تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-02-2021

یا قسمت‘ یا نصیب

میں ملتان سے سکھر کے راستے میں تھا جب دو تین دوستوں کے فون آئے۔ پوچھنے لگے: سکھر خیر سے جا رہے ہو؟ میں نے کہا: ویسے ہی جا رہا ہوں۔ پوچھا: کوئی کام ہے؟ میں نے کہا قطعاً کوئی کام نہیں‘ بس دل کیا اور چل پڑا۔ پھر سوال ہوا: اکیلے جا رہے ہو؟ میں نے کہا کہ اکیلا نہیں ہوں‘ اسد ساتھ ہے۔ اس کے بعد مزید تفتیشی سوالات۔ بہت قریبی دوستوں نے تو زیادہ نہیں پوچھاکہ وہ جانتے ہیں‘ میں کسی بھی وقت اٹھ کر چل پڑتا ہوں اور کسی کام کے بغیر کہیں جانا میرے لیے کوئی غیرمعمولی بات نہیں؛ تاہم بعض دوست ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ بلامقصد گھومنا میرے لیے دل لگانے اور دل بہلانے کا ذریعہ ہے‘ اور بھلا دل لگانے سے بڑھ کر وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
فون پر ملک خالد ہنس کر کہنے لگا: چلو تمہاری تو خیر ہے لیکن اسد کو کس خوشی میں اپنے ساتھ خوار کیا جا رہا ہے؟ میں نے کہا: میں چاہتا ہوں‘ وقت آئے تو وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ اسی طرح اکٹھے گھومے اور اگر کبھی سکھر آئے تو اپنے بچوں کو بتائے کہ میں برسوں پہلے تمہارے دادا کے ہمراہ یہاں آیا تھا‘ سید معصوم شاہ کے منارے پر چڑھا تھا، دریائے سندھ کے درمیان ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع سادھو بیلا مندر آیا تھا۔ دریائے سندھ پر 1889 میں تعمیر ہونے والے Lansdowne Bridge سے پیدل گزرا تھا۔ 1932 میں تعمیر ہونے والے لائیڈ بیراج عرف سکھر بیراج کی لمبائی پر حیران ہوا تھا اور یہ بتائے کہ تب کوٹ ڈیجی میں میروں کا شیش محل اور سفید محل کسی نہ کسی طور موجود تھے اور عظمت رفتہ کی کہانی سناتے تھے۔ ٹکر بنگلو آباد تھا اور میر علی مراد خان تالپور محرم کے ایام اس محل میں گزارا کرتے تھے۔
کئی بار ارادہ کیا کہ دریائے سندھ کے اندر چھوٹے سے جزیرے (بلکہ ٹاپو ہی کہیں) پر 1823 میں بننے والا ہندوئوں کا سادھو بیلا مندر اندر سے دیکھوں مگر ڈپٹی کمشنر سکھر سے اجازت نامہ آڑے آ جاتا۔ اس بار سکھر روانگی سے قبل اس کا بندوبست کرلیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر سکھر رانا عدیل تصور کا تعلق ملتان سے ہے اور صرف شہر کا ہی نہیں، بھتیجے علی خیال اور کتاب سے محبت کا تعلق بھی درمیان میں ایک ایسا رشتہ تھا، جس نے سب کچھ آسان کردیا۔ میں نے اور اسد نے اس سنسان اور خاموش مندر میں تین منزلہ عمارت کے اوپر چڑھ کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دور ایک طرف لائیڈ بیراج تھا اور دوسری طرف بلندوبالا محراب دار ایوب برج اور اس کے پیچھے سرخ رنگ کا دو حصوں میں بٹا ہوا لینس ڈائون برج۔ تب اپنی نوعیت کا دنیا میں سب لمبے SPAN والا Girder bridge۔ بچپن میں اس پل کی بڑی کہانیاں سنتے تھے کہ یہ قینچی دار کھلنے والا پل ایک مسلمان انجینئر نے بنایا تھا اور انگریزوں نے اس کے ہاتھ کٹوا دیے تاکہ وہ دوبارہ ایسا پل نہ بنا سکے لیکن اس انجینئر نے پل کی چابی دریائے سندھ میں پھینک دی جو پھر کبھی نہ ملی۔ بچپن میں اس گھڑی گئی کہانی پر بڑا ملال ہوتا تھا۔ مندر میں نیچے چھوٹے سے سرسبز لان میں آٹھ دس مور دانہ دنکا چگنے میں لگے ہوئے تھے۔
اسد نے پوچھا: سکھر بیراج کہاں ہے؟ میں نے کہا: وہ سامنے کی سمت جو دھندلا سا پیلا پل ہے، وہی سکھر بیراج ہے۔ اسد کہنے لگا: آپ نے تو بتایا کہ یہ لائیڈ بیراج ہے۔ میں نے کہا: یہ ہے تو اصل میں لائیڈ بیراج ہی‘ اس کا نام تب کے گورنر بمبئی سر جارج ایمبروز لائیڈ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کو بالکل اسی طرح سکھر بیراج کردیا گیا جس طرح لائل پور فیصل آباد بن گیا ہے۔ نواب شاہ اب بے نظیر بھٹو آباد ہے۔ سکھر کا 1936 میں بننے والا سیٹھ دیال داس پنجومل پارک اب غزنوی پارک ہے اور روہڑی کا رائے بہادر سیٹھ چندی رام ویرہومل دولتانی کا بنایا ہوا زچہ خانہ و زنانہ شفاخانہ آج کل تعلقہ ہسپتال ہے۔ ہم پلے سے کچھ خرچ کیے بغیر صرف نام تبدیل کرکے ایک تختی لگاتے ہیں اور اپنی اس سخاوت پر خود ہی نازاں ہوتے رہتے ہیں اور تختی بھی اپنے پلے سے نہیں، سرکار کے خرچے پر لگاتے ہیں۔
سکھر میں سب سے مشہور اور نمایاں عمارت میر معصوم شاہ بکھری کا مینار ہے۔ یہ مینار ایک زمانے میں سکھر کے ہر کونے سے نظر آتا تھا، لیکن اب شہر میں بننے والی بلندوبالا عمارات کے باعث صرف قریب آنے پر ہی نظر آتا ہے۔ چار سو سال سے زیادہ پرانا یہ مینار سوفٹ بلند ہے مگر شہر کی نسبتاً بلند جگہ پر تعمیر کے باعث مزید بلند ہوکر اپنی دلآویزی کا نظارہ کرواتا ہے۔ پیلی اینٹوں سے بنے ہوئے اس مینار میں نیلی ٹائل کی دو پٹیاں اسے مزید خوبصورت بناتی ہیں۔ اس مینار کی چوراسی سیڑھیاں ہیں۔ میں نے اسد کو کہا کہ یہ سیڑھیاں خاصی تنگ ہیں اور میرا وزن اب کافی زیادہ ہو گیا ہے، خدا جانے میں اب ان سیڑھیوں سے گزر کر اوپر پہنچ بھی سکوں کا یا راستے ہی میں پھنس کر واپس آئوں گا۔ اسد ہنسا اور کہنے لگا: اگر آپ پھنس گئے تو میں آپ کو آگے سے کھینچ کر اوپر لے جائوں گا۔
جب ہم مینار کے داخلی دروازے پر پہنچے تو اسد کہنے لگا: بابا جان! سیڑھیاں تو خاصی کھلی ہیں‘ آپ خواہ مخواہ پریشان ہورہے تھے۔ میں نے کہا: جوں جوں اوپر جائو گے یہ سیڑھیاں اسی طرح تنگ ہوتی جائیں گی، جس طرح مینار اوپر سے پتلا ہورہا ہے۔ دو منزلیں گزرنے کے بعد اسد کہنے لگا: آپ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ یہ تو بہت ہی تنگ ہوگئی ہیں۔ میں ہنسا، اور اسے کہا: اس بار تو ان سے گزر جائوں گا، آئندہ کی آئندہ دیکھیں گے۔ پھولی ہوئی سانسوں پر تھوڑا قابو پانے کے بعد میں نے اسے بتایا کہ گزشتہ بار میں جب شدید گرمیوں میں اس مینار پر چڑھا تھا تو اس مینار پر بلکہ اس پورے کمپلیکس میں‘ جس میں سید نظام الدین میر محمد معصوم شاہ بکھری اور ان کے خاندان پر مشتمل مختصر سا قبرستان اور ہشت پہلو آرام گاہ فیض محل شامل ہے‘ میرے علاوہ کوئی ذی روح نہیں تھا۔ دریائے سندھ کی طرف سے آتی ہوئی خوشگوار ہوا نے میرا پسینہ خشک کر دیا اور قریب دو گھنٹے اس مینار پر بیٹھا رہا۔ وہ ایک روشن دن تھا اور پورا سکھر میرے سامنے تھا۔ اب وہ حال نہیں رہا۔ اسد پوچھنے لگا: یہ چھوٹا سا Octagonal کمرہ فیض محل ہے؟ میں نے کہا: اس کمرے کا نام بھی فیض محل ہے مگر اس کا خیرپور والے فیض محل سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ توتب تعمیر ہوا تھا جب شاید خیرپور ہی صفحہ ہستی پر نہیں ہوگا۔ جسے تم اوکٹاگونل کہہ رہے ہو‘ اردو میں اسے ہشت پہلو کہتے ہیں‘ یہ عمارت مثمن کہلائے گی۔ اس نے یہ بات بظاہر بڑی توجہ سے سنی‘ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگلی بار پوچھا تو وہ صرف ہنس کر دکھا دے گا۔ میں نے اسے بتایاکہ تب سکھر کا نام بکھر تھا‘ اور دریائے سندھ پر لینس ڈائون پل اور چھوٹے پل کے درمیان جو جزیرہ ہے وہ اب بھی بکھرجزیرہ کہلاتا ہے۔
واپسی سے پہلے میں نے اسد کو کہا کہ اگلی بار آنا ہوا تو ان شاء اللہ سکھر کی باقی ماندہ جگہیں دیکھیں گے، روہڑی چلیں گے، کوٹ میر یعقوب علی کا چکر لگائیں، صالح پٹ گھومیں گے۔ یہاں سے بیس پچیس کلومیٹر دور سہرا بانی تالپور قبرستان یعنی میر سہراب تالپور کی شاخ سے تعلق رکھنے والوں کے قبرستان جائیں گے۔ چوکنڈی اور مکلی کے قبرستان کی طرز پر بنی ہوئی پیلے پتھر کی منقش قبروں والے قبرستان میں زندگی کی بے ثباتی اور دنیاوی جاہ و جلال کی کسمپرسی ملاحظہ کریں گے۔ ماڑی مندوڈیرو چلیں گے اور شاندار عمارتوں کے پورے کمپلیکس کو اپنی یادوں کا حصہ بنائیں گے۔ خدا جانے کب یہ سب کچھ ختم ہو جائے اور ہاں! لینس ڈائون پل سے روہڑی میں داخل ہوتے ہی جس بلندوبالا عمارت کا تم نے پوچھا تھا، وہ سات منزلہ کنیّا لال کاٹیج ہے‘ اس پر چڑھیں گے۔ لیکن یہ سب ارادہ ہے۔ اس کی تکمیل اس مالک کے حکم اور اجازت سے مشروط ہے۔ یا قسمت، یا نصیب!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved