تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     12-02-2021

اوپن ووٹنگ کا معاملہ

جمہوریت کسی ملک میں حکمرانی قائم کرنے کے ایک مخصوص طریقے کو کہتے ہیں‘ جہاں پہ لوگ قوم اور ملک کے لئے فیصلے کرنے کا اختیار، اپنے جیسے چند دوسرے ہم وطنوں کے حوالے کر سکیں۔ دوسرے لفظوں میں ملک اور قوم کے لئے سٹریٹیجک فیصلے کرنے کا اختیار کچھ مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں دئیے جانے کے پراسیس کو جمہوری عمل کہا جاتا ہے۔ جو لوگ اس پراسیس میں لوگوں کی اکثریت کی طرف سے چُنے جاتے ہیں، وہ پبلک آفس ہولڈر کہلاتے ہیں، یعنی عوامی نمائندے۔ مشرق میں جمہوریت کی سب سے آسان اور سمجھ میں آنے والی تعریف مفکّر پاکستان حضرت علامہ اقبال نے یوں کر رکھی ہے:؎
جمہوریت وہ طر ز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے!
یونان کے عظیم سیاسی مفکر Herodotus نے جمہوریت کا مفہوم حضرت اقبال سے صدیوں پہلے ان لفظوں میں بیان کیا تھا‘ ''جمہوریت ایک ایسی حکومت کو کہتے ہیں، جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہو جاتے ہیں‘‘۔ اس طرزِ حکومت، یعنی جمہوریت کی تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں گورننس کی دنیا میں موجود رہی ہیں۔ ان میں سے پہلے طرز حکمرانی کو ڈائریکٹ ڈیموکریسی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے بلاواسطہ جمہوریت۔ عام طور پر اسے وَن مین وَن ووٹ کا نظام سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ کبھی الیکشن میں اور کبھی کسی نیشنل ایشو پر ریفرنڈم کے ذریعے سے۔ 1973 کے پاکستانی آئین میں یہ دونوں طریقے موجود ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 226 میں سیکرٹ بیلٹ اور اوپن، یعنی قابل شناخت ووٹ کا طریقہ موجود ہے‘ جبکہ آئین کے آرٹیکل 48 میں کسی بھی اہم قومی معاملے پر الیکشن کے بجائے ریفرنڈم کال کرنے اور منعقدکروانے کا آئینی پراسیس بھی موجود ہے۔
جمہوریت کی دوسری قسم بالواسطہ جمہوریت ہے۔ ایسا ہی ایک تجربہ 50 اور 60 کی دہائی میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہوا تھا‘ جب بی ڈی سسٹم لایا گیا۔ یہ بنیادی جمہوریت یوں تھی کہ پہلے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں کونسلر منتخب ہوئے۔ پھر ہر یونین کونسل کی سطح پر ایوب خان صاحب کی حکومت نے اس بنیادی جمہوریت میں وہ تڑکا لگایا کہ جس میں بغیر کسی الیکشن کے اپنی طرف سے نامزد کردہ کونسلرز ڈال دیئے گئے۔ یہ وہی الیکشن تھا، جس میں ایوب خان کو فتح دلوانے کے لئے مادر ملت محترمہ ڈاکٹر فاطمہ جناح کو ہروایا گیا تھا۔ اس جمہوری طریقے کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بلا واسطہ جمہوریت میں عام آدمی کی مرضی کا اظہار براہِ راست موجود افراد کی رائے سے ہوتا ہے‘ اس کے مقابلے میں بالواسطہ جمہوریت صرف کسی ایسی جگہ ہی قائم ہوسکتی ہے، جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود اور آبادی بہت تھوڑی سی ہو اور جہاں ریاست کے عوام کو ایک جگہ جمع کرکے حکومتی معاملات پر غوروفکر کرنا ممکن ہوسکے۔ آج کی دنیا میں اس طرح کی ''Direct Democracy‘‘ کا نظام صرف سوئٹزرلینڈ کے چند شہروں میں پایا جاتا ہے، جن کو Canton کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں واقع، نیو انگلینڈ کے چند بلدیاتی اداروں کی حدود میں براہ راست جمہوریت کا نظام موجود ہے۔ پرانے زمانے کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس براہِ راست طرز جمہوریت کا آغاز سب سے پہلے قدیم یونان کی سٹی سٹیٹس میں شروع ہوا تھا۔
اپنے ہاں دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں کی طرح عوام کی طرف سے قومی معاملات پر رائے دینے کیلئے اور فیصلہ سازی میں شریک ہونے کیلئے مجلس قانون ساز بنائی گئی ہے‘ جس کے وفاق میں دو ہائوسز جبکہ چار ہائوسز صوبوں میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد ریاست جموں و کشمیر میں بھی Legislative Houses قائم کئے گئے ہیں۔
