تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-02-2021

اِک ذرا چھیڑیے …

آج کی بہت سی اصطلاحات ٹیکنالوجی کے شعبے سے آئی ہیں۔ ان اصطلاحات کو اگر ہم معاشرتی معاملات پر بھی منطبق کرنا چاہیں تو آسانی سے ہو جاتی ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کبھی کبھی یہ اصطلاحات اپنے اصل شعبے سے ہٹ کر دوسرے معاملات میں زیادہ موزوں دکھائی دیتی ہیں۔ اب LOADED کا لفظ ہی لیجیے۔ پرسنل ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ خریدیے تو اُسے اپنی پسند اور ضرورت کے تمام سوفٹ ویئرز سے پُر کرنے کے عمل کو LOADING کہا جاتا ہے۔ جس کمپیوٹر میں پسند اور ضرورت کے تمام سوفٹ ویئرز موجود ہوں اُسے FULLY LOADED کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح صرف کمپیوٹر پر صادق نہیں آتی بلکہ انسانوں پر بھی اس کا اطلاق بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ مرزا تنقید بیگ کے لیے یہ اصطلاح ہم بلا خوفِ تردید استعمال کرسکتے ہیں۔ اُن کا معاملہ ہی کچھ ایسا ہے کہ بات بات پر پھٹ پڑتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہر وقت بھرے ہوئے یعنی FULLY LOADED رہتے ہیں! میرزا نوشہ یعنی اسد اللہ خاں غالبؔ نے اپنے ایک خط میں دِلّی کی صورتِ حال کے حوالے سے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے یہ شعر رقم کیا تھا ؎
پُر ہوں میں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے!
فی زمانہ بیشتر پاکستانیوں کا یہی حال ہے۔ لوگ بھرے بیٹھے ہیں۔ سُوئی کی نوک چبھونے کی دیر ہے‘ غبارہ پھٹ پڑتا ہے۔ آج پاکستانی معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ جیسے ہی موقع ملے، اپنی بات شروع کیجیے اور پھر اپنا موقف درست ثابت کرنے کی خاطر سانس لیے بغیر بولتے چلے جائیے تاکہ فریقِ ثانی کو کچھ بولنے اور بالخصوص اپنے موقف کے حق میں دلائل دینے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ مرزا سے ہمارا ایک پُرانا اور بنیادی شکوہ یہ ہے کہ وہ جب بولنا شروع کرتے ہیں تو منہ کی گاڑی کو کسی سٹیشن پر تھوڑی سی دیر کے لیے روکنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایسا وہ شاید اس لیے کرتے ہیں کہ اُن کے مقابل کوئی بھی کچھ نہ کہہ پائے اور وہ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے میں کامیاب ہوں۔ موقف درست ثابت کرنے کے معاملے میں تو وہ کیا کامیاب ہوں گے، ہاں! اپنے بارے میں پائے جانے والے تاثر کو مزید پراگندا کرنے میں وہ ضرور کامیاب رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج اُن کا حلقۂ احباب انتہائی محدود ہے یعنی ایک ہم ہیں کہ اُنہیں جھیلنا گوارا کرلیتے ہیں۔ کوئی اور اپنے اندر اِتنی ہمت نہیں پاتا کہ باقاعدگی سے ملاقات بھی کرے اور کسی بھی معاملے میں اُن کے بے سَر و پا دلائل بھی جھیلے۔ منہ کی توپ کو گولے داغنے سے باز رکھنے میں ناکام رہنے پر مرزا آج اِس حال کو پہنچے ہوئے ہیں کہ خاندان اور گلی والے بات کرنے کو تیار نہیں۔ اور اِدھر ''استقامت‘‘ کا عالم دیکھیے کہ وہ آج بھی اپنی پسندیدہ اور لوگوں کی ناپسندیدہ روش ترک کرنے کو تیار نہیں۔ مرزا اور اُن کے قبیل کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صرف اُنہیں بولنے کا حق دیا جائے، کسی اور کو اگر حق ملے بھی تو صرف سماعت کا۔ غالبؔ نے کہا تھا ع
بات پر واں زبان کٹتی ہے
یہ کیفیت آج پورے معاشرے کی ہے۔ لوگ مختلف حوالوں سے بھرے بیٹھے رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے، شروع ہو جاتے ہیں اور پھر اُن پر قابو پانا کم و بیش ناممکن ہو جاتا ہے۔ جس طور کسی ساز میں نغمے بھرے ہوتے ہیں بلکہ اُسی طور آج ہمارے ہاں بیشتر افراد مختلف ضروری و غیر ضروری خیالات و تصورات سے یوں بھرے ہوئے ہیں کہ بات بات پر ع
''میں کہوں‘‘ اور سُنا کرے کوئی
والی کیفیت پیدا کرکے دم لیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہر شخص صرف اپنی بات کہنے پر کیوں تُلا رہتا ہے اور دوسروں کی آرا سُننے سے کیوں بھاگتا ہے؟ نفسی امور کے ماہرین کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ وہ ایسی کیفیت کی کیا توضیح کریں گے، اِتنا ضرور سمجھتے ہیں کہ یہ کیفیت اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان اندر سے کمزور ہو۔ جس کا باطن کمزور ہوتا ہے وہ اپنے ظاہر کو زیادہ سے زیادہ مضبوط دکھانا چاہتا ہے تاکہ لوگ مرعوب و مبہوت ہوکر چُپ رہیں اور باطن تک پہنچنے کی کوشش نہ کریں۔ آج کا انسان کئی مخمصوں کا شکار ہے۔ نفسی پیچیدگیوں نے ذہن میں یوں گھر کر رکھا ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی کم ہی لوگ خود کو ذہنی اعتبار سے متوازن رکھنے میںکامیاب ہو پاتے ہیں۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ ذہن پر کی جانے والی ''بمباری‘‘ سے بچنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ماحول میں معلومات ہی معلومات ہیں۔ عام آدمی کو روزانہ ہزاروں وڈیوز دیکھنے کا آپشن ملتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یار لوگ اپنا اپنا منجن بیچنے میں مصروف ہیں۔ کیمرے کے سامنے بیٹھ کر دو تین منٹ کا وڈیو کلپ ریکارڈ کرانے والے خود کو عقلِ کُل کے درجے پر فائز سمجھتے ہیں اور اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ کہیں بس اُسی کو حرفِ آخر سمجھ کر قبول کرلیا جائے اور کسی اور کی بات سننے کی زحمت گوارا نہ کی جائے۔ ہر وقت بھرے رہنے کی کیفیت پورے معاشرے پر محیط ہے اور اِس کیفیت کے برقرار رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ آج اگر کسی سے کسی بھی تنازع پر بات کیجیے اور دلائل طلب کیجیے تو وہ اپنے موقف کی صداقت ثابت کرنے کے معاملے میں جھوٹی انا کا شکار ہوکر ہر وہ بات کر بیٹھتا ہے جو نہیں کرنی چاہیے۔ سب سے بڑی بُرائی یہ ہے کہ فریقِ ثانی کا موقف سننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی اور صرف اپنی بات کو درست ثابت کرنے اور تسلیم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ کسی کے دلائل کو اُسی وقت درست تسلیم کیا جاسکتا ہے جب وہ دوسروں کی بات سننے کے لیے تیار ہو اور اس معاملے میں نمایاں فراخ دِلی کا مظاہرہ کرے۔
غیر ضروری معلومات ذہن کے پیالے میں انڈیلتے رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب لوگ کسی بھی معاملے میں اپنی بات منوانے کو زندگی کا ایک بڑا مسئلہ سمجھنے لگے ہیں اور اُن کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اُنہی کو درست مانا جائے۔ اس معاملے میں عمومی رویہ اب تجزیہ کار کا سا ہوچلا ہے۔ سوشل میڈیا میں باقاعدگی سے جلوہ افروز ہونے والے ''تجزیہ کار‘‘ بات بات پر سامری جادوگر بننے کی کوشش کرتے ہیں یعنی باتوں کو گھما پھراکر اپنا موقف درست ثابت کرنے کے معاملے میں وہی انداز اختیار کرتے ہیں جو سکول میں بچوں کے سامنے ''جادو کے کھیل‘‘ پیش کرنے والے اختیار کرتے ہیں۔ ہر تجزیہ کار ٹوپی سے کبوتر اور رومال سے انڈا برآمد کرنے کے درپے رہتا ہے۔ بلا ضرورت بولنے سے گریز جتنا ضروری کل تھا اُس سے کہیں زیادہ ضروری آج ہے۔ بات بے بات دلائل پیش کرنے پر تُل جانے کی عادت ترک کیے بغیر ہم اپنے رویوں میں توازن پیدا نہیں کرسکتے۔ صحت مند ذہن وہ ہے جو ضرورت کے وقت ہی بروئے کار لایا جائے۔ ہر موضوع اِس قابل نہیں ہوتا کہ اُس پر طبع آزمائی کر کے ہن کو نچوڑ دیا جائے، اور نہ اس بات کی گنجائش ہے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے آنے والی تمام معلومات کو مستند سمجھتے ہوئے ذہن میں ذخیرہ کرکے رکھا جائے۔ ایسی حالت میں ذہن کباڑ خانے کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی موقع پر کام کی کوئی بات کرنی ہو تو وہ ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں دبی رہ جاتی ہے اور لاحاصل باتیں زبان پر آکر شخصیت کا تاثر زائل کر بیٹھتی ہیں۔
آج ہم روزمرہ گفتگو کو بھی مناظرے کی شکل دے بیٹھے ہیںکیونکہ ہر شخص صرف اپنی بات منوانے پر بضد رہتا ہے۔ فریقِ ثانی کے دلائل سننے اور درست ہونے کی صورت میں اُنہیں قبول کرنے میں بخل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ روش ہمیں آن کی آن میں ''میں نہ مانوں‘‘ کے گڑھے میں گرادیتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ سمجھانے کی کوشش بھی بالعموم ناکامی ہی سے دوچار ہوتی ہے کیونکہ سماعت سے انکار کے ذریعے ذہن کے دروازے اور کھڑکیاں سبھی کچھ بند کرلیا گیا ہے۔ فضول سی توقع تھی کہ مرزا ہماری بات سمجھیں گے۔ انہیں تو ہم سمجھا سمجھاکر تھک گئے مگر آپ سے امید ہے کہ اس حوالے سے اصلاحِ نفس پر مائل ہوں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved