میرے نانا جان ماہرِ فن تعمیر تھے۔ وہ لائل پور میں پیدا ہوئے‘ مشرقی اور مغربی پنجاب میں بہت سی اہم سرکاری عمارتیں اور پل انہوں نے ہی بنائے۔ وہ عمارتوں کے نقشے بھی بنایا کرتے تھے اور علاقوں کے نقشے بھی ڈیزائن کیا کرتے تھے۔ تقسیم کے وقت سرحدی حدود بندی میں بھی ان کی خدمات لی گئی تھیں لیکن تاریخ کے اوراق میں ان کا نام اب گم ہو گیا ہے۔ ان کا اصل نام تو محمد علی تھا لیکن سب ان کو بائو جی کہتے تھے کیونکہ وہ اپنے علاقے کے ان چند لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو بہت پڑھے لکھے تھے۔ جب میں چھوٹی تھی تو میں نے بھی نقشے بنانے شروع کر دیے، اس پر میری امی کہتی تھیں کہ یہ ہنر اس نے اپنے نانا جان سے لیا ہے۔ سکول میں بھی اور مجھے پاک سٹیڈیز اور جغرافیہ بہت پسند تھا، میرے نمبر ان مضامین میں سب سے زیادہ آتے تھے۔ جب میں کالج گئی تو اس وقت تک میں نے پورا ورلڈ میپ بنانا سیکھ لیا تھا۔ نقشے مختلف طرح کے ہوتے ہیں جن میں پولیٹکل میپ، فزیکل میپ، ٹائم زون میپ، زپ کوڈ میپ، موسمیاتی میپ، ارضیاتی میپ، زلزلہ زون میپ، الیکشن رزلٹ میپ، ٹوپوگرافک میپ، روڈ اور علاقوں کے نقشے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
کالج میں ہماری جغرافیہ کی لیب میں ایک بہت بڑا نقشہ لگا ہوا تھا‘ اس میں پاکستان کے پہاڑی سلسلے واضح طور پر دکھائے گئے تھے، میں روز اس نقشے کو بنانے کی پریکٹس کرتی اور اس کے لیے اٹلس بھی خریدی۔ سروے آف پاکستان گئی تو وہاں سے بھی نقشے خریدے اور غور کیا کہ کس خطے میں کون سا موسم ہے‘ کون سے جغرافیائی خدوخال ہیں اور کیا سیاسی حد بندیاں ہیں۔ جب بورڈ کے امتحانات ہوئے تو جغرافیہ کے پیپر میں پانچ سوالات حل کرنا تھے اور میں نے پانچوں سوالوں کے جواب میں ساتھ نقشے بھی بنا دیے۔ میرے اس مضمون میں سو میں سے 85 نمبر آئے تھے‘ جیو گرافی کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے مجھے بلا کر کہا: اتنے اچھے نمبر آنے پر شاباش‘ لیکن اس کا راز کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ ہر سوال کے ساتھ اس کی مناسبت سے نقشہ بھی بنایا تھا۔ اس پر انہوں نے مجھے شاباش دی اور چائے بھی پلائی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جیوگرافی لیب میں ایک فزیکل میپ لگا ہوا ہے‘ میں روز اس کو دیکھ کر پریکٹس کرتی تھی اور یہ بات سوچتی تھی کہ جب پاکستان سے اتنے عظیم پہاڑی سلسلے گزر رہے ہیں تو حکومت یہاں مائونٹین ٹورازم کو کیوں نہیں فروغ دیتی؟ یہاں زیادہ سیاح اور کوہ پیما کیوں نہیں آتے؟ بس ایک شندور میلے کا ہی سنتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا: تم مباحثے اور مذاکروں میں بھی جاتی ہو‘ کیوں نا اس بار یہی موضوع رکھ لیں؟ تم دیکھنا آدھے لوگوں کو اس بارے میں معلوم بھی نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنت کا ٹکڑا ہے جو پاکستان کے حصے میں آیا ہے، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ یہاں سے دریائوں کا آغاز ہوتا ہے، ان پہاڑوں کے دامن میں لاکھوں لوگ آباد ہیں، یہاں بڑے گلیشیرز موجود ہیں، دریائوں سے تازہ پانی اور مچھلیاں ملتی ہیں، یہاں سے معدنیات نکلتی ہیں، درخت ہیں‘ جنگلی حیات ہیں‘ قیمتی جڑی بوٹیاں ہیں‘ پھل ہیں‘ کیا کچھ نہیں ہے یہاں پر؟ صرف سیاسی عزم اور ارادے کی ضرورت ہے۔ ابھی تو یہ حال ہے کہ ان علاقوں میں ترقیاتی کام بھی نہیں کروائے جاتے۔
میں نے پہاڑی سلسلوں کے حوالے سے بہت سی کتابیں خریدیں‘ لائبریری بھی جاتی تھی تو ایسی کتابیں تلاش کرتی تھی، اس حوالے سے میں نے خوب مطالعہ کیا۔ اس کے بعد مباحثے‘ مذاکرے اور مضمون نویسی جیسے شوق مجھے صحافت کی طرف لے آئے اور میں جغرافیے سے کسی حد تک دور ہو گئی۔ اب شاید نقشہ زبانی تو نہ بنا سکوں لیکن اٹلس دیکھ کر اب بھی کبھی کبھی فراغت میں ورلڈ میپ بنا کر خوش ہوتی ہوں۔
قدرت نے پاکستان کو عظیم پہاڑی سلسلوں سے نوازا ہے جو شمال سے مغرب اور جنوب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں تین بڑے پہاڑی سلسلے قراقرم‘ ہمالیہ اور ہندوکش شامل ہیں۔ پاکستان میں پانچ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیاں ہیں جن میں کے ٹو (8611 میٹر)، نانگا پربت (8126 میٹر)،گاشابرم (8080 میٹر)، بروڈ پیک (8051 میٹر) اور گاشابرم II (8035 میٹر) شامل ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں میں خوبصورت وادیاں اور لاتعداد سیاحتی مقامات ہیں اس لئے پاکستان میں ہمیں سرمائی سپورٹس اور گرمیوں میں بھی پہاڑوں پر کھیلوں کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ کوہ پیمائی کی صنعت کو بھی فروغ دینے کے ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس برفانی چوٹیاں بھی ہیں اور خشک چٹیل پہاڑ بھی‘ جن کی اونچائی قدرے کم ہے۔ ضروری ہے کہ چوٹیوں کی اونچائی کے مناسبت سے کھیلوں کا انعقاد کیا جائے اور برف پوش چوٹیوں پر ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو مکمل سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کوہ پیما اور سیاح پاکستان آئیں اور ہم کثیر زر مبادلہ کما سکیں، اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام بھی روشن ہو گا۔ یہاں پر یہ بات بہت اہم ہے کہ کوہ پیمائوں کی حکومتی سطح پر سرپرستی کی جائے کیونکہ زیادہ تر افراد اپنی مدد آپ کے تحت غیر ملکی کوہ پیمائوں کے ساتھ چوٹیاں سر کرتے ہیں۔
حال ہی میں نیپال کے کوہ پیمائوں کی ایک ٹیم نے موسم سرما میں کے ٹو سر کر کے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے جس سے پاکستان اور نیپال میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کوہ پیمائوں کی ٹیم کو داد و تحسین سے نوازا اور اسے جی ایچ کیو مدعو کیا۔ سرمائی مہم جوئی کے دوران تین کوہ پیما جاں بحق بھی ہوئے اور ابھی تین لاپتا بھی ہیں جن میں پاکستان کے نامور کوہ پیما علی سدپارا بھی شامل ہیں جو 5 فروری سے لاپتا ہیں۔ اب ان کی بخیر و عافیت واپسی کے امکانات معدوم ہیں؛ تاہم پوری قوم کسی معجزے کی منتظر ہے تاکہ تینوں کوہ پیما زندہ لوٹ آئیں۔ یہ دنیا امید پر ہی قائم ہے۔ جہاں کوہ پیمائوں کی گمشدگی پر میں رنجیدہ ہوں وہیں یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ کاش علی سدپارا کو یہ پذیرائی پہلے ہی مل گئی ہوتی۔ ہماری قوم میں لاپتا ہونے یا مرنے جانے والے کو ہی ہیرو تسلیم کرنے کی سوچ کیوں پائی جاتی ہے۔ برف پوش پہاڑوں پر سرمائی مہم جوئی جان جوکھوں کا کام ہے البتہ سرمائی کھیلوں کا انعقاد قدرے آسان ہے۔ پاکستان ایئرفورس باقاعدگی سے نلتر میں الپائن سکی (SKI) چیمپئن شپ، آئس ہاکی چیمپئن شپ، سنو بورڈنگ کپ، آئس سکیٹنگ اور فگر سکٹینگ کا انعقاد کراتی ہے۔ یہ ایک بہترین کاوش ہے جس سے سرمائی کھیلوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ ان مقابلوں میں ملک بھر سے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں۔ نقطہ انجماد سے کم درجہ حرارت کے باوجود کھلاڑیوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے۔ گزشتہ برس فروری کی چیمپئن شپ میں 36 انٹرنیشنل سکیئرز نے پاک فضائیہ کی چیمپئن شپ میں حصہ لیا تھا۔ اس میں خواتین کھلاڑیوں کی بڑی تعداد بھی حصہ لیتی ہے۔ اس طرح کے کھیلوں کے انعقاد دیگر برفانی علاقوں میں بھی ہونے چاہئیں جن میں کھلاڑیوں کے علاوہ عام پبلک بھی حصہ لے سکے۔ سکیئنگ، سکیٹنگ، آئس ہاکی اور سنو بورڈنگ میں بچے بڑے‘ سب بہت دلچسپی لیں گے۔ اس سے حکومت اور سپورٹس بورڈ ریونیو بھی کما سکتے ہیں اور عوام کو اچھی تفریح بھی مل سکتی ہے جبکہ اس سے سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ علاوہ ازیں کیمپنگ کیلئے اچھی جگہیں قائم کی جائیں‘ جہاں انٹرنیٹ، کھانے پینے کی اشیا اور واش رومز موجود ہوں۔ اچھے ہوٹلز قائم کئے جائیں اور سیاحوں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی جائے۔ اس کے ساتھ ہائکنگ، راک کلائمبنگ، سنو بورڈنگ، فگر سکیٹنگ، سنو بورڈ ٹریکنگ، کرلنگ، سلیڈنگ (sledding)، سائیکلنگ کا انعقاد بھی کیا جانا چاہئے لیکن یہ تمام کھیل ماہرین کی نگرانی میں ہی ہوں، کوئی بھی مہم جوئی اکیلے نہیں کی جانی چاہئے۔ ٹھنڈے علاقوں میں ہر وقت گرم کپڑوں میں رہا جائے اور خوراک وپانی وغیرہ کا مناسب ذخیرہ ساتھ رکھا جائے۔ حکومت عوام کیلئے بھی ایسے مقامات اوپن کرے جس میں وہ ایکسپرٹس کی زیر نگرانی سرمائی کھیلوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
ہمیں پہاڑی مقامات صرف نقشوں پر نہیں‘ حقیقت میں اپنی آنکھوں سے دیکھنے ہیں۔ مجھ میں کے ٹو سر کرنے کی ہمت نہیں لیکن بیس کیمپ اور نلتر تک تو میں جا ہی سکتی ہوں۔ شاید دو چار بار گر گرا کر سکیٹنگ بھی آ ہی جائے لیکن پاکستان میں ایسے بہت سے نوجوان ہیں جن میں بہت ٹیلنٹ ہے، ان کو صرف موقع کی ضرورت ہے اور یہ چانس ان کو حکومت، سپورٹس بورڈ اور دیگر متعلقہ ادارے فراہم کر سکتے ہیں۔