تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-02-2021

سرخیاں، متن، ’’لوح، ناول نمبر‘‘ اور ابرار احمد

ایسے منصوبے بنائے جاتے ہیں جن کے اشتہار
دے کر عوام سے ووٹ لیے جا سکیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''ایسے منصوبے بنائے جاتے ہیں جن کے اشتہار دے کر عوام سے ووٹ لیے جا سکیں‘‘ حالانکہ کامیابی قدرت سے ملتی ہے جس کے لیے ایسے وسائل پیدا ہو جاتے ہیں کہ خود کامیاب ہونے والا بھی دنگ رہ جاتا ہے ، چونکہ یہ مملکتِ خدادادہے اس لیے اس کے جملہ معاملات کی نگرانی قدرت خود کرتی ہے اور سب کچھ اسی کے ذمے ہے جس کی مرضی کے بغیر یہاں پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ آپ اگلے روزلاہور میں جیلانی پارک میں میواکی جنگل کے منصوبے کا افتتاح کر رہے تھے۔
جو مرضی کر لو تمہارا جانا ٹھہر گیاہے : مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''عطا تارڑ کی گرفتاری، جو مرضی کر لو تمہارا جانا ٹھہر گیا ہے‘‘ اور یہ اس وقت سے ٹھہرا ہوا ہے جب سے ہم نے اس حکومت کے خلاف تحریک شروع کی تھی اور ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا حالانکہ چل چل کر ہم پھاوے ہو چکے ہیں اور اگر گرفتاری ڈرامہ ہی تھا تو بھی اس کا کریڈٹ عطا تارڑ ہی کو دینا چاہیے کیونکہ ڈرامہ کرنا بھی ایک بڑی خوبی ہے، والد صاحب کا سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لندن روانہ ہونا اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ضمیر صاف ، الزام لگانے والے کا منہ کالا ہو گا: پرویز خٹک
وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''میرا ضمیر صاف ہے، جھوٹا الزام لگانے والے کا منہ کالا ہو گا‘‘ اور یہ کب کالا ہوگا، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا، جبکہ پی ڈی ایم والے اپنی کامیابی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اور اب انہوں نے حکومت کے جانے کی تاریخیں دینا بھی چھوڑ دی ہیں، حتیٰ کہ استعفوں کے بارے میں بھی کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد اس پر سوچیں گے، اس طرح میں بھی پر امید ہوں کہ جھوٹا الزام لگانے والے کا منہ ایک نہ ایک دن ضرر کالا ہوگا ۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
حکومت سینیٹ انتخابات کے نتائج سے خوفزدہ ہے: رانا تنویر
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''حکومت سینیٹ انتخابات کے نتائج سے خوفزدہ ہے‘‘ جبکہ ہم پوری طرح سے مطمئن ہیں کیونکہ ہمارا ٹارگٹ ایک سیٹ ہے جسے ہم ہر صورت حاصل کر لیں گے، اور حکومت بھی ہماری اس ایک سیٹ سے خوفزدہ ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی معذرت کے بعد پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سامنے لانے کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ہے جبکہ بارشوں نے بھی اس پانی میں کافی اضافہ کیا اور حکومت کو گرانے کے دعوے بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئے ہیں۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ملازمین کو مشتعل کرنے کی کوشش ناکام رہی: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کی ملازمین کو مشتعل کرنے کی کوشش ناکام رہی‘‘ اور اس سے زیادہ نا اہلی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ملازمین کو بھی مشتعل نہ کر سکی اور اپوزیشن ہمیں نا اہل کہتے کہتے خود نا اہل ہو گئی ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ ہمیں نالائق اور نا اہل کہنا چھوڑ دے، اور خود نا اہل اور نالائق کہلانے کے لیے تیار ہو جائے بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ اسے کٹھ پتلی اپوزیشن کے بھی نام سے پکارا جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ویڈیو پیغام جاری کر رہے تھے۔
سہ ماہی لوح (ناول نمبر)
ممتاز احمد شیخ کی ادارت میں چھپنے والے اس جریدے کا یہ ناول نمبر ہے جس میں ناول کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ، آغاز اور ارتقا کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ پرچہ اولڈ راوینز کی جانب سے اسیرانِ علم و ادب کے لیے توشۂ خاص کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں'' ناول کی طرف پیش رفت‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اور ''آغاز و ارتقا ئے ناول‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر رشید امجد کے مضامین ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں شروع سے لے کر اب تک تخلیق کیے گئے ناولوں سے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جو بہر حال ایک دقت طلب کام تھا۔ حرفِ لوح کے عنوان سے پیش لفظ ہے جو مدیر کا قلمی ہے، بلا شبہ اس میں اب تک لکھے گئے ناولوں کا گویا جوس نکال کر پیش کر دیا گیا ہے اور ناول کی ساری کائنات کھل کر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ گیٹ اپ خوبصورت، صفحات 800۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
مجھے کیا کرنا چاہیے
تمہارے بعد
مجھے کیا سوچنا چاہیے
اُن دنوں کو
جب سڑکوں پر گھومتے ہوئے
میرے گانے پر تم ماچس بجایا کرتے تھے
یا جب میرے سوال کو تم
ہنسی میں اُڑاتے ہوئے کہہ دیتے
''تم ابھی Below 40 ہو‘‘
یا پھر اُن گھروں کو نکل جانا چاہیے
ایک آخری نظر ڈالنے کو
جن کی مٹی میرے اندر اُڑتی ہے
یا خاک کی ڈھیریوں کے جوار میں
جہاں اپنے وجود کے مزید بے معنی ہونے کا
یقین مل سکے؟
کیا مجھے کوئی نوحہ لکھنا چاہیے
کہ تمہاری وضعداریوں پر
پڑنے والی ضربوں کی طرح
میری محبت کا خواب بھی ٹوٹ چکا؟
موت کی جانب ہماری پیش قدمی
محض چار قدم کے فرق سے
مسلسل جاری رہی ہے
تو کیا میں یہ فاصلہ بھاگ کر ختم کر دوں؟
سمجھ نہیں آتی میں یہاں رُکنا چاہتا ہوں
اور نہیں چاہتا، ایک آدھ رہ جانے والا کام
کیے بغیر ہی بھاگ نکلوں؟
میں تمہاری طرح ہارنا بھی نہیں چاہتا
حالانکہ یہ ایسی جنگ بھی نہیں
جس میں، میرے پاس
کوئی ہتھیار موجود ہو
سوائے دنیا سے شدید کمینی محبت کے۔۔۔
ہزیمت کے دنوں کے بعد
ہم دو ہارے جواریوں کی طرح
بے زبان ہو گئے
فون کے دوسرے کنارے پر
خاموشی ہے
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی
اسے پٹخ دوں
یا کان سے لگائے رکھوں۔۔۔۔؟
آج کا مقطع
میں چوم لیتا ہوں اُس راستے کی خاک، ظفرؔ
جہاں سے کوئی بہت بے خبر گزرتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved