میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ کس طرح بھارت نے کیش لیس اکانومی کی پالیسی اپنا کر ٹیکس آمدن میں ہدف سے زیادہ اضافہ کیا تھا۔ حسبِ وعدہ آج میں آپ کی توجہ چین کی معاشی کامیابی کی وجوہات کی طرف مبذول کرائوں گا لیکن اس سے پہلے حالاتِ حاضرہ کی کچھ اہم خبریں آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔ حکومت نے اسمبلی فلور پر پالیسی سٹیٹمنٹ میں بتایا ہے کہ ہر پاکستانی اس وقت ایک لاکھ 75ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ اس میں 54ہزار نو سو ایک روپے کا اضافی بوجھ ہے یعنی پچھلے دو سالوں میں فی کس قرضوں میں چھیالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ وفاقی خسارہ جی ڈی پی کا آٹھ اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ مالی سال 20-2019ء میں سرکاری خرچوں کی شرح پچھلے اٹھائیس سال سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ ترقیاتی اخراجات معاشی حجم کے حساب سے دس سال میں سب سے کم رہے۔ رپورٹ کے مطابق جون 2020ء تک عوامی قرضہ چھتیس اعشاریہ چار ٹریلین روپے تھا۔ یہ پچھلے ایک سال میں چودہ فیصد بڑھا ہے جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں یہ اضافہ اٹھائیس فیصد تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایک اعشاریہ ایک ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا کیا جو ٹارگٹ سے پندرہ فیصد کم ہے؛ البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ اخراجات بجٹ سے آٹھ فیصد کم ہیں۔ ان اعداد وشمار کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پچھلے مالی سال کے بیشتر شعبوں میں کوئی ترقی نہیں دیکھی گئی۔ حکومت اس کا ذمہ دار کووڈ کو قرار دیتی ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے لیکن صرف کووڈ پر سب کچھ ڈال کر راہِ فرار اختیار نہیں کی جا سکتی۔ بظاہر کوئی ایسی پالیسی نظر نہیں آ رہی کہ جس کی بنیاد پر مستقبل میں حالات بہتر ہو سکیں۔ برآمدات بڑھنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن کرنٹ اکائونٹ خسارہ پھر سے سر اٹھانے لگ گیا ہے۔
اگر موجودہ مالی سال پر بات کریں تو چھ ماہ کی رپورٹ بھی کچھ تسلی بخش دکھائی نہیں دیتی۔ پہلی شش ماہی کا بجٹ خسارہ ایک اعشاریہ چار ٹریلین روپے ہے۔ سب سے زیادہ جو اکائونٹ بے قابو رہا ہے وہ سود کی ادائیگی کا ہے جس میں تقریباً پندرہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی سے دسمبر تک وفاقی حکومت نے بارہ ٹریلین روپے قرض لیا ہے جو خسارہ پورا کرنے کے لیے حاصل کیا گیا۔ وفاقی حکومت اس کا سارا ملبہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والے شیئر پر ڈالتی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ صوبے اپنا حصہ تو لے جاتے ہیں لیکن اخراجات میں تعاون نہیں کرتے۔ ایسے وقت میں جب تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہو‘ اس طرح کا گلہ کرنا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ پچھلے چھ سال سے یونہی معلق نظر آ رہا ہے۔ این ایف سی ایوارڈز 2010ء میں طے کیے گئے تھے جس کی مدت 2015ء تک تھی۔ وقت مکمل ہونے کے بعد دوبارہ اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا اور اب صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں این ایف سی ایوارڈز صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہی قابلِ عمل ہے۔ وفاق صوبوں کی صحت اور تعلیم کے بہت سے معاملات کا براہِ راست ذمہ دار ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق صوبے یہ اخراجات خود برداشت کریں یا پھر ان کا حصہ چھوڑ دیں۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق‘ وفاق بیالیس اعشاریہ پانچ فیصد حصہ وصول کرتا ہے۔ بقیہ ستاون اعشاریہ پانچ فیصد مختلف فارمولوں کے تحت صوبوں کو دیا جاتا ہے۔ پہلی شش ماہی میں دو اعشاریہ دو ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا ہوا جس میں سے ایک اعشاریہ تین ٹریلین یعنی مکمل آمدن کا ستاون اعشاریہ سات فیصد صوبوں کو دے دیا گیا۔ جو معاملات پہلے دن سے طے ہیں انہیں اسی طرز پر چلانا بہتر ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اگر حالات میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اس کے قواعد و ضوابط بدلنے میں کوئی حرج نہیں۔ صوبوں اور وفاق کے درمیان معاملات مذاکرات کے بجائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چلانا جمہوریت کی توہین ہے۔ اگر اسی طرز پر معاملات کو چلانا ہے تو اسے ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔
آنے والے دنوں میں اس حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا ہے‘ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال میں آپ کو چین کے نظام کی طرف لیے چلتا ہوں۔ اگر آپ میں سے کبھی کسی نے چین کا سفر کیا ہو تو آپ ایک مختلف معاشی تجربے سے ضرور گزرے ہوں گے۔ آپ کسی دکان، سٹور، ہوٹل، ٹیکسی یا بس میں سفر کریں تو ادئیگی کے وقت کیش نہیں مانگا جاتا بلکہ کارڈ یا موبائل کے ذریعے ادائیگی کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ گاڑیوں کا ٹول ٹیکس بھی ادا کرنے کے لیے موبائل کو مشین کے ساتھ لگایا جاتا ہے اور ادائیگی ہو جاتی ہے۔ چین اور کئی ترقی یافتہ یورپی ممالک سے آنے والے لوگ اس طرح کی ادائیگیوں کے عادی ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے باشندوں کے لیے ابتدائی طور یہ عمل تکلیف دہ ہوتا ہے۔ البتہ کچھ عرصے بعد یہ آسان لگنے لگتا ہے اور جب عادت ہو جائے تو یہ نظام سب سے بڑی سہولت محسوس ہوتا ہے۔ ابتدائی طور جب چین میں یہ نظام نافذ کیا گیا تو عوام نے کچھ مزاحمت کی۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت ایک مرتبہ ڈیٹا لے گی اور پھر ہمیں پریشان کرے گی۔ ہماری آمدن اور ٹیکس کے معاملات گمبھیر ہو جائیں گے۔ حکومت نے جب یہ عوامی رویہ دیکھا تو اعلان کیا کہ اگر آپ نے کچھ غلط نہیں کیا تو آپ کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ سے کوئی اضافی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ آپ کا ڈیٹا ریاست کے پاس امانت ہے، آپ کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کارڈ کے ذریعے آن لائن خرید و فروخت پر ڈسکائونٹس آفر کیے گئے اور عوام کو بتایا گیا کہ ریاست آپ کے ڈیٹا کا تحفظ کرے گی۔ حکومتی بھروسے نے عوام میں اعتماد پیدا کیا اور چند سالوں میں چین کی اکانومی کیش لیس بن گئی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ حکومت کے پاس ہر شہری کی آمدن اور اخراجات کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ جو ٹیکس عوام کا کٹتا ہے وہ سیدھا سرکار کے اکائونٹ میں چلا جاتا ہے‘ درمیان سے کوئی ود ہولڈنگ ایجنٹ اسے اپنی جیب میں نہیں ڈالتا۔ ایک اندازے کے مطابق چین میں 78 فیصد سے زائد ادائیگیاں آن لائن، موبائل اور کارڈز کے ذریعے ہوتی ہیں۔ کوئی دکاندار یا سٹور والا آپ سے کیش وصول نہیں کرے گا بلکہ کچھ دیہات میں‘ جہاں ضعیف لوگ رہتے ہیں‘ حکومت کو تحریری درخواست دی گئی کہ بڑھاپے کی وجہ سے لوگوں کو موبائل فون کا استعمال نہیں آتا، حکومت مقامی دکانداروں کو حکم جاری کرے کہ وہ بوڑھوں سے تھوڑی بہت رقم کیش میں لے لیا کریں تاکہ ان کے لیے آسانی ہو سکے۔ اس پر چینی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے ذریعے مخصوص علاقوں میں معمر لوگوں سے چند یوآن کیش میں وصول کرنے کی اجازت دی گئی لیکن جب تک حکومت کا حکم نامہ نہیں آیا تھا‘ کیش وصول نہیں کیا گیا۔
ٹیکس وصولیوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان کو چین اور بھارت سے سیکھنا چاہیے۔ اگر ہمارے بغلی ممالک یہ کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں تو پاکستان کے لیے بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ پنجاب کا پی آئی ٹی بی جیسا ڈیپارٹمنٹ پوری دنیا میں آن لائن آئی ٹی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ اس کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے تمام بینکوں اور موبائل اکائونٹس کو ملا کر یونیفائیڈ انٹرفیس سسٹم کے تحت جوڑا جائے اور کیش لیس معیشت کو فروغ دیا جائے۔ اس سے نہ صرف عوامی ڈیٹا حکومت کے پاس جمع ہو سکے گا بلکہ ود ہولڈنگ ایجنٹس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور ٹیکس چوری کے معاملات بھی قابو میں آ جائیں گے۔