26 جنوری کو بھارت کے یومِ جمہوریہ پر جو ہوا‘ وہ ایک الگ داستان، حقیقت یہ ہے کہ نئی دہلی سرکار بھارت کے کسانوں کی جانب سے مارچ کیلئے اعلان کردہ دن اور اس کی قومی اہمیت سے اس قدر پریشان نہیں تھی جتنا اس ہندسے کی وجہ سے پریشان تھی کیونکہ مودی سرکار کو یقین تھا کہ چھبیس کا دن مقرر کیا جانا اپنے اندر کوئی معنی ضرور رکھتا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے کسانوں کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی گئی کہ وہ ایک دن پہلے یا بعد کا کوئی دن مقرر کر لیں لیکن لگاتار دبائو اور سخت کوششوں کے باوجود اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ 13 کا ہندسہ دنیا میں روشن خیال اور توہم پرستی سے مبرا سمجھے جانے والے امریکی و یورپی معاشرے کیلئے بھی نحس سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہوٹلز کے کمرے یا کسی بھی پلازے حتیٰ کہ آسمان کو چھوتی ہوئی عمارات میں بھی تیرہویں منزل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور تیرہ کے ہندسے کو نحوست سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کبھی کبھی کوئی لفظ یا ہندسہ کسی انسان‘ کسی جگہ یا علاقے سے اس طرح منسوب ہو جاتا ہے کہ اس جگہ کی اپنی حیثیت بھلے ختم ہو جائے‘ لیکن اس مقام یا جگہ سے منسوب لفظ یا عدد رہتی دنیا تک ذہنوں میں محفوظ ہو کر رہ جاتا ہے ۔ نائن الیون کی طرح عیسوی کیلنڈر کی 26 تاریخ بھی بہت سے ممالک کو انجانے خوف میں مبتلا کئے رکھتی ہے۔ امریکیوں کے نائن الیون کی طرح دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک‘ کئی ممالک 26 کے عدد کو قدرتی آفات اور ز لزلوں سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس تاریخ کو پیش آنے والے اکثر حادثات میں ہزاروں بلکہ لاکھوں شہریوں کے نام ونشان تک مٹ کر رہ گئے۔ دنیا بھر کے ماہرِ ارضیات اور سائنسدان اکثر حیران ہوتے ہیں کہ کسی بھی شکل میں آنے والی تباہی اور بربادی جو کروڑ ہا انسانوں کو نگل چکی ہے وہ 26 تاریخ ہی کو کیوں آتی ہے۔
اپنے ہمسایہ ملک بھارت کی جانب دیکھیں تو بھارت کے صوبے گجرات کے علاقے بھوج میں آنے والے ہولناک زلزلے‘ جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.6 ریکارڈ کی گئی‘ کو وہاں کے لوگ آج تک نہیں بھولے اور یہ خوفناک تباہی پھیلانے والا زلزلہ 26 جنوری 2001ء کو آیا تھا، جب بھارت اپنا 52واں ریپبلک ڈے منا رہا تھا۔ اس زلزلے میں بیس ہزار سے زائد افراد چند لمحوں میں ہی لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہوئے اور دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے تھے۔ممبئی میں 2005ء میں آنے والے سیلاب نے زبردست اور خوفناک تباہی مچائی تھی۔ ممبئی کا یہ خوفناک سیلاب جولائی کی26 تاریخ کو آیا تھا جس نے پانچ ہزار سے زائد لوگوں کو نگل لیا تھا۔ ممبئی ہی میں تاج محل ہوٹل، اوبرائے ہوٹل اور شیوا جی ٹرمینل پر قبضہ کر کے مبینہ دہشت گردوں نے جب 60 گھنٹے تک پورے بھارت کو اپنی دہشت میں جکڑ کر 167 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تو وہ سال تھا 2008ء لیکن تاریخ تھی نومبر کی 26۔
26 جنوری 1700ء کو نارتھ امریکا کے علاقے Cascadia میں آنے والے 8.7 سے 9.2 شدت کے زلزلے میں تیس ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ 26 مارچ 1812ء کو وینزویلا میں آنے والے زلزلے سے بیس ہزار افراد کی ہلاکت ہوئی۔ انڈونیشیا کے علاقے کارکتائو میں 26 اگست 1883ء کے ایک سمندری طوفان اور آتش فشاں کے حادثے میں 36 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 26 جون 1926ء کو یونان کے جزیرے رہوڈس میں آنے والے زلزلے نے وہاں اس قدر تباہی مچائی کہ ہزاروں لوگ آن کی آن میں ہلاک ہو گئے۔ کانسو (چین) میں 26 دسمبر 1932ء کے زلزلے نے ستر ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ ترکی کے 26 دسمبر 1939ء کے زلزلے سے اکتالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔پرتگال میں 26 جنوری 1951ء کے زلزلے میں تیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 26 جولائی1963ء کو یوگو سلاویہ کے زلزلے کی تباہی آج بھی وہاں پر دہشت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ چین میں 26 جولائی 1976ء کو آنے والے زلزلے سے 2 لاکھ 55 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بنے۔ 26 مئی 2003ء اور پھر دو ماہ بعد 26 جولائی 2003ء کو یکے بعد دیگرے آنے والے جکارتہ اور تاسک (انڈونیشیا) کے دو زلزلوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اسی طرح 2004ء میں انڈونیشیا سے اٹھنے والا سونامی بھی 26 دسمبر کو آیا تھا جس میں دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جکارتہ میں 26 مئی 2006ء، تاسک میں 26 جون 2010ء اور منتاوئے میں چار ماہ بعد ہی 26 اکتوبر 2010ء کو آنے والے زلزلوں نے ہر طرف تباہی پھیلا دی تھی۔ ایران کے شہر بام میں 26 دسمبر 2003ء کے خطرناک زلزلے نے ساٹھ ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ 26 فروری 2010ء کو جاپان میں آنے والے ایک زلزلے نے ہزاروں لوگوں کو ہلاک کیا۔ 26 اپریل 2010ء کو تائیوان میں 6.9 شدت کے آنے والے زلزلے نے پورے علاقے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ بنگلہ دیش میں 26 اپریل 1989ء کے زلزلے نے سینکڑوں لوگوں کی جان لی۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا میں دس لاکھ سے زائد زلزلے آتے ہیں لیکن ان میں زیادہ تر اس قدر خفیف ہوتے ہیں کہ محسوس بھی نہیں ہوتے‘ انہیں صرف جدید حساس آلات ہی شناخت کر سکتے ہیں۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان محسوس کر سکتے ہیں اور ایسے زلزلوں کی تعداد تو بہت کم ہے جو جانی یا مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ ہر سال اوسطاً چند ایک ہی بڑے زلزلے آتے ہیں جوکبھی سینکڑوں یا ہزاروں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بھی بنی نوع انسان کی خوش قسمتی ہے کہ دنیا کے 70 فیصد سے زائد حصے کو سمندر نے ڈھانپ رکھا ہے، اس طرح زیا دہ تر زلزلے سمندر میں ہلکا سا طلاطم اٹھانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتے۔ باقی تیس فیصد رقبے میں سے بھی صرف ایک تہائی انسان کے تصرف میں ہے اور دو تہائی صحرائوں، جنگلات، پہاڑوں اور برفانی خطوں پر مشتمل ہے جہاں بہت کم لوگ آباد ہیں۔ عمومی طور پر ان علاقوں میں ہلکی شدت کے آنے والے زلزلے ہمارے ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں بن پاتے۔ براعظم افریقہ اور آسٹریلیا اس لحاظ سے کافی خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ وہاں بہت کم زلزلے آتے ہیں لیکن جنوبی امریکا، وسطی امریکا، شمالی امریکا، سائبیریا، روس، جاپان، چین کا وسطی اور جنوبی علاقہ، انڈونیشیا، مغربی بنگال، پاکستان، ایران ، ترکی، یونان اور سپین کے علاقوں کو زلزلوں کی پٹی کہا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں 5 درجے سے کم کا ایک زلزلہ اوسطاً ہر روز آتا ہے، البتہ سال میں ایک زلزلہ 7 یا اس سے زیادہ شدت کا بھی آتا ہے۔ جاپان میں سالانہ اوسطاً معمولی نوعیت کے 5ہزار سے زائد زلزلے ریکارڈکیے جاتے ہیں جبکہ 150کے لگ بھگ زلزلے پانچ یا اس سے زیادہ شدت کے بھی آتے ہیں۔
سائنسی طور پر زلزلوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ کرۂ ارض کا مرکزی حصہ‘ جو سخت گرم ہے، جب گرمی کی شدت سے پھیلتا اور سرد ہونے پر سکڑتا ہے تو زمین کی اندرونی تہیں بھی سکڑتی اور پھیلتی ہیں۔ اس طرح وہاں کچھ خلا پیدا ہو جاتا ہے‘ اس خلا کے اوپر چونکہ لاکھوں ٹن مٹی اور چٹانیں ہوتی ہیں اس لئے اوپر کی پرت پھسل کر نیچے آ جاتی ہے، یوں سمجھئے کہ کئی کلومیٹر چوڑی چٹان اپنی جگہ بدل لیتی ہے اس طرح ارد گرد کے علاقوں کو زبردست جھٹکا لگتا ہے۔ بعض اوقات یہ جھٹکا اتنا خفیف ہوتا ہے کہ ہمارے حساس آلات بھی اسے محسوس نہیں کر سکتے اور بعض اوقات یہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ لاکھوں انسان اس میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ زمین کی اندرونی پرت پھسلنے کا یہ عمل اوسطاً 32 کلومیٹر کی گہرا ئی میں وقوع پذیر ہوتا ہے، بسا اوقات یہ گہرائی 450 کلومیٹر تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ بعض علاقوں میں چٹانوں کی ساخت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ یہ ان جھٹکوں سے شدید متاثر ہوتی ہے، انہی علاقوں میں زلزلے زیادہ آتے ہیں۔ درحقیقت دنیا کے پہاڑ زلزلوںکے زیر اثر ہی بنے ہیں۔ زمین کی اندرونی پرت پھسلنے سے سطح زمین پر بعض علاقے اوپر کو ابھر آتے ہیں اور بعض پست ہو جاتے ہیں۔ کوہ ہمالیہ، کوہ الپس اور کوہ اینڈیز کو ہولناک زلزلوں نے ہی جنم دیا تھا۔ البتہ سائنس آج تک یہ پتا لگانے میں ناکام رہی ہے کہ دنیا میں آنے والے زیادہ تر زلزلے اور طوفان ''26 تاریخ‘‘ ہی کو کیوں آئے؟ یہ محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ ہے۔