سینیٹ کے انتخابات کس طرح اور کن قواعد اور ضابطوں کے تحت منعقد کرائے جائیں؟ یہ اب معمول کا سوال نہیں رہا۔ عام حالات میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو فکر لاحق ہونی چاہئے تھی کہ ان کے پرندے کہیں زیادہ مقدار میں دانہ دیکھ کر اڑ نہ جائیں‘ لیکن اس وقت تحریکِ انصاف سب سے زیادہ پریشانی کا شکار نظر آتی ہے۔ کہنے کو سب کہتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات شفاف ہونے چاہئیں‘ مگر ماضی میں جس کا بھی دائو چلا‘ اس نے خرید و فروخت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جمہوریت‘ دہائیوں سے جس کی ہم پرورش کرنے کی کوشش میں ہیں‘ انتخابات کے قریب آتے ہی دھان منڈی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اہلِ زر اور مقتدر خاندان پیسہ لگا کر سیاسی جماعتوں کی نامزدگی‘ سربراہ کی حمایت اور اسمبلیوں میں ووٹ حاصل کرتے ہیں‘ اور ہم عوام جنہیں منتخب کر کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی نمائندگی کا فرض سونپتے ہیں‘ وہ اپنی جیبیں گرم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ایک ہی برش سے سب کو ایک ہی رنگ میں رنگنا نا انصافی ہو گی۔ نہ سب بکتے ہیں‘ اور نہ ہی سب دھن کے زور پہ سینیٹ کے اراکین منتخب ہوتے ہیں۔ ہم تو صرف وہی بات دہرا رہے ہیں‘ جو کئی دہائیوں سے ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما کرتے چلے آئے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں اراکین جماعتی صف بندی اور حکم کے مطابق ووٹ نہیں ڈالتے‘ بلکہ سکوں کی چکا چوند سے ڈول جاتے ہیں۔
دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے ذریعے سینیٹ میں متوقع تعداد میں سیٹیں نہ مل سکی تھیں۔ تب اندازے لگائے گئے‘ تحقیق کرائی گئی تو نتیجہ یہ نکلا کہ تحریکِ انصاف کے بیس اراکین متحرک نکلے۔ جماعتی ہدایت سے ہٹ کر ووٹ صرف اور صرف مال پانی بنانے کی غرض سے ڈالے جاتے ہیں۔ سنا ہے بولی بہت اوپر جاتی ہے‘ اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ بکنے والے آئندہ انتخاب کی تیاریوں میں خوب سرمایہ کاری کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ تحریکِ انصاف نے بہت اچھی مثال قائم کی کہ بیس اراکین کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔ کسی اور جماعت نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اب بھی یعنی حکومت میں ہوتے ہوئے بھی تحریکِ انصاف کو خطرہ لاحق ہے کہ کچھ اراکین‘ جن کے بارے میں خبریں کراچی سے پشاور تک کی ہیں‘ فروخت ہو گئے‘ تو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں وہ ناکام رہے گی۔ یہ تاریخی موقع ہے‘ اور اگر تحریکِ انصاف اور اس کے اتحادیوں کی سینیٹ میں اکثریت بن گئی تو قانون سازی اور اصلاحات کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم ملک میں سیاسی استحکام کی بھی توقع رکھ سکتے ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات میں منڈی لگنے کی پُرانی تاریخ ہے۔ یہ بھی کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ماضی میں ہر جماعت سے منہ زور گھوڑے رسیاں تڑوا کر کسی غیر کے احاطے میں جا کھڑے ہوئے‘ مگر جب کبھی بس چلا تو خود بھی منڈی لگا کر بولی میں شامل ہو گئے۔ یہی وہ پس منظر تھا‘ جس کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے ''چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ پر اتفاق کیا‘ تو اس میں سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے دہی سے کھلی رائے دہی میں تبدیل کرنے کا عہد و پیمان بھی باندھا۔ میرے خیال میں اگر اس چارٹر پر عمل کیا جائے‘ اس میں دو جماعتوں کے مفادات سے بالا تر ہو کر کچھ مزید تبدیلیاں متفقہ طور پر کر دی جائیں‘ تو آئین کی روح کا رنگ عملی سیاست پر چڑھایا جا سکتا ہے۔ اب خود ہی اندازہ لگا لیں کہ یہ چارٹر کب ہمارے سامنے آیا تھا اور اب وہی جماعتیں اس بارے میں کیا موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔
اب بھی ہمارے محترم قائدین اس بات پر مصر ہیں کہ وہ انتخابات میں شفافیت چاہتے ہیں۔ پھر کھلی رائے دہی سے انکار کیوں؟ سیاسی راستہ بدلنے کا جواز کیا ہے؟ یہ بات بھی قطعاً درست نہیں کہ ماضی میں اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان بحث و تمحیص یا مکالمہ نہیں ہوا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر ''چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ میں کھلی رائے دہی کے بارے میں شق کیوں موجود ہے؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ چند برس پہلے سینیٹ کے اراکین کی ایک کمیٹی انتخابات میں شفافیت کے بارے میں بنی تھی۔ اس میں سب سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی۔ سب نے اتفاق کیا کہ کھلی رائے دہی سے سینیٹ کے امیدواروں کے لئے ووٹ ڈالے جائیں۔ وہ رپورٹ موجود ہے‘ اور کسی بھی سیاسی جماعت کا نمائندہ انکار نہیں کر سکتا۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ کیوں آئینی ترامیم یا انتخابات کے بارے میں قانون سازی پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا؟ اکثر مبصرین تو اس بات پر اکتفا کر لیتے ہیں کہ نیتوں کا فتور ہے‘ لیکن ارادے خفیہ ہوں یا واضح‘ ان کے پیچھے مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ کھیل تو حکومت اور حزبِ اختلاف‘ دونوں جانب سے کھیلا جا رہا ہے۔ جب سینیٹ کے موجودہ چیئرمین جناب صادق سنجرانی صاحب حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت کے باوجود منتخب ہو گئے تھے‘ تو اس وقت تحریکِ انصاف کی سیاسی قیادت خاموش رہی‘ بلکہ خوشیوں کے شادیانے بجے‘ اور یہ بھی کہا گیا کہ اراکین نے اپنی اپنی جماعتوں کی ہدایت کو اس لئے نظر انداز کیا کہ انہوں نے اپنے ''ضمیر‘‘ کی آواز سن لی۔
بہرحال ہم سب شفافیت کے طالب اور طلب گار ہیں اور عجیب بات ہے کہ جماعتوں کے نمائندے بھی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ شفاف انتخابات کے خلاف نہیں‘ اور اس بات پر کوئی دو آرا نہیں کہ خفیہ رائے دہی میں بہت کچھ خفیہ خفیہ ہی ہو جاتا ہے۔ عوام کے سامنے ہمارے محترم سیاست باز کچھ بھی کہیں‘ مگر موقع مل جائے‘ حالات سازگار ہوں‘ تو ہاتھ پائوں مار کر دھاندلی کر لینے کو معیوب خیال نہیں فرماتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو خوشی سے بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اس وقت حکومت کا ساتھ اس لئے نہیں دے رہیں کہ ان میں کچھ کے پاس منڈی میں بولی لگانے کے لئے سرمائے کے خفیہ پہاڑ ہیں۔ کچھ پھینک کر ناکوں چنے چبوانے پر مجبور کر سکتے ہیں‘ تو وہ کیوں ایسا نہیں کریں گے؟ کون سی اخلاقیات‘ قانون یا سچائی؟ سب کچھ وقت کے تقاضوں کے ساتھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ صرف اس وقت نہیں‘ بلکہ تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد پہلے دن سے ہی حزبِ اختلاف نے اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ اس سیاسی جنگ میں دیکھتے ہیں‘ کون آخر کار سرخرو ہوتا ہے‘ لیکن عوام اور معیشت کا حال ابتر سے ابتر ہی آپ دیکھیں گے۔ سیاسی اور سماجی استحکام کے بغیر کسی ملک نے ترقی کی ہے‘ اور نہ یہ ممکن ہے۔ کپتان صاحب درست کہتے کہ جب تک وہ احتساب پر سمجھوتہ نہیں کرتے‘ حزبِ اختلاف کے گماشتوں کی زبانوں سے آگ کے شعلے برستے رہیں گے‘ پھر ان کو بھی ترکی بہ ترکی جواب دینا ہو گا‘ اور ہم اس شور و غل میں مہ و سال گزارتے رہیں گے۔
یہ نا چیز تو کھلی رائے دہی کے حق میں ہے‘ ہر صورت میں اسے یقینی بنانے کی ضرورت ہے‘ تا کہ سیاست میں اراکین کی خرید و فروخت کا گھنائونا دھندا بند ہو‘ سینیٹ میں معقول لوگ منتخب ہوں اور سیاسی جماعتوں میں بھی استحکام رہے۔ صدارتی آرڈیننس تو آ چکا‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے کہ قانون میں تبدیلی کافی ہے یا آئینی ترمیم لانا ضروری ہو گی۔ قومی سیاسی ماحول اس وقت سیاسی رواداری‘ باہمی تعاون یا جمہوری روایات کا مظہر نہیں‘ تنائو‘ کشیدگی اور سیاسی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری جمہوریت کو نام نہاد جمہوریت پسندوں سے بچائے!