نیب اور شہزاد اکبر صاحب کو قدرت کی جانب سے ایک ایسا موقع ملنے جا رہا ہے کہ اگر ہوا موافق ہوئی تو وہ چند ماہ میں ہی دووھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے بین الاقوامی عدالت سے سابق حکمرانوں کی کرپشن کا واضح فیصلہ لے کر دنیا بھر کو دکھا سکتے ہیں۔ ڈیوڈ روز کیس کی جب پہلی سماعت ہوئی تو پہلے دن کی کارروائی پر مریم نواز صاحبہ نے ٹویٹ کیا کہ لندن میں وہ عدالتیں نہیں جو من چاہے فیصلے دیں۔ لندن کی ممتاز قانونی شخصیت خالد لودھی کی رائے ہے کہ اب جبکہ لندن کی عدالت 19 فروری کو اس کیس کی دوبارہ سماعت کرنے جا رہی ہے جس میں ڈیوڈ روز سے کہا جائے گا کہ وہ شریف فیملی سے متعلق ڈیلی میل میں فائل کی گئی اپنی سٹوری کے حق میں ثبوت عدالت کے سامنے رکھے تو وہ دن وزیراعظم کے مشیرِ احتساب شہزاد اکبر کیلئے سنہری موقع ہو گا کہ وہ بھی شریف فیملی کے خلاف تمام دستاویزات اور ثبوت متعلقہ جج کے سامنے پیش کر دیںتا کہ دو سے تین ماہ میں اس بات کا فیصلہ ہونے سے سچ اور جھوٹ واضح ہو کر سب کو نظر آ جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں متعلقہ حکومتی عہدیدار سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا عوام کے پیسے پر پہرہ دیتے ہیں۔
شہزاد اکبر صاحب اس کیس کی پہلی سماعت پر ہونے والی کارروائی پر مسلم لیگ نواز کے لیڈران اور مریم نواز صاحبہ کے شدید رد عمل کا جواب دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان الزامات میں شہباز شریف پر پاکستان میں پہلے ہی فردِ جرم عائد ہو چکی ہے‘ تو پھر بجائے یہ کہ کیس تہہ در تہہ کئی برسوں تک پاکستان میں سیاست اور کرنٹ افیئرز پروگراموں کی رونقیں بڑھائے‘ کیوں نہ اسے چند ماہ میں ہی انجام تک پہنچانے والی لندن کی اس عدالت کے حوالے کر دیا جائے جس کی تعریفوں کے پُل یہاں باندھے جا رہے ہیں۔ ڈیلی میل کے علاوہ براڈ شیٹ کیس کا ڈنکا بھی مسلم لیگ نواز اور اس کے میڈیا سیل نے اس رفتار سے بجایا کہ لگتا تھا کہ کوئی بہت بڑا خزانہ ان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ چند روز تک ٹی وی چینلز پر خوب دھما چوکڑی مچائی گئی جس پر براڈ شیٹ کے اصل سچ تک پہنچنے کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس عظمت سعید کی نگرانی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا لیکن ان کی تعیناتی پر پوری پی ڈی ایم کی توپوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا۔ یہ اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہاں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ میڈیا کی جنگ اور خبروں کو اپنے ڈھنگ اور حق میں استعمال کرنے کا جو ہنر سیاست اور حکومت کا 35 سالہ طویل تجربہ رکھنے والوں کو ہے‘ اس کا سوواں حصہ بھی پہلی مرتبہ اقتدار حاصل کرنے والی تحریک انصاف کے پاس نہیں ہے۔ میڈیا کے ایک حصے کو لئے مسلم لیگ نواز کے گھوڑے اس برق رفتاری سے دوڑتے ہیں کہ میدان میں ان کی اڑائی جانے والی گرد میں سوائے ان کی مچائی گئی ہاہاکار کے‘ اور کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ اوپر سے ان کے حامیوں کی بدولت اس قیا مت کے ٹکرز چلتے ہیں کہ سچائی کی آنکھیں بھی دکھنے لگ جاتی ہیں۔
براڈ شیٹ کیس کے بعد ڈیلی میل کا قصہ بجلی کے تاروں کی طرح آپس میں اس تیزی سے ٹکرائے کہ اس سے پیدا ہونے والی چنگاریوں نے پی ڈی ایم کا کیمپ جگمگ کر دیا اور مارے خوشی کے وہ ڈھول پیٹے گئے کہ جوشِ مسرت میں کچھ ہوش ہی نہ رہا۔ نواز لیگ کے ساتھ سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ فیصلہ چاہے مقامی عدالت کا ہو یا غیر ملکی عدالت کا‘ لکھا انگریزی میں ہی جاتا ہے اور کوئی بھی فیصلہ آتے ہی نہ آئو دیکھا جاتا ہے نہ تائو‘ مٹھائیوں کے ٹوکرے پہلے سے ہی منگوا کر رکھ لیے جاتے ہیں اور جب پورا انگریزی فیصلہ سمجھ میں آتا ہے تو پھر کوے کو سفید کرنے پر تن من دھن صرف کر دیا جاتا ہے۔ میاں شہباز شریف اور ڈیوڈ روز کے مقدمے کے فیصلے کو ہی لے لیجئے جس میں صرف یہ فیصلہ ہوا کہ 19 فروری کو میاں شہباز شریف اور ڈیوڈ روز کے وکلا عدالت میں بیٹھ کر یہ کیس لڑیں گے کہ اس مقدمے کی کارروائی کو مزید آگے بڑھانا ہے یا یہیں پر ختم کر دینا ہے۔ اس پر ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے لندن کی عدالت نے ڈیوڈ روز کی خبر کو غلط قرار دے دیا ہے اور ڈیلی میل پر شہباز شریف کے ہرجانے کے دعوے کو قبول کر لیا ہے۔خالد لودھی‘ جن کا براڈ شیٹ کیس سے گہرا تعلق ہے‘ کے مطابق: لندن میں مقیم ایک تگڑی پاکستانی شخصیت میڈیا کو اپنے حلقہ احباب میں لانے کیلئے کافی جتن کر چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر پاکستانی میڈیا پر وہ کچھ کہا گیا جس کا اس فیصلے میں کہیں ذکر ہی نہیں تھا۔ جن صاحب نے ایک مقامی چینل کو یہ خبر جاری کی‘ ان سے چند منٹوں بعد ہی فون پر پوچھا گیا (اور یہ بات ریکارڈ پر ہے) کیا ڈیوڈ روز کو عدالت نے کوئی ہرجانہ ادا کرنے کا کہا ہے؟ جس پر لندن کے شاہ جی کا جواب تھا: نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی۔
کسی بھی معاشرے میں حدود وقیود کا تعین کرتے وقت یا ان حدود و قیود کی شناخت کیلئے قانون بناتے وقت یہ کہیں بھی نہیں لکھا جاتا کہ اس کا اطلاق صرف فلاں فلاں شخصیت یا قبیلے کیلئے ہی ہو گا۔ آج اگر پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ کے قریب ہے تو کسی بھی قانون کو بناتے وقت یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ قانون پاکستان کے فلاں فلاں اشخاص‘ جن کی تعداد پانچ ہزار یا دس لاکھ کے قریب ہے‘ کے خلاف استعمال نہیں ہو سکے گا۔ ہر قانون میں یہی لکھا جاتا ہے کہ اس قانون کا اس ملک میں رہنے والے ہر فرد پر برابر اطلاق ہو گا۔ پاکستان کی دولت کسی نے بھی لوٹی ہو، پاکستان کی زرعی یا رہائشی جائیداد اگر ضیاء الحق، نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، پرویز مشرف یا موجودہ حکمرانوں نے اپنے چاہنے والوں کو مفت تقسیم کی ہو‘ یہ کسی قانون میں نہیں لکھا کہ فلاں فلاں کی تحفے یا انعام میں دی گئی زرعی و رہائشی زمین منسوخ کر دی جائے گی اور باقی لوگوں کی اپنے چہیتوں کو بانٹی گئی زمینیں اور پلاٹس قائم و دائم رکھے جائیں گے۔
دس ہزار سے زائد من پسند افراد کو الاٹ کئے جانے والے پلاٹوں کے خلاف پیپلز پارٹی کے مشہور لیڈران غلام عباس اور منیر احمد خان کی دائر کی گئی درخواستیں آج بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔ اگر پرویز مشرف کی الاٹ کی گئی اراضی پر اعتراض ہے تو پھر جنرل ضیاء الحق، نواز شریف یا آصف علی زرداری کی عطا کردہ جاگیریں کیونکر مستثنیٰ ہو سکتی ہیں؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ قانون سب کیلئے ہو نہ کہ کسی ایک کیلئے۔ جسٹس عظمت سعید کمیشن پر اعتراض کرتے ہوئے مسلم لیگ ن والے نجانے کیوں رمدے کمیشن، لون کمیشن اور شفیع الرحمن کمیشن کو بھول جاتے ہیں۔ جب تاج کمپنی اور پنجاب کی ہر گلی محلے میں کھلنے والی کوآپریٹو فنانس کارپوریشنوں نے غریب عوام کے کھربوں روپوں ڈکار لئے تو لوگ ان فنانس کارپوریشنوں کے بند دروازوں کے باہر خود کشیاں کرنا شروع ہو گئے تھے اور ان فنانس کارپوریشنوں سے شریف فیملی کے نا موں پر مبینہ طور پر کروڑوں روپے کے لئے گئے قرضے لٹنے والوں کے منہ چڑانے لگے تو اس کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے جسٹس افضل لون کی سربراہی میں ''لون کمیشن‘‘ قائم کیا گیا تھا۔ اگر وہ کمیشن جائز تھا تو براڈ شیٹ کیلئے جسٹس عظمت سعید کمیشن پر اعتراض کیوں ہے؟ آج عظمت سعید کمیشن قابلِ قبول نہیں تو کل کا کوآپریٹو فنانس کارپوریشنز والا ''لون کمیشن‘‘ جس نے شریف فیملی کو کلین چٹ دی تھی‘ قابلِ قبول کیسے ہو گیا تھا؟ مان لیجئے کہ یہ لوگ امپائر کو ساتھ ملائے بغیر کبھی بھی میدان میں اترنا پسند نہیں کرتے۔