ہر معاملے کو متنازع بنانا ہماری سیاسی قیادت کا تو جیسے وتیرہ بن گیا ہے۔ عام انتخابات سے سینیٹ انتخابات تک ہمارے ہاں کوئی بھی الیکشن بغیر کسی تنازع کے مکمل نہیں ہو پاتے اور اگر کسی طرح سے ہو بھی جائیں تو اگلے 5 سال اسی گنجھل کو سلجھانے میں گزر جاتے ہیں۔
اگر اصولی طور پر بات کی جائے تو حکومت کی جانب سے شفافیت بڑھانے اور خرید و فروخت روکنے کی نیت سے اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانے کی بات درست ہے‘ لیکن اس وقت جو سیاسی ماحول بنا ہوا ہے اس میں حکومت کی نیت پر شک کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کا موقف یہ ہے کہ حکومت اپنے ارکان پر بد اعتمادی کی بنا پر اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانا چاہ رہی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ خفیہ بیلٹ ختم ہونے سے سیاسی جماعتوں کے وہ اراکین اسمبلی جو نظریات کی بنیاد پر پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینا چاہیں گے تو نہیں دے پائیں گے‘ اور پارٹی سے اختلاف کی جرأت بھی نہیں کر سکیں گے لیکن شاید ہمارے موجودہ سیاسی نظام میں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو گی۔ دوسری جانب ووٹوں کی منڈی لگنے کی جو ویڈیو منظر عام پر آئی وہ تحریک انصاف کے اراکین کی خرید و فروخت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے‘ لیکن وزیر اعظم کی باتوں میں تضاد بھی سامنے آیا۔ 2018ء کی ویڈیو 2021ء میں منظر عام پر آنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اگر یہ ویڈیو ان کے پاس ہوتی تو جو اراکین اسمبلی ان کے خلاف عدالت میں گئے‘ وہ ان کے خلاف یہ ویڈیو عدالت میں پیش کر دیتے اور کیس ہی ختم ہو جاتا‘ حالانکہ 2018ء میں خان صاحب خود اپنی تقریر میں ویڈیو ہونے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔ دوسری طرف اس ضمن میں جو تحقیقاتی کمیٹی بنی اس کے ہاتھ بھی پہلے دن سے ہی باندھ دئیے گئے ہیں کہ جو دو لوگ اس خرید و فروخت کے مبینہ مرکزی کردار تھے‘ ان سے تو تحقیقات ہی نہیں کی جا سکتیں۔ اس صورت حال کو پنجابی زبان میں کہتے ہیں ''گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنا‘‘ خیر یہ سمجھ میں آنے والی بات بھی ہے کیونکہ پرویز خٹک صاحب کچھ دن قبل ہی یہ بتا کر 'کہ اگر وہ چاہیں تو حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی‘ اپنی اہمیت جتلا چکے ہیں۔ حالیہ سینیٹ انتخابات سے قبل آصف زرداری صاحب کو پی ڈی ایم کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کے جوڑ توڑ کے لئے 'فری ہینڈ‘ دینا بھی ذو معنی ہے۔ کیا پتا یہ سینیٹ انتخابات حکومت کے خلاف ایک ریفرنڈم ثابت ہو جائیں کیونکہ یہ پاکستان کی سیاسی پٹاری ہے اس میں ہیٹ میں سے خرگوش تو نکلتے ہی ہیں؛ البتہ بعض اوقات خرگوش میں سے ہیٹ بھی برآمد ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کی تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہ گزشتہ کئی روز سے آپس میں ٹیلی فونک رابطے میں ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سینیٹ الیکشن اور پی ڈی ایم کی حکمت عملی کے حوالے سے نہ صرف مسلسل رابطے میں ہیں بلکہ بہت ساری چیزوں پر اتفاق بھی کر چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے گزشتہ سربراہی اجلاس میں سابق صدر آصف زرداری کی طرف سے تجویز پیش کی گئی تھی کہ ان کو سابق صدر مشرف کو بھی اقتدار سے نکالنے کا تجربہ ہے‘ لہٰذا ان کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور پھر اس کو کامیاب بنانے کا مینڈیٹ دیا جائے۔
واقفان حال کے مطابق حالیہ دنوں میں آصف زرداری اور نواز شریف کے مابین ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں میاں نواز شریف نے نہ صرف آصف زرداری کو ان ہائوس تبدیلی کے لئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا بلکہ تمام تر اقدامات میں ساتھ دینے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس سارے عمل میں ایک پُل کا کردار ادا کیا ہے۔ میاں نواز شریف نے آصف زرداری کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ عدم اعتماد کے لئے مطلوبہ نمبر اکٹھے کر لیتے ہیں تو مسلم لیگ ن پوری شد و مد کے ساتھ، ان کے ساتھ ہے۔ اس پر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی طرف سے اسمبلیوں سے استعفے کی تجویز پر بھی مشروط رضا مندی ظاہر کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں اس حوالے سے واضح فیصلے کر لیے جائیں گے۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اسلام آباد کی سیٹ پر پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار بنانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ عمل دراصل آصف زرداری صاحب کی مخصوص سیاست کا عکاس ہے۔ سیاسی تجزیہ کار یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ الیکشن کو متحدہ اپوزیشن کی طرف سے ایک ''ٹیسٹ رن‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اگر پی ڈی ایم، حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے 15 سے 20 رکن توڑنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر ان کے لئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اور اس کو کامیاب کرانا بھی نا ممکن نہیں رہ جائے گا۔
اگر ہم صوبائی اسمبلیوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیں تو پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں 181، خیبر پختونخوا میں 94، سندھ میں 30 اور بلوچستان میں 7 رکن اسمبلی رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں 165، خیبر پختونخوا میں 6 اور بلوچستان میں ایک سیٹ کی حامل ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں 7، خیبر پختونخوا میں 5، سندھ میں 97 ووٹ رکھتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ صرف اور صرف سندھ میں 21 ووٹ رکھتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا میں 12 اور بلوچستان میں 4 ووٹ رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کے خیبر پختونخوا میں صرف 3 ووٹ ہیں۔ جے یو آئی (ف) خیبر پختونخوا میں 15، بلوچستان عوامی پارٹی خیبر پختونخوا میں 4 اور بلوچستان میں 24 ووٹ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) پنجاب میں 10 اور خیبر پختونخوا میں ایک ووٹ رکھتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل بلوچستان میں 11 ووٹ رکھتی ہے۔ پاکستان عوامی پارٹی خیبر پختونخوا میں 4 اور بلوچستان میں 24 ووٹ رکھتی ہے۔ پنجاب میں آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہونے والے اراکین اسمبلی کی تعداد 4، خیبر پختونخوا میں 4 اور بلوچستان سے ایک ہے۔ پاکستان راہ حق پارٹی پنجاب سے صرف اور صرف ایک ووٹ رکھتی ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی بلوچستان سے صرف ایک ووٹ رکھتی ہے۔ جمہوری وطن پارٹی بھی صرف بلوچستان سے ایک ووٹ رکھتی ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بلوچستان سے صرف 2 ووٹ رکھتی ہے۔
اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو سینیٹ الیکشن 2021ء میں ممکنہ پارٹی پوزیشن کچھ ایسے بنتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب سے 5، تحریک انصاف پنجاب سے 6، خیبر پختونخوا سے 10، سندھ سے 2، بلوچستان سے ایک، اسلام آباد سے 2 نشستیں جیت سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ سے 7، ایم کیو ایم سندھ سے صرف ایک سیٹ جیت سکتی ہے‘ جبکہ جے یو آئی (ف) پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد سے کوئی بھی سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔ دوسری طرف ایم ایم اے/ جے یو آئی (ف) خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ایک، ایک سیٹ جیت سکتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا سے ایک سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد سے اکیلے تو کچھ نہیں کر سکتی مگر حکومت کی اتحادی ہونے کے ناتے پنجاب سے ایک سیٹ جیت سکتی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی بلوچستان سے ہی 9 جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستان سے ایک سیٹ جیت سکتی ہے۔