اس تمہید اور تعریف کا ایک انتہائی ضروری پہلو ہم آخر میں ڈِسکس کریں گے‘ لیکن اس منظرنامے کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھاکہ اس سوال کا جواب لیا جا سکے کہ اوپن ووٹ میں آخر پی ڈی ایم کو مسئلہ کیا ہے۔ آئیے اس وقت ملک کے سیاسی منظرنامے پر موجود سوال اور ان کے لیگو کانسٹی ٹیوشنل جواب دیکھ لیں۔
پہلا سوال: کیا ہائوس آف فیڈریشن میں خفیہ ووٹ کا مطالبہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت یا وزیر اعظم جناب عمران خان کر رہے ہیں‘ یا یہ مطالبہ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے پہلے 2018 سے قبل بھی موجود تھا؟ اس کا سب سے بڑا جواب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور پی پی پی کی سابق وزیر اعظم بی بی صاحبہ کے دستخطوں سے ملتا ہے‘ جس کا ثبوت 14 مئی 2006 کو تیار کیا جانے والا وہ 'چارٹر آف ڈیموکریسی‘ ہے جس پر ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی کو دل و جان سے لاگو کرنے کے لئے، ویسٹ منسٹر سے واکنگ فاصلے پر موجود ماربل آرچ میں مفرور رہنما اور مرحوم رہنما نے مل کر سائن کیا تھا۔ اس چارٹر آف ڈیموکریسی کے آرٹیکل نمبر23 میں قوم کو یہ راز کی بات بتائی گئی تھی۔
''آرٹیکل23: کرپشن اور فلور کراسنگ روکنے کیلئے سینیٹ اور اِن ڈائریکٹ نشستوں کے انتخابات کھلے اور قابل شناخت بیلٹ پیپر کے ذریعے کرائے جائیں گے۔ ان انتخابات میں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے ممبر کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ اس مقصد کیلئے متعلقہ پارٹی کا پارلیمانی لیڈر متعلقہ ایوان کے سپیکر یا چیئرمین سینیٹ کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کرے گا۔ اس خط کی ایک نقل الیکشن کمیشن کو برائے نوٹیفکیشن بھیجی جائے گی۔ اگر خط ملنے کے 14دن کے اندر نوٹیفکیشن نہ ہوا تو بھی متعلقہ ممبر کی نشست خالی قرار پائے گی‘‘۔
اس کے علاوہ جب پی پی پی کے یک اَز مالکان آصف علی زرداری صاحب نے پچھلے دور میں نواز شریف سے کہا تھاکہ میں تمہاری حکومت بلوچستان میں گرا دوں گا‘ تو پھر اس بیان کے نتیجے میں 100 فیصد ایسا ہی ممکن ہو گیا تھا۔ اسی طرح جب موصوف نے نواز شریف سے کہا تھاکہ میں تمہیں سینیٹ بھی نہیں لینے دوں گا، تو تب بھی نواز شریف کی حکومت برسرِ اقتدار ہونے کے باوجود ویسا ہی ہوگیا۔ یہ سب کچھ ہم سب جانتے ہیں۔
اس کے باوجود کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت اور سینیٹ آف پاکستان میں (ن) لیگ کی شکست کسی بابے کی پھونک سے نہیں ہوئی‘ بلکہ ضمیروں کی منڈی سجا کر اور نوٹوں کے انبار لگا کر پی ڈی ایم کے اِن دونوں لیڈروں کے درمیان ووٹ کو عزت دینے کا مقابلہ ہوا تھا۔
پاکستان میں دو کام ہر سیاسی جماعت نے کررکھے ہیں۔ ایک یہ کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، اس لئے اس کے نتائج کو چیلنج کردیا گیا۔ دوسرا کام یہ کہ ہر سیاسی جماعت کے لیڈر کا ویڈیو کلپ سینیٹ میں الیکشن کے حوالے سے ووٹ فروشی پر موجود ہے۔ ساری پارٹیوں نے ہارس ٹریڈنگ کے خلاف زبانی اور تحریری جہاد کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس لئے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ابھی تک مفرور سابق وزیر اعظم، مولانا صاحب اور انقلابی پی پی پی کے پاس اوپن اور قابل شناخت ووٹ یا شو آف ہینڈز پر اعتراض ہے کیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ پچھلے 7 ہفتے تک سینیٹ چلتا رہا۔ پچھلے 3 ہفتے تک این اے کا سیشن جاری رہا۔ دونوں جگہ الزام بازی اور ہلڑ بازی کے علاوہ اوپن ووٹ کے خلاف کون سی دلیل اور کون سی وجہ تھی جو پی ڈی ایم کی پارٹیوں نے ہائوس کے ذریعے قوم کے سامنے رکھی؟ البتہ، سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے دیہاڑی ضائع ہونے کا خدشہ ضرور موجود ہے۔
فاضل عدالت بھی بار بار سیاسی جماعتوں سے ایک ہی سوال پوچھ رہی ہے: اوپن ووٹ! آخر مسئلہ کیا ہے؟؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved