تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-02-2021

سبھی کچھ مشروط ہے مطالعے سے

کوئی بھی چیز اپنی اصل میں جو کچھ ہوتی ہے‘ وہی رہتی ہے۔ اس کے بارے میں ہمارا ادراک بدلتا رہتا ہے۔ ادراک کی تبدیلی تناظر کے بدلنے سے رونما ہوتی ہے۔ ہر چیز کو ہم ایک خاص سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھتے ہیں تو اُس کے بارے میں تصور بھی بدل جاتا ہے اور تاثر بھی۔ وقت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دوسرے بہت سے معاملات کے مقابلے میں وقت کے حوالے سے ہمارا تصور اور تاثر بہت زیادہ بدلتا رہتا ہے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان نے کسی بھی مرحلے پر پیشرفت روکی نہیں ہے۔ ہزاروں سال سے فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت یقینی بنانے کا عمل جاری تھا اور اب اِس عمل نے عقل کو مستقل حیرت سے دوچار رکھنے والی کیفیت اختیار کرلی ہے۔ میرزا نوشہ سے استفادہ کرتے ہوئے بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ؎
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مگر ہم اس معاملے میں انوکھے نہیں۔ ہر معاشرے کی سب سے بڑی الجھن ہے وقت کو سمجھنا، اُس کی قدر و قیمت کا احساس بیدار رکھنا اور ایک ایک پل سے بھرپور استفادہ کرنا۔ جو اس مرحلے میں ناکام رہا‘ وہ ناکام ہی رہا۔ اگر ہم یہ سوچنے پر مائل ہوں کہ انسان کو حقیقی کامیابی کس چیز سے ملتی ہے تو غور کرنے پر اندازہ ہوگا کہ کامیابی کی طرف تیزی سے وہی بڑھتے ہیں جو ماحول سے مطابقت بھی پیدا کرتے ہیں اور اُس میں تبدیلی لانے کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں۔ ماحول کو سمجھنے اور اُسے بدلنے کے لیے سیکھنے پر مائل ہونا لازم ہے۔ سیکھنے کی کئی صورتیں‘ کئی ذرائع ہیں۔ ایک اچھی صورت یہ ہے کہ انسان کسی کے آگے زانوئے تلمّذ تہ کرے۔ دوسری اچھی صورت یہ ہے کہ جو کچھ دوسروں نے سوچا، لکھا اور کیا ہے اُس تک رسائی پائے۔ بڑوں کے انٹرویوز سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ بڑوں کی تحریریں پڑھنے سے بھی ذہن وسعت اختیار کرتا ہے۔ مختلف ادوار کے انسانوں نے جو کچھ سوچا اور لکھا وہ آج مطبوعہ شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے غیر معمولی شاہکار یعنی انٹرنیٹ کی بدولت لاکھوں کتابیں ہماری دسترس میں ہیں۔ اِن کتابوں میں علوم کا خزانہ ہے جو بے نقاب کیے جانے اور ہمارے کام آنے کے لیے بے تاب ہے۔ یہ یاد رہے کہ کنواں چل کر کسی کے پاس نہیںجاتا، پیاسوں کو کنویں کے پاس جانا پڑتا ہے یعنی مطالعہ خواہش کو عملی شکل دینے کی شعوری کوشش کا نام ہے۔
مغرب اور دیگر خطوں میں جس نے بھی ترقی کی ہے اُس نے سیکھنے کا عمل جاری رکھنے کو ہر حال میں ترجیح دی ہے۔ کتب بینی نے انسان کو وہ سب کچھ دیا ہے جو آج ہمارے سامنے بکھرا ہوا ہے۔ مطالعہ ایسا وصف ہے جس نے ہر دور میں اپنے اپنانے والے کو دوسروں کے مقابلے میں غیر معمولی رفعت سے ہم کنار کیا ہے۔ آج بھی وہی زیادہ کامیاب بلکہ نمایاں حد تک کامیاب ہیں جو کتب بینی پر یقین رکھتے ہیں۔ آج انسان کو دوسروں کے تجربات اور مشاہدات سے کچھ سیکھنا ہو تو زیادہ مشقّت نہیں کرنا پڑتی۔ ہم جو کچھ بھی پڑھنا چاہیں وہ آسانی سے دستیاب ہے۔ پھر کیا سبب ہے کہ آج کا انسان مطالعے کی طرف مائل نہیں؟ دنیا بھر میں کتب بینی کا رجحان امید افزا حالت میں نہیں۔ لوگ باقاعدگی سے مطالعہ کرنے کو ترجیحات میں شامل نہیں کر رہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں مگر اہم ترین وجہ شاید یہ ہے کہ انسان وقت کی مثالی تقسیم و تنظیم سے بہت دور ہے۔ عام آدمی اس حقیقت کو تاحال خاطر خواہ حد تک سمجھ نہیں پایا کہ اُس کا سب سے بڑا اثاثہ وقت ہے۔ یہ ہاتھ سے گیا تو سمجھیے زندگی ہاتھ سے گئی۔ یہ اثاثہ کسی بھی حال میں ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ اور المیہ یہ ہے کہ وقت کو بہترین طریق سے بروئے کار لانے پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے وقت کی قدر و قیمت کا درست اندازہ لگانے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ وہاں انسان کو خاصی چھوٹی عمر سے بتایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وقت ہی ہے۔ اگر وقت کا ضیاع نہ روکا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ وقت کی قدر و قیمت کے معاملے میں حسّاسیت کا گراف بلند رہنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ آج ترقی یافتہ معاشروں میں تمام معاملات بطریقِ احسن بروئے کار لانے کے معاملے میں وقت اور محل دونوں کے تال میل کو سمجھنے پر خوب توجہ دی جاتی ہے۔
کسی بھی معاشرے میں آج وہی لوگ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہیں جنہوں نے سیکھنے، بلکہ سیکھتے رہنے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے اور اس حوالے سے مطالعے کو بنیادی ضرورت کا درجہ دیا ہے۔ مطالعے سے انسان میں بالغ نظری پیدا ہوتی ہے، وہ ماحول سے نمایاں مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور یوں بہتر زندگی بسر کرنا آسان ہوتا جاتا ہے۔ فکر و نظر میں بالیدگی و پختگی پیدا کرنے کے لیے مطالعہ چونکہ لازم ہے اس لیے یہ بھی لازم ٹھہرا ہے کہ مطالعے کی منزل سے گزرنے کو آسان سے آسان تر بنانے پر توجہ دی جائے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے اِس معاملے پر خاصی توجہ دی ہے۔ ضخیم کتابوں کا مطالعہ ممکن ہے نہ آسان۔ ایسے میں بڑی کتابوں کے خلاصے تیار کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ تبصرے اور خلاصے کا فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب کوئی صاحبِ رائے کسی کتاب کو پڑھ کر اُس کے بارے میں اپنا تاثر بیان کرتا ہے تو اُسے تبصرہ کہا جاتا ہے۔ تبصرے کو کتاب پر طائرانہ سی نظر کہیے جو مطالعے کے شوقین کو پوری کتاب کے مطالعے کی تحریک دے سکتی ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ تبصرہ نگار بالغ نظر ہو، پوری کتاب کو ڈیڑھ دو ہزار الفاظ میں اِس طور بیان کرے کہ تبصرہ پڑھنے پر پوری کتاب پڑھنے کی ایسی خواہشِ مضطرب پیدا کرے کہ کتاب کے مطالعے ہی سے اضطراب دور ہو۔ جن معاشروں میں مطالعے کا رجحان قوی ہے وہاں اس بات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کہ بچے مطالعے کی طرف مائل ہوں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ یہ مرحلہ بچے کے لیے زیادہ سے زیادہ آسان بنایا جائے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کوئی بھی مشہور کتاب دلنشیں پیرائے میں مختصراً بیان کی جائے تاکہ بچے پڑھنے میں دلچسپی لیں۔ خلاصہ تیار کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پوری کتاب پڑھ کر اُس کا عرق (کوئی بھی اہم نکتہ نظر انداز کیے بغیر) پانچویں یا آٹھویں حصے کے طور پر پیش کیا جائے۔ یہ طریقہ بھی خاصا مقبول رہا ہے؛ تاہم ایک اور طریقہ بھی بچوں کو مطالعے پر مائل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ طریقہ re-told کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وسیع مطالعہ رکھنے والا اور لکھنے میں مہارت کا حامل کوئی شخص کسی عظیم کتاب کو نئے سِرے سے آسان زبان میں لکھے تاکہ کم ذخیرۂ الفاظ رکھنے والے افراد (بالخصوص بچے) آسانی سے پڑھ کر محظوظ ہوں۔
ہمارے ہاں اب تک کتابوں پر تبصروں کی روایت خاصی کمزور ہے۔ تبصرے کے نام پر لوگ مصنف کی حاشیہ برداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بے لاگ تبصرے خال خال ملتے ہیں۔ کتابوں کے خلاصے تیار کرنے اور اُنہیں نئے سِرے سے، آسان پیرائے میں لکھنے کی منزل سے تو خیر ہم بہت دور ہیں۔ سوشل میڈیا کی دلدل میں دھنسی نئی نسل کو مطالعے کی طرف لانے کے لیے لازم ہے کہ اُسے دقیق تحریریں آسان پیرائے میں پیش کی جائیں۔ یہ کام سرکاری سطح پر بھی ہوسکتا ہے مگر یاد رہے کہ ہر معاشرے میں ایسے کام اُن لوگوں نے کیے ہیں جو علم حاصل کرنے اور اُسے منتقل کرنے پر غیر متزلزل یقین رکھتے آئے ہیں۔ یہ خالصتاً ذوق و شوق کا معاملہ ہے۔ علم کی حقیقی خدمت محض تنخواہ یا کسی دوسری شکل کے مالی فائدے کے حصول کی خاطر نہیں کی جاسکتی۔ جو مطالعے کا ذوق و شوق رکھتے ہیں اُن پر معاشرے کا قرض ہے کہ دوسروں کو بھی اور بالخصوص نئی نسل کو مطالعے کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ کام محنت طلب ہے اور اس حوالے سے کی جانے والی محنت ہی اس کا صلہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved