تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     14-02-2021

پاکستانی سیاست، پھر عدالت میں

پاکستانی سیاست ایک بار پھر بے سروپا درخواستیں لے کر عدالت میں حاضر ہے۔ بے سروپا دلائل دیے جا رہے ہیں، اور بے سروپا امیدیں لگائی جا رہی ہیں۔ جو کام اہلِ سیاست مل بیٹھ کر چند منٹ میں کر سکتے تھے اس کے لیے عدالتوں کے ہفتوں ضائع کرنے میں بھی انہیں کوئی تامل نہیں ہوا۔ ان کے آپسی جھگڑوں نے پاکستانی عدالتی نظام پر ستم ڈھایا ہے، اور اسے وہ کچھ کرنا پڑا ہے، جس کا کسی دوسرے جمہوری ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو تاجِ برطانیہ کے نمائندے، یعنی گورنر جنرل بہادر نے تحلیل کر ڈالا، تو انصاف کی دہائی دیتا سپیکر عدالت کے دروازے پر جا پہنچا۔ وہاں سے انصاف کے نام پر اُسے جو کچھ ملا اسے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے‘ انصاف نہیں۔ فردِ واحد کے گناہِ کبیرہ کو وہ سندِ جواز بخش دی گئی، جس کے اثرات سے پاکستانی ریاست آج تک نجات حاصل نہیں کر سکی۔ طاقت ور نے طاقت کو اس اس طرح قانون بنایا کہ طاقت بھی ہانپ کر رہ گئی۔ ریاست کی ضرورت ہے کہ اسے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کے ذریعے چلایا جائے، طاقت کا بوجھ اٹھائے چلے جانے کی اس میں سکت رہی ہے نہ ہمت، لیکن کوئی رحم کھانے کو تیار نہیں ع
وہی رنگ ہے بزم کا وہی روز جام چھلکے
جناب وزیراعظم اور ان کے جانثاروں کی طرف سے خرید و فروخت کے وہ مناظر دکھائے جا رہے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ پرانی ویڈیوز جاری کر کے داد وصول کی جا رہی ہے، پیسے کے لین دین کے فلمی مناظر دکھا کر اپنی پیٹھ آپ تھپتھپائی جا رہی ہے، لیکن یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جا رہی کہ اس دھندے میں ملوث اُس شخص کو جو کیمرے کی آنکھ میں پورے کا پورا محفوظ ہو گیا ہے، خیبر پختونخوا کی حکومت میں وزیر قانون کے منصب پر کیوں فائز کر ڈالا گیا؟ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ ویڈیو ایک ہے، یا کئی ہیں، وزیراعظم نے کس کو، کب اور کہاں دیکھا، ان کی طرف سے کبھی تصدیق ہوتی ہے، اور کبھی تصدیق کی تصدیق نہیں ہو پاتی۔ سب سے بڑا لطیفہ یہ ہوا کہ پیسے والوں کے خلاف جہاد کرنے کا دعویٰ کرتے کرتے بلوچستان سے ایک انتہائی مالدار شخص کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کی اس کارستانی پر اُسی کی بلوچستانی شاخ صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ جن صاحب کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہے، وہ تحریک میں نووارد ہیں‘ حیران ہوں دِل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو مَیں۔
اب بھی وقت ہے کہ اہلِ سیاست اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب پر اتفاق کر لیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ایک لمحے میں آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ختم ہو سکیں گی... اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی برسوں پہلے ''میثاق جمہوریت‘‘ میں اس کا اقرار کر چکی ہیں۔ اس اقرار نامے پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں محمد نواز شریف کے دستخط ثبت ہیں، لیکن اب ان جماعتوں اور ان کے حلیفوں کی جانب سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب تک انتخابی اصلاحات پر وسیع تر اتفاق نہیں ہو گا، وہ جزوی تعاون بھی نہیں کریں گی۔ اس غیر منطقی منطق کی داد دینے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ''سیکرٹ بیلٹ‘‘ سے انتخاب ہو گا تو حکومتی صفوں میں موجود باغی کھل کھیلیں گے‘ یوں اقتدار کے ماتھے پر ہزیمت کا داغ لگ جائے گا ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
چلئے، یہ معاملہ تقدیر کے سپرد کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ برادر عزیز ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم کی جیل ڈائری بڑے اہتمام کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کی ہے، اور ان کے سوانحی نقوش بھی چند صفحات میں اجاگر کر دیے ہیں۔ مولانا مرحوم جماعت اسلامی کے رہنما تو تھے ہی، جمعیت اتحادالعلما کی بنیاد رکھ کر بھی انہوں نے اپنے عہد سے خراجِ تحسین حاصل کیا تھا۔ ''مولانا گلزار احمد مظاہری... زندگانی، جیل کہانی‘‘ پاکستانی سیاست کے ان گوشوں کی یاد دلاتی ہے، جو اب حافظے سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ اس کے ''تعارفیے‘‘ کے طور پر لکھی گئی میری مختصر تحریر ملاحظہ کیجیے، اور پھر کتاب سے استفادے کا پختہ ارادہ بھی کر لیجیے:
''گلزار کہانی‘‘
٭ یہ اس بچے کی کہانی ہے‘ جو بھیرہ کے ایک متمول تاجر گھرانے میں پیدا ہوا لیکن دولت کے حصول کو اپنا مقصدِ حیات نہ بنا پایا‘ تجارت کو پیشے کے طور پر اپنانے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکا۔ ٭ یہ اس طالب علم کی کہانی ہے جس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اس کے والد نے بڑے چائو سے اسے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخل کرایا۔ دو سال کے اخراجات بھی پیشگی جمع کرا دیئے لیکن وہ یہاں جذب نہ ہو سکا، اچاٹ ہو کر سہارن پور جا پہنچا، وہاں کے معروف مدرسے ''مظاہرالعلوم‘‘ میں پناہ لے لی، اور وہیں کا ہو کر رہ گیا۔٭ یہ اس قاری کی کہانی ہے‘ جو تفسیر، حدیث اور فقہ کے زیور سے آراستہ ہونے کے بعد واپس گھر پہنچا، تو اعلائے کلمۃ الحق کی آرزو اس کے دِل میں تھی۔ اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کا خواب اس کی آنکھوں میں بس رہا تھا۔ سید عطااللہ شاہ بخاری کی خطابت نے اسے اپنا اسیر بنایا‘ لیکن پھر وہ سیر ہو کر سید ابوالاعلیٰ مودودی تک جا پہنچا۔ وہ بخاریؒ کے لہجے میں قرآن سنتا اور سناتا تھا، سننے والے اس پر سر دھنتے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سید مودودی کے رنگ میں قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے لگ گیا... آخری سانس تک اس کی یہ وابستگی برقرار رہی۔ ٭ یہ اس خطیب کی کہانی ہے‘ جو اپنا رستہ اسلاف سے جوڑ چکا تھا۔ ابو حنیفہؒ اور احمد بن حنبلؒ کی اصابت اس کی نگاہ میں تھی۔ وہ اہل اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگا، منصب سے ہاتھ دھونا پڑے، زنداں کے دروازے کھل گئے، لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ٭ یہ اس کارکن کی کہانی ہے‘ جو نظم جماعت کی پابندی کو ایمان کا حصہ سمجھتا تھا۔ امیر کے ایک حکم نے جس کے ذریعہ معاش کو یکسر بدل ڈالا۔ اس سہولت سے منہ موڑ کر عسرت سے دل لگانا پڑا۔ ٭ یہ اس عالم دین کی کہانی ہے جو مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فقہی مکاتب فکر کے درمیان پُل بن گیا تھا۔ انہیں ایک چھت کے نیچے، ایک صف میں بٹھا کر ایک کلمے کی سربلندی کیلئے ایک ہونے کی گزارش کرتا رہا۔ جمعیت اتحادالعلما کی بنیاد رکھنے کی سعادت اس کے حصے میں آئی تھی۔ ٭ یہ اس مولوی کی کہانی ہے جو طلبہ کو جدید و قدیم علوم سے آراستہ کرنے، مسٹر اور مولوی کے درمیان فاصلہ مٹانے کی سعی کرتا رہا۔ سرگودھا کا مدرسہ قاسم العلوم اس کا گواہ ٹھہرا، تو لاہور علما اکیڈمی بھی اس کی شہادت دے رہی ہے۔ ٭ یہ اس قیدی کی کہانی ہے‘ جس نے جیل کے شب و روز ہنستے مسکراتے گزار دیئے اور اس خلوت میں بھی جلوت کا سماں باندھے رکھا۔ یہ اس باپ کی کہانی ہے جس نے اپنے بچوں کیلئے اپنے آپ کو مثال بنایا۔ علم، حلم، قناعت اور کفایت کے سبق یاد کرائے۔ ٭ یہ وہ ''گلزار کہانی‘‘ ہے‘ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ (ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور سعید احمد پراچہ) نے جس کے سائے میں پرورش پائی۔ اب یہی 'گلِ گلزار‘ اس کی روداد سُنا رہے ہیں۔ اسے پڑھئے اورسر دھنئے، سفر جاری رکھنا ہے کہ منزل ابھی نہیں آئی؎
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved