ حالیہ اطلاعات سے اشارہ ملا ہے‘ تو اس کے نتیجے میں وہ دوحہ امن معاہدہ سبوتاژ ہو سکتا ہے جو غیر ملکی فورسز کے یہاں سے پُرامن انخلا کی ضمانت دیتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ یہ بھی کہتی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی طرف سے مقرر کردہ انخلا کے نظام الاوقات کی پاسداری کرے گی؛ تاہم موجودہ شکل میں ان کے لئے دوحہ معاہدے کو قبول کرنا دشوار ہو گا۔ افغانستان میں ایک فاتح گروہ کی طرف سے حکومت کا قیام مغرب کے عالمی سیاسی بیانیے کی ساکھ کو برباد کر ڈالے گا اور یہی پیش دستی مڈل ایسٹ کے مستقبل کو متعین کرنے والے امریکی منصوبوں پہ بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ ادھر پنٹاگون کے ترجمان جان کربی کے اس بیان کہ ''طالبان نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا‘‘ سے امریکی فورسز کے انخلا کے بارے گہرے شکوک وشبہات ابھر رہے ہیں۔ امریکی کہتے ہیں کہ امن معاہدے کے تحت غیر ملکی فورسز کا انخلا القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ طالبان کو قطع تعلق اور افغان سرزمین پر ان کی سرگرمیوں کے مکمل خاتمہ سے مشروط تھا۔ اقوام متحدہ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا کہ طالبان نے امریکی مذاکرات کاروں سے القاعدہ سے قطع تعلق کے علاوہ بین الاقوامی افواج، بڑے افغان شہروں اور کچھ دیگر اہداف پر حملے نہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھا‘ وہ پورا نہیں ہوا۔
دوسری طرف امریکی یہ بھی جانتے ہیں کہ مئی کے مہینے میں غیرملکی فوجوں کے مکمل انخلا کے بعد یہاں طاقت کا توازن یکسر بدل جائے گا،جس سے خلیج فارس کی مڈل ایسٹ میں پھیلی پراکسی جنگوںکا ارتکاز متاثر ہو گا جو مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔ فی الوقت افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی نے متحارب فریقوں کے مابین ایک قسم کے دفاعی توازن قائم رکھا ہوا ہے؛ اگرچہ امریکا نے اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ محدودکر دیا ہے لیکن اس کی یہاں عملی موجودگی طالبان کو برسرزمین طاقت کے توازن کو اپنے حق میں جھکانے میں مانع ہے۔ جس دن امریکی فورسز یہاں سے نکلیں گی‘ اسی روز طاقت کا پلڑا طالبان کی حق میں جھک جائے گاجس سے جنوبی ایشیائی ممالک کے تزویراتی اہداف بھی تبدیل ہو جائیں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ میں بڑے پیمانے پر امریکی فضائی حملوں کی بندش کے بعد طالبان جنگجوئوں نے اہم شاہراہوں پر قبضہ کر کے افغان فورسز کو شہری مراکز یا پھر بڑی فوجی چھائونیوں کے اندر دھکیل دیا ہے بلکہ کئی ناقابل تسخیر علاقوں تک طالبان کی رسائی نے ان کے اندر اِس اعتماد کو تقویت پہنچائی ہے کہ اسی طرح کی جارحانہ کارروائیوں کے ذریعے وہ صرف چند دنوں میں افغان سکیورٹی فورسز کو زیر کر سکتے ہیں۔
اس پیچیدہ جدلیات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جب تک فریقین کے مابین کوئی سیاسی سمجھوتا ہو نہیں جاتا،اس وقت تک افغان حکومت اور طالبان‘ دونوں،چھوٹے دہشت گردگروپوں کی شکل میں ابھرتے ہوئے خطرات کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ داعش جیسے کئی سخت گیر مسلح گروہ ملک میں پیدا ہونے والے سکیورٹی خلا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہی گروہ ممکنہ طور پر پڑوسی ممالک میں کارروائیوں کے ذریعے دوحہ امن معاہدے کے مقاصد کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتے ہیں کیونکہ بدیہی طور پہ ایسی کارروائیوں سے یہی مطلب لیا جائے گا کہ طالبان اُن غیر ملکی مسلح گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں جن سے لاتعلقی کا عہد انہوں نے دوحہ معاہدے میں کیا تھا ۔ ہمارے خیال میں یہی وہ دراڑ ہے امریکی جسے بڑھانے کی کوشش کر کے افغانستان کو کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ 1989ء میں روسی فوج کے افغانستان سے انخلا کے دوران ابھرنے والی شورش کی آگ میں جس طرح افغان مجاہدین کی کامیابیوں کو جلا کے خاکستر کیا گیا تھا‘ اسی طرح نئی امریکی انتظامیہ چھوٹے دہشت گرد گروہوں کی باہمی کشمکش کی آگ میں طالبان کی فتوحات کو سلگتا دیکھنے کے متمنی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مئی میں فوجی انخلا ممکنہ طور پر افغان گورنمنٹ کے خاتمے اور خانہ جنگی کی تجدید کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکا کے جنگی ماہرین کہتے ہیں ''اٹھارہ ماہ سے تین سال کے اندر اندر پیچھے ہٹنے کی صورت میں امریکا کو دہشت گردی کے خطرات کا دوبارہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘ انہی خطرات کے پیش نظر بائیڈن انتظامیہ انخلا کی تاریخ میں توسیع کے لئے طالبان کو قائل کرنے کے علاوہ چین، ایران، پاکستان، قطر، روس اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے بھی طالبان پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر طالبان معاہدے میں توسیع پر راضی نہیں ہوتے تو بائیڈن انتظامیہ افغان گورنمنٹ کو خاتمے کے لئے چھوڑ دے گی؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تک امریکی فورسز یہاں موجود ہیں‘ اس وقت تک طالبان بڑے شہری مراکز کے علاوہ حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں تشدد کو بڑھاوا دینے کی حکمت عملی کو جاری رکھیں گے۔ طالبان کے جارحانہ حملوں میں وسعت کی بدولت افغانستان میں گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں رواں سہ ماہی میں تشدد کے رجحان میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے دسمبر 2020ء میں افغانستان میں حملوں کی جو نئی لہر اٹھائی تھی‘ اس میں شمالی بغلان اور جنوبی ارزگان میں دو روز کے مختصر عرصے میں افغان سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 19 افرادہلاک ہو گئے۔ افغانستان میں نیٹو کے زیر قیادت مشن میں‘ گزشتہ سال یکم اکتوبر سے 31 دسمبر تک کے تین مہینوں میں 810 شہریوں کی ہلاکت اور 1776 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ملی ہیں لیکن رواں سہ ماہی میں سخت موسم کے باوجود شہریوں کی ہلاکتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ افغان سکیورٹی فورسز پہ امریکا ہر سال تقریبا پونے پانچ بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے گزشتہ ہفتے اپنے افغان ہم منصب کو فون پر یقین دہانی کرائی کہ نئی امریکی انتظامیہ دوحہ معاہدے کا ازسر نو ''جائزہ‘‘ لے گی، دوسری جانب پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکامعاہدے کے تحت فوجیوں کی مکمل واپسی کے لئے پُر عزم ہے لیکن طالبان سے مطالبہ ہے کہ معاہدے کی رو سے القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ پُر تشدد کارروائیوں کی تعداد کم کرے۔ امریکی فضائیہ نے 2020ء کی آخری سہ ماہی میں افغان سکیورٹی فورسز کو مدد فراہم کرنے کی خاطر فضائی حملوں میں کچھ اضافہ کیا؛ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے امن معاہدے پر دستخط کے بعد سے طالبان کے خلاف جارحانہ حملے بند کردیے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ یکم مئی تک طے شدہ فوجی انخلا روکنے کے لئے امن معاہدے سے دستبرداری کے لئے طالبان کی مبینہ خلاف ورزیوں کو جواز بناتی ہے یا پھر افغان حکومت کے امن مذاکرات میں طالبان کی خلاف ورزیوں اور تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان سے انخلا کی آخری تاریخ میں توسیع کے لئے کہتی ہے؛ تاہم طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ معاہدے کے مطابق اگر یکم مئی تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نہ نکلیں تو وہ امن عمل سے دستبردار ہو کے غیر ملکی افواج کے خلاف دوبارہ کارروائیاں شروع کر دیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved