تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-02-2021

جو بڑھ کر اٹھالے یہ ساغر اُسی کا

ہر انسان پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب سبھی کچھ اچھا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی کی کڑوی بات بھی تھوڑی سی میٹھی ہی لگتی ہے۔ ذہن ایسا بہت کچھ سوچتا ہے جو اپنے آپ پر ہتھوڑے برساتا ہے اور دل بہت کچھ جھیلتا ہے مگر یہ سب کچھ بخوشی ہوتا ہے۔ جی ہاں‘ ہم جوانی کے مرحلے کی بات کر رہے ہیں۔ جوانی کا جوش انسان کو بہت کچھ جھیلنے کی ہمت عطا کرتا ہے۔ کوئی گر پڑے تو خون کی گرمی کی بدولت فوری طور پر زیادہ درد محسوس نہیں ہوتا۔ کچھ دیر بعد جسم کا جواب آنا شروع ہوتا ہے تو جان پر بن آتی ہے۔ عنفوانِ شباب کی کیفیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انسان چھوٹی موٹی بات کا تو کوئی اثر لیتا ہی نہیں۔ اور جب اثرات قبول کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تب تک اچھی خاصی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ ہر دور کا انسان عہدِ شباب میں کسی اور ہی زمانے کا لطف کشید کرتا آیا ہے۔ آج یہ کیفیت کچھ زیادہ سَر چڑھ گئی ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ آج ایسا بہت کچھ ہے جو عہدِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے والوں کے دل و دماغ کی چُولیں ہلادیتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے راہِ راست سے ہٹنا اور اپنی ہی راہ میں کانٹے بچھانا بہت آسان کردیا ہے۔ قدم قدم پر ''محبت کے دستر خوان‘‘ بچھے ہوئے ہیں تو کوئی کافر ہوگا جو پیٹ نہ بھرے گا! جب انسان جوشِ جوانی کے ہاتھوں کسی کو خوابوں میں بسانے کے بعد دماغ کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے تمام معاملات دل کو سونپتا ہے تب ہر گھڑی نظر میں ایک ہی چہرہ بسا رہتا ہے‘ ہر سانس سے ایک ہی صدا ابھر رہی ہوتی ہے ؎
خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے
کسی کا نام لوں‘ لب پہ تمہارا نام آئے
اور پھر یہ دیکھیے کہ قدرت مہربانی فرمادے یعنی نام لب پر آجائے تو ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ اٹھتی جوانی اور محبت کا عالم ہی کچھ عجب ہوتا ہے۔ لوگ کچھ بھی کہیں اور کہتے رہیں‘ بربادی کی طرف اٹھتے قدم روکنے پر دل مائل ہی نہیں ہوتا۔ سکون غارت ہوتا جاتا ہے اور بے تابی بڑھتی جاتی ہے مگر پھر بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا عمل ترک کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ جو چیز دکھ دے رہی ہوتی ہے اُسی سے سُکھ بھی نصیب ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت غالبؔ نے یوں بیان کی ہے ؎
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر انسان بہت کچھ بخوشی جھیلتا‘ سہتا ہے۔ جب تک دل و دماغ کسی حد تک کام کرنے کی صلاحیت و سکت کے حامل رہتے ہیں تب تک کوئی تکلیف‘ کوئی اونچ نیچ محسوس ہی نہیں ہوتی۔ جب جوش کا دریا اترتا ہے اور انسان خود کو اُتھلے پانی میں پاتا ہے تب دماغ کچھ کچھ ٹھکانے پر آنے لگتا ہے اور تب خیال آتا ہے ع
خبر کیا تھی کہ یہ انجام ہوگا دل لگانے کا
''محبتاں سچیاں‘‘ بھی ہوتی ہوں گی مگر صاحب‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تو اپنے ماحول میں ایسے ہی لوگوں کو دیکھا ہے جو محبت کے نام پر بھنوروں کے مانند کلی کلی منڈلاتے رہنے کو زندگی کا (یا کم از کم جوانی کی زندگی کا) حاصل گردانتے ہیں۔ نئی نسل خود کو دل کے ہاتھوں میں سونپ کر دماغ کو ٹھکانے لگانے پر بضد رہتی ہے۔ دل کی عدالت میں یہ محبت کے وکیلوں کی پریکٹس ہی تو ہے جو بھری جوانی میں انسان کو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے مزید اُدھر کرتی چلی جاتی ہے۔ گویا ؎
جہاں میں ''اہلِ دل‘‘ بھی صورتِ خورشید جیتے ہیں
اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
ایسا کیوں نہ ہو کہ محبت کے نام پر جو کچھ بھی ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے اُس کی نوعیت کی کچھ ایسی ہے کہ انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ جس راہ پر وہ چل رہا ہے وہ کہاں لے جائے گی۔ محبت کی بستی بھی عجیب ہے کہ اِس کا ہر مکین تمام معاملات یعنی اُتھلے پانیوں جیسے معاملاتِ دل کا انجام اچھی طرح جانتا ہے مگر تاثر ایسا دیتا ہے جیسے وہ تو ننھا کاکا ہے‘ اُسے تو کچھ پتا ہی نہیں۔ کسی سے پوچھئے کہ جب انجام کا اندازہ ہے یعنی ذلیل و خوار ہی ہونا ہے تو یہ سب کچھ ترک کردینے میں جھجک کیسی؟ تو جواب ملتا ہے کہ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ یعنی ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد / پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
جوشِ جوانی کے نشے میں چُور ہوکر دھوکا کھانے والے جھنجھلاکر کہتے ہیں کہ ایسی محبت سے ہم تو باز آئے مگر پھر بہت جلد اِسی ڈگر پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ اِسی کیفیت کو تو کماحقہ بیان کرنے کی خاطر میرزا نوشہ نے کہا ہے ؎
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
محبت کیا ہوتی ہے‘ کیا کیا مہربانیاں کرتی ہے‘ کیسے کیسے ستم ڈھاتی ہے یہ سب ہمیں ہرگز معلوم نہ ہو پاتا اگر برِصغیر کے فلم میکرز فلمیں بناکر ہمیں نہ بتاتے‘ نہ سمجھاتے! ابتدائی ادوار میں کہانیاں سوچنا جاں گُسل مرحلہ ہوتا تھا اس لیے ایک مدت تک لیلیٰ مجنوں‘ شیریں فرہاد‘ سوہنی مہیوال‘ ہیر رانجھا اور مرزا صاحباں کی داستانوں پر طبع آزمائی کے ذریعے کام چلایا جاتا رہا۔ اس خطے کے مختلف ادوار کی نئی نسل کو محبت کا چلن چونکہ فلموں سے سیکھنے کا موقع ملا ہے اس لیے حقیقی دنیا میں بھی چال چلن کا بگڑنا لازم تھا۔ پیار کی حقیقی کہانیوں میں پیار کم اور کہانیاں زیادہ پائی جاتی رہی ہیں۔ کبھی کبھی تو کہانی بھی ایک طرف رہ جاتی ہے‘ صرف مکالمے رہ جاتے ہیں۔ اور مکالمے کہہ کر بھی بھرم کیوں رکھا جائے‘ بڑھک کہہ کر حق بیانی کا حق کیوں ادا نہ کیا جائے! حیرت کیسی اور تاسّف کیسا کہ جب فلمیں محبت سکھانے کا فریضہ انجام دیں گی تو یہی ہوگا۔
فلمیں دیکھ دیکھ کر جب ہمارے ہاں نئی نسل فلمی انداز سے محبت کے کارواں کو رواں کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہی ہوتا ہے جو فلموں میں ڈائریکٹر کے اشارے پر ہوتا ہے۔ فلمی کہانی کی طرح اچانک کوئی ڈرامائی موڑ آتا ہے اور کہانی کسی اور طرف چل پڑتی ہے۔ کبھی انسان خود حماقت کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور کبھی ظالم سماج بیچ میں آتا جاتا ہے۔ جب ایسا ہو تو اچھے خاصے محبتانہ تعلقات آنکھیں چُرانے اور شرمسار ہونے کی منزل سے گزرنے لگتے ہیں ؎
سوچا نہ تھا کہ پیار میں ایسے بھی ہوں گے امتحاں
تم بھی بنوگے اجنبی‘ ہم بھی نظر چُرائیں گے
مگر خیر‘ ہمیں تو اس پر بھی حیرت ہے کہ نام نہاد محبت کے معاملات میں شرم محسوس ہی کیوں ہوتی ہے! جب سبھی ایک کشتی کے سوار ہیں تو کس سے شرمانا اور کس بات پر شرمانا؟ ''عالمی یومِ محبت‘‘ کی مہربانی سے دل لگانے کا معاملہ بھی اب بہت حد تک وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اضافی ستم یہ کہ اب کے ''محبت کا دن‘‘ خاصے وبائی ماحول میں وارد ہوا ہے۔ گزشتہ برس بھی 14 فروری تک کورونا کی وبا کا پھیلاؤ شروع ہوچکا تھا تاہم معاملہ لاک ڈاؤن تک نہیں پہنچا تھا۔ اب کے معاملہ یہ ہے کہ ''اہلِ محبّت‘‘ ساحل پر تو کیا مل پائیں گے‘ کسی ریسٹورنٹ میں بھی ڈھنگ سے نہیں بیٹھ سکتے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے مواقع پر سنیما گھر بھی بند پڑے ہیں! کہنا ہی پڑے گا ع
خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں؟
عہدِ شباب کا ڈونگرا کبھی ہم پر بھی برسا تھا مگر آج کی نئی نسل کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہم واقعی ناداں تھے کہ گلشن میں تنگیٔ داماں کا علاج میسر ہونے پر بھی قناعت کے دامن سے لپٹے رہے! مگر صاحب‘ ہمیں اللہ نے معاملات کا حقیقت پسندی کی عینک لگاکر جائزہ لینے کی توفیق عطا کی ہے۔ ہر دور میں محبت کا نشا صرف اُن کا مقدر رہا ہے جو بڑھ کر ساغر اٹھالیں۔ ہم جب نئی نسل کی ''قابلِ رشک‘‘ بے باکی دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے ؎
یہ ''رتبۂ بلند‘‘ ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved