ثابت ہوا کہ دہشت گردی‘ لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی ‘ بھتہ خوری‘ قتل و غارت گری‘ بچوں کی جان لیوا بیماریاں‘ کرپشن اور بیروزگاری‘ محض انتخابی ڈھکوسلے تھے۔ اصل میں لوگوں کا مطالبہ ہی اور تھا۔ میڈیا نے ان ساری چیزوں کا شور محض خانہ پُری کے لئے مچا رکھا تھا۔ ورنہ اس کا بھی سب سے بڑا مسئلہ وہی تھا‘ جس پر آج حکومت نے اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور وہ مسئلہ تھا پرویزمشرف کو دبوچ کر کیفرکردار تک پہنچانا۔ جیسے ہی پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کا اعلان ہوا‘ سارے مسائل بھلا دیئے گئے۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہ مسائل لوگوں کے تھے ہی نہیں۔ اصل مسئلہ پرویزمشرف کو ٹانگنے کا تھا۔ جیسے ہی مقدمہ چلانے کا اعلان ہوا‘ میڈیا پر شادیانے بجنے لگے۔ پہلے دہشت گردی‘ لوڈشیڈنگ‘ بدامنی‘ فرقہ ورانہ ہلاکتوں کی جو خبریں اور مناظر میڈیا پر دکھائی دیتے تھے‘ وہ محض دکھاوا تھا۔ خانہ پری تھی۔ بھرتی کامواد تھا۔ بات یہ تھی کہ کسی میں پرویزمشرف پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت ہی نہ تھی۔ جیسے ہی ملک کے مقبول ترین لیڈر جناب نوازشریف کو بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار ملا‘ تب بھی عوام نے اتنی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا‘ جتنی خوشی انہیں پرویزمشرف کے خلاف مقدمہ بننے کی خبر پر ہوئی۔ ایک موقع پر تو یوں لگا‘ جیسے نئی حکومت کو 100دنوں کا ہنی مون پیریڈ بھی نصیب نہیں ہو گا۔ اسحق ڈار کے بجٹ نے تو جیسے لوگوں کو بجلی کے جھٹکے لگا دیئے۔ بیک جنبش لب‘ بازاروں میں اتنی مہنگائی کر دی کہ لوگ چیخ اٹھے۔ ہر کوئی بجٹ پر تنقید کرنے لگا۔ جس حکومت سے عوام کو بے شمار امیدیں تھی‘ اس کا بجٹ بھگت کر وہ ساری امیدیں خاک میں مل گئیں۔ مایوسی طاری ہونے لگی۔ عوام کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ بھاری مینڈیٹ والی حکومت آنے سے بھی‘ وہ حل ہوتا کیوں نظر نہیں آ رہا؟ یہ سوال اٹھائے جانے لگے کہ کہیں عوام کو اپنا اصل مطالبہ ڈھونڈنے میں غلطی تو نہیں لگ رہی؟ لوگ بڑے مخمصے میں تھے۔ بے شک مہنگائی انہیں پریشان کر رہی تھی۔ بیروزگاری سے وہ تنگ تھے۔ لوڈشیڈنگ نے ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا اور وہ چاہتے بھی تھے کہ ان مصیبتوں سے نجات ملے۔ مگر انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان کی اصل خواہش کیا ہے؟ وہ چاہتے کیا ہیں؟ عوام کی منتخب قیادت نے آخر کار ان کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے‘ ان کے دلوں میں مچلتی خواہشوں کا سراغ لگا ہی لیا۔ وزیراعظم نے جب قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ وہ پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کر رہے ہیں‘ تو منتخب نمائندوں کی سرخوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک دو کے سوا‘ تمام کے تمام منتخب نمائندے بے تحاشا ڈیسک بجاتے نظر آئے۔ ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ چہرے تمتمانے لگے۔ ان کے پرمسرت اطمینان کو دیکھتے ہوئے‘ ایسے لگ رہا تھا‘ جیسے ان کی دلی مرادیں بر آئی ہوں۔ انہوں نے عوام کو وہ تحفہ دے دیا ہو‘ جسے حاصل کرنے کے وہ خواب دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ الیکشن جیت کر وہ ایک ہی چیز لینے آئے ہیں اور وہ ہے پرویزمشرف کا سر۔ بجٹ پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے ٹیکسوں میں اضافے پرخاص توجہ نہیں دی تھی۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ سبسڈی گھٹانے اور ٹیکس لگانے کا فیصلہ آئی ایم ایف کے مطالبوں سے پہلے ہی کر لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات جانے پہچانے ہیں۔ اسحق ڈار صاحب سے زیادہ یہ بات کون جانتا ہے؟ آئی ایم ایف کا مطالبہ بتدریج مہنگائی کرنے کا ہوتا ہے۔ مہنگائی میں پہلے درجے کا اضافہ باقاعدہ مذاکرات سے پہلے ہی کر دیا گیا ہے۔ اب آئی ایم ایف کے نمائندوں کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہمارے بجٹ نے ان کے پاس کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ ان کے منہ بند ہو چکے ہوں گے۔ جوڈکٹیشن وہ دیا کرتے ہیں‘ وہ بے معنی ہو کر رہ گئی ۔ مگر مجال ہے‘ ہمارے منتخب نمائندوں نے اس بات کو اہمیت دی ہو؟ اہم ترین چیز وہی تھی‘ جس کا اعلان وزیراعظم نے کر دیا۔ پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ۔ اب اگر یہ مقدمہ چلے گا‘ تو روزانہ عدالتی کارروائی کی تفصیلات پڑھنے اور سننے میں آئیں گی۔ ایک سے ایک بھڑکتی ہوئی سرخی لگے گی۔ ایک سے ایک گرماگرم ٹاک شو ہو گا۔ ہر کوئی پرویزمشرف کے خلاف طبع آزمائی کرے گا۔ ہر شومیں احمد رضاقصوری کو‘ ضیافت طبع کے لئے مدعو کیا جائے گا۔ جس ملک میں 6سال پہلے پرویزمشرف پر تنقید کرنے والے ٹانویں ٹانویں نظر آتے تھے‘ اب اسی ملک میں ‘ اس کے لئے انصاف مانگنے والے ٹانویں ٹانویں نظر آتے ہیں۔ وہی پرویزمشرف ‘ جو اقتدار سے محرومی کے بعد گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے اور واپسی پر عدالتوں میں مقدمات بھگت رہے تھے اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا‘ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے وہ بڑی بڑی سرخیوں میں آنے لگے اور جس دن سے وزیراعظم نے ان پر مقدمہ بنانے کا اعلان کیا ہے‘ ہر ٹاک شو کا موضوع پرویزمشرف ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ان کی اتنی کوریج یا دوران اقتدار ہوتی تھی یا اب ہو رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ان کی مدح سرائیاں سنائی دیتی تھیں۔ اب ان کے مظالم اور جرائم کی کہانیاں سننے میں آتی ہیں۔ پرویزمشرف ایک بار پھر چھا گئے ہیں۔ منفی انداز میں سہی بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا کسی بھی نئی حکومت کے آنے پر عموماً معاشرتی خرابیوں میں کچھ دیر کے لئے ٹھہرائو آ جاتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کے آتے ہی دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آ گئی۔ وزیراعظم کے حلف اٹھانے سے لے کر اب تک ایک دو نہیں‘ دہشت گردی کے 9بڑے واقعات ہو چکے ہیں۔ جن میں 104افراد ہلاک اور مزید درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں دو ایم پی اے اور دو ہی سندھ میں دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ کوئٹہ میں ویمن یونیورسٹی کی طالبات سے بھری ہوئی بس کو بم سے اڑا دیا گیا۔ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی پُرہنگام 65سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ قائد اعظم سے منسوب تاریخی عمارت کو آگ لگا دی گئی۔ مردان میں نماز جنازہ پڑھنے آئے لوگوں کو بم کا نشانہ بنایا گیا‘ جن میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے علاوہ 35 دیگر افراد شہید ہوئے۔ 23 جون کو نانگا پربت پر دنیا کی بلندترین دہشت گردی کی واردات ہوئی‘ جس میں 11غیرملکی سیاحوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا۔ 25 جون کو پشاور میں ڈی ایس پی ٹریفک امان اللہ کو ان کے ڈرائیور سمیت شہید کر دیا گیا۔ 26جون کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مقبول باقر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ وہ تو بچ گئے مگر ان کی سکیورٹی پر تعینات رینجرز کے 9 اہلکار شہید ہوئے۔ اسی روز حیات آباد تھانے کو نشانہ بنایا گیا۔ اتنے کم دنوں میں دہشت گردی کی اتنی زیادہ وارداتیں باعث تشویش ہونا چاہیے تھیں۔ لیکن پرویزمشرف پر مقدمے کا اعلان ہوتے ہی‘ دہشت گردی میں یہ تیزی میڈیا میں زیادہ قابل ذکر نہیں سمجھی گئی۔ ایسے لگتا ہے‘ عوام کسی بھی مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے۔ اب وہ لوڈشیڈنگ کو بھول چکے ہیں۔ مہنگائی ان کے لئے کوئی بوجھ نہیں رہ گئی۔ بیروزگاروں کو اپنی حالت سے کوئی فکرمندی نہیں۔ اصل میں لوگ یہ ساری چیزیں چاہتے ہی نہیں تھے۔ کیونکہ اس وقت مشرف کا سر ملنے کی کسی کو امید نہیں تھی۔ اس لئے مایوسی میں وہ مختلف مسائل پر مظاہرے اور احتجاج کرتے رہتے تھے۔ دہشت گردی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ اب ان کی مرادیں بر آئی ہیں۔ پرویزمشرف پر غداری کا مقدمہ بننے والا ہے۔ اس مقدمے پر انہیں سزا ہوئی‘ تو پہلی مرتبہ ایک فورسٹار جنرل کو پھانسی لگے گی۔ عوام کے لئے یہ تصور ہی مسحور کن ہے۔ اب حقیقت سامنے آئی ہے کہ عوام اصل میں نہ روزگار چاہتے تھے۔ نہ روٹی مانگ رہے تھے۔ نہ مہنگائی سے تنگ تھے۔ نہ دہشت گردی پر انہیں کوئی پریشانی تھی۔ نہ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچنے کے لئے وہ بجلی مانگ رہے تھے۔ انہیں صرف مشرف کا سر چاہیے تھا۔ اب ان کی یہ امید پوری ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اب لوگوں کا نعرہ ہے نہ روٹی نہ ‘ بجلی‘ نہ گھر۔ مشرف کا سر۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved